Click 👇 to read more about masculine and feminine in Urdu
*قصہ مذکر موئنث کا ۔۔۔۔*
1۔ بھاری بھرکم اور بڑے سائز کی چیزوں کو اُردو میں عام طور پر مذکر کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے جبکہ چھوٹی، نرم و نازک اور نفیس چیزیں عموماً موئنث گردانی جاتی ہیں۔
مثلاً موٹا اور مضبوط ہو تو رسّا (مذکر) اور پتلی اور نسبتاً کمزور ہو تو رسّی (موئنث)، اسی طرح بڑا اور وزنی ہو تو گولا (مذکر) لیکن چھوٹی اور ہلکی پھُلکی ہو تو گولی (موئنث)۔ یہی صورتِ حال َپگّڑ اور پگڑی، ٹوپ اور ٹوپی، گھڑیال اور گھڑی میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
لیکن یہ کوئی مستند اصول نہیں ہے کیونکہ اسکے بالکل برعکس کوٹھا محض ایک کمرے کا تاثر دیتا ہے جبکہ کوٹھی ایک وسیع و عریض عمارت ہوتی ہے جس میں بہت سے کمرے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ’توا‘ ایک چھوٹے سائز کی چیز ہے جس پر ایک وقت میں صرف ایک روٹی پکتی ہے لیکن ’توی‘ ایک بہت بڑا توا ہوتا ہے جس پر لنگر کے لئے بہت سی روٹیاں بیک وقت پکائی جا سکتی ہیں۔
پھر یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ ’موتی‘ چھوٹی ’ی‘ پر ختم ہونے کے باوجود ایک مذکر لفظ ہے اور بہت بڑے موتی کے لئے ہمارے پاس ’موتا‘ جیسا کوئی لفظ نہیں ہے۔
2۔ اُردو میں استعمال ہونے والے ایسے دیسی الفاظ جِن کے آخر میں الف یا گول ’ہ‘ ہو عموماً مذکر ہوتے ہیں مثلاً رسّا، گھڑی، جوتا، مٹکا، نِوالہ، حُقّہ، چولہا، ڈِبّا وغیرہ لیکن وہ دیسی الفاظ جِن کے آخر میں علامتِ تصغیر کے طور پر الف لگایا گیا ہو، موئنث ہوتے ہیں مثلاً ڈِبیّا، چُوہیا، پُلیا، پُڑیا وغیرہ۔
3۔ سنسکرت سے آنے والے کچھ الفاظ جو اپنی ہندی صورت میں ہمارے یہاں مستعمل ہیں اُن میں آخری الف یقیناً علامتِ ثانیت ہوتی ہے چنانچہ یہ الفاظ اُردو میں موئنث ہی بولے جائیں گے مثلاً مالا، گنگا، جمنا، پُروا، پچھوا، سبھا، جٹا، پوجا وغیرہ۔
4۔ عربی کہ وہ سہ حرفی الفاظ جِن کے آخر میں الف ہو ہمارے یہاں موئنث بولے جائیں گے مثلاً دعا، ادا، بقا، فنا، بلا، وفا، قضا، صدا، دوا، قبا، سزا، جزا یہ سب موئنث ہیں البتہ چند الفاظ اس سے مُستشنیٰ ہیں مثلاً زِنا، عصا، طِلا وغیرہ۔
5۔ ہندی سے آنے والے الفاظ جِن کے آخر میں چھوٹی ‘ی’ ہوتی ہے انھیں ہمارے یہاں بطور موئنث قبول کیا جاتاہے مثلاً روٹی، بوٹی، نالی، جالی، گالی، تھالی، چکّی، ڈولی، مُولی، سُولی، کٹوری، موری وغیرہ لیکن پانی، دہی، گھی، جی (دِل) اور ہاتھی وغیرہ چھوٹی ‘ی’ پر ختم ہونے کے باوجود مذکر ہیں۔
6۔ اللہ اور اسکے متبادِل نام سب مذکر ہیں مثلاً خُدا، مولا وغیرہ۔
7۔ صحائفِ آسمانی موئنث ہیں مثلاً انجیل، توریت، زبور وغیرہ مگر قرآن مذکر ہے۔ ہندوؤں کی مقدس کتابیں گیتا اور رامائن بھی موئنث ہیں۔
8۔ شراب موئنث ہے اور دیگر مُنشّی اشیاء بھی مثلاً بھنگ، افیون، چرس، کوکین وغیرہ بھی موئنث ہے۔ شراب کی تمام ولائتی اقسام موئنث ہیں مثلاً وہسکی، جِن، واڈ کا، شمپین، شیری، مارٹینی، بیئر البتہ شراب کی ایک قسم مذکر ہے: ٹھّرا!۔۔۔
لیکن ُرکئے، فارسی کا ’بادہ‘ بھی تو مذکر ہے! سگریٹ اور بیڑی اگر بڑے سائز کی بھی ہو تو موئنث ہی کہلائے گی لیکن سگار ہر صورت میں مذکر ہے، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا۔
9۔ ستارہ چونکہ مذکر ہے اس لئے اکثر ستاروں کے نام مذکر ہیں لیکن زہرہ، ناہید اور مُشتری موئنث شمار ہوتے ہیں۔
10۔ کالا، پیلا، نیلا، مٹیالا وغیرہ سب رنگ بُنیادی طور پر تو مذکر ہیں لیکن چونکہ صِفت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اس لئے مذکر اسم کے ساتھ مذکر اور موئنث اسم کے ساتھ موئنث ہو جاتے ہیں۔ مثلاً کالا گولا، نیلی چھتری، ہرا پان، پیلی پتّی، مٹیالا بادل، روپہلی دھوپ وغیرہ۔
11۔ زبان اور بولی موئنث ہیں اور تمام زبانوں کے نام بھی موئنث ہیں مثلاً فارسی، عربی، بلوچی، سندھی، یونانی، عبرانی وغیرہ۔ تاہم اِن کے آخر میں جو چھوٹی ’ی‘ ہے وہ علامتِ تانیث نہیں بلکہ علاقے یا قوم کی نسبت کو ظاہر کرتی ہے اور جِن زبانوں کے نام چھوٹی ‘ی’ پر ختم نہیں ہوتے مثلاً پشتو، سنسکرت اُردو، ہندکو، فرنچ، جرمن، ڈچ، وہ سب بھی موئنث ہی شُمار ہوتی ہیں۔
لفظ اُردو اپنے قدیم معانی میں (لشکرگاہ، فوجی پڑاؤ، شاہی دربار) مذکر تھا لیکن اب زبان کے مفہوم میں موئنث ہے۔
12۔ آواز کی نقل میں بنے ہوئے الفاظ سب موئنث ہیں مثلاً چھم چھم، رِم جھِم، سائیں سائیں، ٹِپ ٹِپ، سنسناہٹ، گڑ گڑاہٹ، دھم دھم وغیرہ۔
13۔ سال یا سن اُردو میں ہمیشہ مذکر استعمال ہوتا ہے مثلاً 1965 ان کی زندگی میں بڑا اہم تھا۔
تمام اسلامی، دیسی اور انگریزی مہینوں کے نام مذکر ہوتے ہیں جیسے نومبر گزر گیا، محرم آنے والا ہے۔ البتہ کچھ لوگ جنوری، فروری، مئی اور جولائی کو (آخر میں چھوٹی ’ی‘ ہونے کی وجہ سے) موئنث کے طور پر لیتے ہیں مثلاً جنوری گزر گئی فروری آگئی ۔
جمعرات کے سوا ہفتے کے تمام دِن مذکر ہیں۔ وقت کی تقسیم کے لئے مقرّر تمام اِکائیاں مذکر ہیں یعنی گھنٹہ، منٹ، سکینڈ، لمحہ، لحظہ، دقیقہ وغیرہ سب مذکر ہیں۔
14۔ چاندی کے سوا تمام دھاتیں اور قیمتی پتھر مذکر ہوتے ہیں مثلاً سونا، لوہا، تانبا، پیتل، ٹِین، جَست اور ہیرا، جوہر، لعل، زمرد، یاقوت، نیلم پکھراج وغیرہ سب مذکر ہیں۔
15۔ سب پہاڑوں کے نام مذکر ہوتے ہیں البتہ دریاؤں کے مذکر اور موئنث دونوں ہوتے ہیں۔ راوی، ستلج، چناب، جہلم، سندھ مذکر ہیں لیکن گنگا، جمنا وغیرہ موئنث ہیں۔
اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اُردو میں دریا بذاتِ خود مذکر ہے لیکن ہندی میں ندی موئنث ہے چنانچہ اُردو کے تمام مذکر دریا ہندی میں جا کر موئنث ہو جاتے ہیں (راوی ندی لاہور کے پاس بہتی ہے)
16۔ ‘ت’ پر ختم ہونے والے عربی اور فارسی کے اسماء(جبکہ ت سے پہلے والے حرف پر زبر ہو) موئنث بولے جاتے ہیں مثلاً شوکت، حشمت، رحمت، زحمت، حُرمت، حیرت، دولت، ثروت، صولت، عصمت، خدمت وغیرہ اور انھی کے نمونے پر ہندی سے آنے والے اسماء بھی موئنث بن گئے، مثلاً چلت پھرت، بچت، ُجگت، چاہت، چپت (تھپڑ) رنگت، سنگت، کہاوت، کھنڈت، کھپت، لاگت وغیرہ سب موئنث ہیں لیکن ’ شربت‘ مذکر ہے۔
اُردو میں تذکیرو ثانیت کے مسئلے کو گزشتہ ڈیڑھ سو سال کے دوران شعر و شاعری کے باعث بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ انیسویں صدی کے وسط سے بیسویں صدی کے آغاز تک مذکر موئنث کے جھگڑے پر سینکڑوں رسالے کتابچے اور مقالے لکھے گئے۔
اِن مضمون نگاروں کا بُنیادی مقصد غزل میں الفاظ کی درست تذکیرو ثانیت کو یقینی بنانا تھا۔ دہلی سکول اور لکھنؤ سکول کے ماہرینِ عُروض میں اس موضوع پر ساٹھ ستر برس تک گرما گرم بحثیں جاری رہیں اور مذکر موئنث کے مسئلے پر شعراء میں کئی ذیلی مکاتبِ فکر بھی پیدا ہو گئے۔
چونکہ غیر جاندار چیزوں کی جِنس کوئی فطری امر نہیں ہے بلکہ ہماری خود ساختہ چیز ہےاس لئے حتمی طور پر یہ مسئلہ ابھی حل نہیں ہو سکا اور شاید مستقبل میں بھی حل نہیں ہو سکے گا۔