Click 👇 to read more about the article
امام حسین رضی اللہ عنہ کا غم در اصل غم مصطفیٰ ﷺ ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فرمان باری تعالیٰ : ۔
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًاO وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا.
(الاحزاب، 33 : 57 – 58)
’’بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دیتے ہیں بغیر اس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اپنی اذیت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور فرمایا جو مجھے اذیت دیتا ہے وہ دراصل میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو اذیت دینے کی سزا ان پر دنیا و آخرت میں لعنت مقرر کی ہے۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر57 اور 58 میں يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ اور يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ میں اذیت دینے کا عمل ایک ہے لیکن دونوں میں فرق ہے۔ مسلمانوں کی اذیت کو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ انہوں نے کھلا ارتکاب کیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینا محض گناہ کبیرہ نہیں کہا بلکہ اسکی سزا کفر، ارتداد، ذلت آمیز عذاب اور دنیا و آخرت کی لعنت مقرر کی ہے۔ بعض لوگ واقعہ کربلا کی بحث کرتے ہوئے اس قسم کی آیات اور دلائل لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو کوئی مومن مرد کو قتل کرے اس کو اتنا عذاب ہے، یزید اور اس کے لشکر نے امام عالی مقام اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کو شہید کیا۔ انہوں نے اتنا بڑا گناہ کیا لہذا وہ فاسق و فاجر ہوگئے۔ گویا وہ امام عالی مقام اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کی اس اندازکی شہادت کو يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ میں شامل کرنا چاہتے ہیں اس سے بڑی جہالت، بغض اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم سے عداوت اور کوئی نہیں۔ کیونکہ گناہ کبیرہ کا کوئی عمل جو مسلمانوں کے ساتھ ہو وہ ظلم اور گناہ ہے مگر وہی عمل اہل مدینہ سے کوئی کرے تو اس کا معاملہ جدا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَا يُرِيْدُ اَحَدٌ اَهْلَ الْمَدِيْنَةِ بِسُوْءٍ اِلَّا اَذَابَهُ اﷲُ فِی النَّارِ ذَوْبَ الرَّصَاص اَوْ ذَوْبَ الْمِلْحِ فِی الْمَاءِ.
(مسلم، الصحيح، کتاب الحج، 2 : 992، رقم : 1362)
’’جو شخص اہل مدینہ کو تکلیف دینا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ میں اس طرح پگھلائے گا جس طرح آگ میں سیسہ پگھلتا ہے یا جس طرح نمک پانی میں پگھلتا ہے‘‘۔
کیا قرآن میں اہل مدینہ کے سوا کسی انسان کے ساتھ برائی کا ارادہ کرنے والے کی ایسی سزا کا حکم ہے؟ کیا ہر انسان کو اذیت دینا برابر ہے؟ نہیں! مگر اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل مدینہ اور عام انسان میں فرق کر دیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَلْمَدِيْنَةُ حَرَمٌ مِنْ کَذَا اِلٰی کَذَا لاَ يُقْطَعُ شَجَرُهَا وَلَا يُحْدَثُ فِيْهَا حَدَثٌ مَنْ اَحْدَثَ فِيْهَا حَدَثاً فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَالْمَلٰئِکَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ.
(بخاری، الصحيح، فضائل المدينة، 2 : 661، رقم : 1768)
’’مدینہ منورہ فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک حرم ہے اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ اس میں کوئی فتنہ بپا کیا جائے جو اس میں کوئی فتنے کا کام ایجاد کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے‘‘۔
کسی کو یہ گمان ہوسکتا ہے کہ شاید یہ حکم حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ظاہری حیات کے لئے تھا اور وصال کے بعد کونسی اذیت رہ گئی۔ اسکا جواب سورۃ الاحزاب میں ہے کہ اذیت جس طرح حیات مبارکہ میں تھی اس طرح وصال کے بعد بھی ہے۔ ارشاد فرمایا :
وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًاO
(الاحزاب، 33 : 53)
اور تمہارے لیے (ہرگز جائز) نہیں کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ (جائز) ہے کہ تم اُن کے بعد اَبد تک اُن کی اَزواجِ (مطہّرات) سے نکاح کرو، بے شک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا (گناہ) ہےo (ترجمہ عرفان القرآن)
فرمان الہٰی سے ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج بھی اسی طرح ہیں جیسے وصال سے قبل تھے۔ ان کی رحمتیں، اذیتیں، تعظیم و تکریم اور ادب و احترام ابدی ہے۔ اس لئے کبھی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گلشن کا کوئی ایک پھول بھی توڑے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گوارا نہیں بلکہ اذیت ہوگی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر کے درخت کٹیں تو انہیں اذیت ہوتی ہے تو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا گلا کٹے تو اذیّت کا عالم کیا ہوگا۔ سیدنا علی اکبر رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا جائے اور حضرت سکینہ رضی اﷲ عنہا کو رلایا جائے تو کیا مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت نہیں ہوگی۔ ان کو اذیت دینا مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینا ہے اور ان سے محبت کرنا مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنا ہے۔ ان کا ذکر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہے۔ ان کا غم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غم ہے۔ میں پوری ایمانداری، توکل، تحقیق اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ غم حسین رضی اللہ عنہ غم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور یہ سنت خدا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ امت، کربلا پر سوگوار کیوں ہے؟ ذکر حسین رضی اللہ عنہ پر آنکھیں کیوں نم ہوتی ہیں۔ واقعہ کربلا کو 14 سو سال گزر جانے کے بعد بھی غم حسین رضی اللہ عنہ میں کیوں رویا جاتا ہے؟ سادہ بات ہے کہ جس سے پیار ہو اس کو کوئی تھوڑی سی تکلیف آئی ہو اور صدیاں بھی گزر جائیں پیار کرنے والے اس کا ذکر غم سے کرتے ہیں اگر یہ بات سمجھ نہ آئے تو صرف سورہ مریم ہی کو پڑھ لیں۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے۔
فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّاO فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّاO
(مريم، 19 : 22، 23)
’’پس مریم (علیھا السلام) نے اسے پیٹ میں لے لیا اور (آبادی سے) الگ ہوکر دور ایک مقام پر جا بیٹھیںo پھر دردِ زہ انہیں ایک کھجور کے تنے کی طرف لے آیا، وہ (پریشانی کے عالم میں) کہنے لگیں : اے کاش! میں پہلے سے مرگئی ہوتی اور بالکل بھولی بسری ہوچکی ہوتی‘‘o
صدیوں پہلے جو واقعہ بیتا اللہ تعالیٰ نے صدیوں بعد اس کا ذکر قرآن میں فرمایا۔ لوگ مثال دے کر کہتے ہیں کہ واقعہ کربلا میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا ذکر کیوں کرتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے پوچھتے ہیں کہ اس نے حضرت مریم علیہ السلام کا دردِ زہ کا ذکر قرآن میں کیوں کیا؟ شدت تکلیف سے آپ علیہا السلام کی زبان سے جو کلمہ نکلا اسکا نقشہ ایک لمحہ میں کیوں کھینچ لیا؟ اگر اس پورے بیان کا مقصد اللہ کے ہاں صرف محبوبوں کا ذکر ہے تو ہم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوبوں کے غم کا ذکر کیوں نہ کریں۔ اولیاء، عرفاء، صلحاء کرام علیہم الرحمۃ اور محبت کرنے والے غم حسین رضی اللہ عنہ میں روتے تھے۔
جریر بن عبداللہ ابتری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا : ’’میں تم پر سورۃ الھکم التکاثر کی تلاوت کرتا ہوں۔ فَمَنْ بَکٰی فَلَهُ جَنَّة جو روئے گا وہ جنت میں جائے گا کچھ صحابہ رضی اللہ عنھم رو پڑے اور کچھ نہ روسکے۔ جنہیں رونا نہ آیا انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم نے بڑی کوشش کی کہ ہمیں بھی رونا آجائے لیکن ہم رو نہیں سکے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا : میں دوبارہ پڑھتا ہوں جو رو پڑے ان کے لئے جنت ہے اور جس کو کوشش کے باوجود رونا نہ آئے وہ رونے والی شکل ہی بنالے یا رونے والوں میں شامل ہوجائے۔
(ترمذی، نوادرالاصول فی احادیث الرسول، 2 : 198)
سو غم کے ذکر میں رونا سنت ہوگئی۔ آقا علیہ السلام کو اپنے قلب و باطن میں رقت، شکستگی پیدا کرنے کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رقت و بکا کی تعلیم دیتے تھے۔ گویا اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے غم میں رونا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنت صحابہ رضی اللہ عنہم ہے۔ کوئی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کو اذیت دے یہ رب کوگوارا نہیں کیونکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیھم السلام اس کائنات میں تشریف لائے لیکن کبھی کسی اور نبی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسی بات نہیں فرمائی، جیسی سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 53 میں فرمائی جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانے پر دعوت دی تو انہوں نے واپس جانے میں دیر کردی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کہ تمہارا دیر تک بیٹھے رہنا میرے محبوب کو اذیت دیتا ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ اگر یہ تکلیف بھی رب کو گوارہ نہیں تو دس محرم الحرام یوم عاشورہ کی اذیتوں کا عالم کیا ہوگا۔ کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کو سمجھا ہی نہیں۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کے گھر کھانے کے بعد صحابہ رضی اللہ عنھم بیٹھے رہیں تو رب تعالیٰ فرماتا ہے : باتوں میں دل لگا کر نہ بیٹھا کرو۔ اس سے میرے محبوب کو تکلیف ہوتی ہے پھر بات یہاں ختم نہیں کی بلکہ مزید فرمایا : تم جانتے ہو کہ میرا محبوب بڑا حیا دار ہے وہ اپنی زبان سے تمہیں کبھی نہیں کہے گا کہ اب چلے جاؤ۔ یہ بات کہنے میں میرے محبوب کو حیا آتی ہے۔ اس لئے ہر ہر لحظہ ہر قسم کی اذیتوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچانا میں نے اپنے ذمہ لیا ہے۔ میں مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محافظ اور گارڈ ہوں۔ دوسرے مقام پر سورۃ توبہ میں فرمایا : وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌO (التوبہ، 9 : 61) اور جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی بدعقیدگی، بدگمانی اور بدزبانی کے ذریعے اذیت پہنچاتے ہیں ان کے لئے بڑا درد ناک عذاب ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ہے مگر یوم عاشورہ کے روز اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی اذیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت تھی یا نہ تھی۔ ان سے محبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت تھی یا نہ تھی۔ ان کی خوشی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی تھی یا نہ تھی اور انہیں تکلیف دینا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف دینا تھی یا نہ تھی۔
یہاں پر بنیادی بات جو بتانا چاہتا ہوں وہ سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کی شان اقدس کے متعلق ہے حضرت مِسْوَر بن محزمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّيْ فَمَنْ اَغْضَبَهَا اَغْضَبَنِيْ. وَيُؤْذِيْنِيْ مَا آذَاهَا.
(بخاری، الصحيح، کتاب المناقب، 3، 1361، رقم : 3510 / مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، 4 : 1903، رقم 2449)
’’میری جان کے دو حصے فاطمہ رضی اللہ عنہا میں ہیں پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی‘‘۔
بَضْعَةٌ عربی زبان میں تین سے نو تک کے عدد کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں سورۃ یوسف اور سورۃ روم میں بضعۃ کا لفظ سات سالوں کے لئے آیا ہے۔ جب آپ دس کے یونٹ میں سات کو دیکھیں تو ساڑھے تین ایک تہائی، ساڑھے تین دو تہائی اور ساڑھے تین ساڑھے نو بن گیا، تو دس کے یونٹ میں ’’7‘‘ دو تہائی بنتا ہے۔ اس لئے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ (رضی اللہ عنہا) سے میرا تعلق یہ ہے کہ دو تہائی جان میری فاطمہ (رضی اللہ عنہا) میں ہے۔ لہذا جس نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا۔ جس نے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔ اذیت کی بات ہورہی ہے تو کیا اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کو اذیت دینا اور پھر جنت کی توقع کرنا، مسلمانی کا دعویٰ کرنا، ایمان کی بات کرنا اور آخرت میں کسی حصے کا دعویٰ رکھنا، یہ حق کسی کو نہیں ہے۔ اس لئے کہ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت ہی ایمان ہے اور جنت اسے ہی ملے گی جس کو سیدہ فاطمۃ الزہراء علیھا السلام دینا چاہیں گی۔ جنت اور آخرت انہی کی ہے۔ جس کو سیدہ فاطمہ علیھا السلام، حسن و حسین علیھما السلام نہیں چاہیں گے اس کو جنت نہیں مل سکتی۔ وہ جنت کے وارث ہونگے اور سب سے پہلے جنت میں داخل ہونگے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَخْبَرَنِيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم اَنَّ اَوَّلَ مَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ اَنَا وَفَاطِمَةُ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ قُلْتُ : يَارَسُوْلَ اللّٰهِ، فَمُحِبُّوْنَا؟ قَالَ : مِنْ وَرَائِکُمْ. (حاکم، المستدرک، 3 : 164، رقم : 4723)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا کہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے، میں (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ خود) فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم ہیں۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم سے محبت کرنے والے کہاں ہونگے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (وہ) تمہارے پیچھے پیچھے جنت میں ہونگے‘‘۔
اسی حدیث کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ یہ بات اس لئے بھی سوچنے والی ہے کہ کون کونسے صحابہ رضی اللہ عنہم اور امہات المومنین میں سے ہیں جنہوں نے ان کی شان میں حدیثیں روایت نہ کی ہوں۔ جن سے دل میں محبت اور پیار نہ ہو کیا وہ ایسی روایتیں بیان کرتے ہیں۔ یہ اعزاز آقا علیہ السلام کے صحابہ کو ہی نصیب ہوا ہے۔ دراصل یہ اس امت کو ایک دائمی اور نہ ختم ہونے والے دنگہ و فساد میں مبتلا کرنے والے قصے ہیں جنہوں نے دلوں سے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت کو نکال دیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع دونوں حضرات کی احادیث کی کتابیں جس زمانے میں مدّون ہوئیں اس وقت دو ادوار گزر رہے تھے۔ پہلا دور بنو امیہ کا اور دوسرا بنو عباس کا تھا۔ بنو امیہ کے حکمرانوں سے انعام اور شاباش لینے کے لئے کچھ لوگ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ یا اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے خلاف اور بنو امیہ کی شان میں باتیں گھڑ گھڑ کر بیان کرتے اور ان سے حدیثیں منسوب کرکے روایت کرتے اور کتابیں لکھتے۔ جب بنو عباس کا دور آیا تو اس دور کے کچھ لوگ بنو عباس کے حکمرانوں کو خوش کرنے اور انعامات وصول کرنے کے لئے بنو امیہ کے خلاف اقوال گھڑتے تاکہ وہ ان کے محب کہلائیں اس طرح دونوں ادوار بیتے اور دونوں میں وضع حدیث کا فتنہ تھا۔ دونوں ادوار میں اپنے اپنے مطلب کو پورا کرنے کے لئے جھوٹے اقوال گھڑے گئے، انہیں احادیث کا نام دیا گیا۔ اس طرح صدیوں سے وہ وضع کی گئیں حدیثیں کتابوں میں اب تک منتقل ہوتی آرہی ہیں یہی وجہ ہے کہ اس فتنے نے امت کو انتہا تک پہنچادیا ہے۔ آج امت ان اصل روایات سے لاعلم ہے جنہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خود آقا علیہ السلام کی زبان اقدس سے سن کر اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی شان میں بیان کیں تھیں۔ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ، حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی شان میں احادیث روایت کی ہیں۔ بتانا مقصود یہ تھا کہ ایک تو ان (اہل بیت رضی اللہ عنہم) کی محبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور ان کو اذیت دینا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینا ہے اور دوسرا یہ کہ قیامت اور جنت کے وارث ہی یہی ہیں۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ روح المعانی میں فرماتے ہیں : ’’میری بصیرت و تحقیق کہتی ہے کہ یزید بدبخت آقا علیہ السلام کی رسالت پر ہی یقین نہیں رکھتا تھا۔ وہ بے ایمان کافر تھا۔ اگر رسالت پر یقین رکھتا ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح سے اذیت نہ دیتا۔ جو لوگ یزید کو بچاتے پھرتے اور اس کی عزت و ناموس کا تحفظ کرتے اور اس کو خلیفہ اور امیرالمومنین بناتے ہیں۔ وہ یہ تو جان لیں کہ اس خبیث نے تمہیں کیا دینا ہے۔ دوزخ ہی دے گا جہاں خود جل رہا ہے۔ شائد دوزخ کا کوئی درجہ بھی اس بے ایمان کو قبول کرے گا یا نہیں۔ اس لئے ان کی نوکری کرو جو جنت کے مالک ہیں تاکہ کچھ مل جائے‘‘۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَلْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّةِ.
(ترمذی، السنن، کتاب المناقب، 5 : 656، رقم، 3768)
’’حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں (شہزادے) جنتی جوانوں کے سردار ہیں‘‘۔
آپ غور کریں اس حدیث کے راوی حضرت ابو سعید خدری، حضرت ابو حذیفہ، حضرت علی المرتضی، حضرت انس بن مالک، حضرت عمر فاروق، حضرت عبداللہ ابن عمر، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ یہ وہ صحابہ رضوان اللہ علیہم ہیں جو اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی سیادت کا اعلان احادیث روایت کرکے کررہے ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود سے حدیث مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ اَحَبّنِيْ فَلْيُحِبَّ هَذانِ. ابن حبان، الصحيح، 15 : 426، رقم : 6970
’’جو مجھ سے محبت کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کرے‘‘۔
آپ نے اندازہ کیا کہ آقا علیہ السلام کو اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے کتنی محبت ہے۔ قیامت، جنت سب ان (رضی اللہ عنہم) کی ہے۔ جس طرح اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے ایک رخ محبت کا ہے اسی طرح دوسرا رخ بغض کا ہے۔ حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم روایت کرتے ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ اَبْغَضَهُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِيْ. ترمذی، تهذيب الکمال، 8 : 437
’’جس نے ان دونوں (حسن و حسین رضی اللہ عنہما) سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا‘‘۔
تو گویا اہل بیت رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنے والے غیر المغضوب علیہم میں شامل ہیں اور جس سے اللہ بغض رکھے گا وہ سیدھا دوزخ میں جائے گا۔ اب امام حسین رضی اللہ عنہ کو اذیت، اس کا عالم کیا ہے۔ حدیث میں ہے یزید بن ابوزیاد اور یحیٰ بن ابوکثیر روایت کرتے ہیں۔
خَرَجَ النَّبِی صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ بَيْتٍ عَائشةَ فَمَرَّ عَلَی فَاطِمَةَ فَسَمِعَ حُسَيْنًا يُبْکِيْ رضی الله عنه فَقَالَ اَلَمْ تَعْلَمِيْ اَنَّ بَکَاءَ هُ يُؤْذِيْنِيْ. طبرانی، المعجم الکبير، 3، 116، رقم : 2847
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلے، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا (کے گھر کے پاس سے) گزرے تو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو روتے ہوئے سنا تو فرمایا : فاطمہ کیا تو نہیں جانتی کہ مجھے اس کا رونا تکلیف دیتا ہے‘‘۔
جب حسین رضی اللہ عنہ کا رونا آج برداشت نہیں کرسکتے تو کربلا میں آقا علیہ السلام نے ان کی تکلیف کب برداشت کی ہوگی۔ اور کیسے برداشت کی ہوگی؟ یہی وجہ تھی کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔ سیدنا مولیٰ علی المرتضی بھی شہید ہوئے۔ سب شہادتیں اکبر و اعظم ہیں مگر کسی کی شہادت کے دن اس کے مشہد پر خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں تشریف لے گئے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ میری شہادت سے ایک رات قبل آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عثمان آج روزہ رکھ لینا اور افطار میرے پاس آ کر کرلینا جو شہید ہوا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں خود پہنچا اور دوسری طرف یہ عالم کہ کربلا کا دن ہے۔ ادھر شہادتیں ہورہی ہیں اور ادھر آقا علیہ السلام بنفس نفیس صبح سے آخری شہادت تک میدان کربلا میں خود موجود ہیں۔ مشہدِ حسین رضی اللہ عنہ اور میدانِ کربلا میں خود موجود رہنا یہ شرف آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے کسی اور کو نہیں دیا۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی۔ ام المومنین حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا کو مٹی دی اور فرمایا کہ جب یہ سرخ ہوجائے تو سمجھ لینا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں حتی کہ میدان کربلا اور سن شہادت کی خبر بھی تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی، کتب حدیث میں کثرت سے اس پر احادیث موجود ہیں۔ صحیح بخاری کتاب العلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو طرح کی خبریں اور علم سیکھے۔ ایک قسم اس علم کی ہے جو میں مجمع عام میں ہرکس و ناکس کے سامنے بیان کرتا رہتا ہوں۔ وہ علم احکام شریعت اور احکام طریقت کا ہے۔ دوسرا علم ایسے حقائق و واقعات اور خبریں ہیں کہ اگر وہ لوگوں کے سامنے بیان کردوں تو میری گردن حلق سے کاٹ دی جائے۔ صحیح بخاری کی یہ حدیث کتاب العلم میں ہے اس پر امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ وہ علم جو سیدنا ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھا اور جسے عوام الناس کے سامنے بیان کرتے کتراتے اور خواص کے سامنے بیان کرتے تھے اس علم میں سے یہ بھی تھا کہ جب دس ہجری کا سن قریب آگیا تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے۔
’’اے اللہ میں سن ساٹھ ہجری اور تخت سلطنت پر نوعمر لونڈوں کے حکمران بن کر بیٹھنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور سن ساٹھ ہجری کا سورج طلوع ہونے سے پہلے مجھے دنیا سے اٹھالینا‘‘۔
امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
’’یزید کے حکومت پر بیٹھنے سے ایک سال پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعا قبول کی اور انہیں اپنے پاس بلالیا‘‘۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں اس علم میں سے ایک یہ بھی تھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں مروان بن حکم سے خطاب فرمایا : اے مروان! میں نے صادق المصدوق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’قریش کے خاندان میں سے ایک گھرانہ کے نادان، بیوقوف لونڈوں کے ہاتھوں میری امت برباد ہوجائے گی‘‘۔ گویا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری امت کی ہلاکت قرار دیا ہے۔ اس وقت تو مروان نے یہ سن کر کہا کہ ان لونڈوں پر خدا کی لعنت ہو لیکن اسے خبر نہ تھی کہ اس کے ہی خاندان کے لونڈوں کی بات ہورہی ہے۔
امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قریش کے وہ بیوقوف لونڈے جنہوں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو تباہ کیا تھا ان میں سے پہلا لونڈا یزید تھا۔ صحیح ترمذی میں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے خواب دیکھا کہ بنو امیہ کے لوگ میری قبر پر کھیل رہے ہیں۔ آقا علیہ السلام کا قلب اطہر مغموم ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکوثر اور سورۃ القدر نازل کی اور فرمایا کہ یہ ایک رات ایک ہزار مہینے سے افضل ہے‘‘۔ یعنی میدان کربلا میں جو اہل بیت رضی اللہ عنہم نے ایک رات گزاری وہ مثل لیلۃ القدر تھی۔ وہ بنو امیہ کے ہزار مہینوں سے افضل تھی۔
لوگ حدیث قسطنطنیہ کا نام لیتے ہیں کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو پہلا لشکر قسطنطنیہ پر حملہ کرے گا میں ان کی بخشش و مغفرت کی بشارت دیتا ہوں۔ یہ جہالت کی انتہا ہے۔ متن حدیث میں قسطنطنیہ کا نام تک نہیں بلکہ مدینہ، قیصر کا نام آیا ہے۔ لفظ قسطنطنیہ کا ذکر دوسری سینکڑوں احادیث میں اس ضمن میں آیا ہے کہ قرب قیامت امام مہدی علیہ السلام قسطنطنیہ فتح کریں گے۔ جو کہتے ہیں کہ اس بشارت والی حدیث میں قسطنطنیہ کا ذکر ہے تو وہ مغالطے میں ہے۔ اصل متن یہ ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا۔
اَوَّلُ جَيْشُ مِنْ اُمَّتِيْ يَغْزُوْنَ مَدِيْنَةَ قَيْصَرَ مَغْفُوْرٌ لَهُمْ.
(بخاری، الصحيح، ماقيل فی قتال الروم، 3، 1060، رقم : 2766)
’میری امت کا جو پہلا لشکر قیصر روم کے پایہ تخت میں جنگ کرے گا اس کے لئے بخشش و مغفرت کی بشارت ہے‘‘۔
اس حدیث مبارکہ میں پہلی بار جانے والے لشکر کی بخشش و مغفرت کی بشارت دی گئی ہے جبکہ یزید بطور سزا جس لشکر میں بھیجا گیا تھا وہ آٹھواں لشکر تھا۔ تو جسے سزا کے طور پر بھیجا جائے کیا وہ مغفرت کا حقدار بنے گا ؟
وہ یزید جس نے تین دین روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خچر باندھے اور تین دین مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اذان نہ ہوئی۔ جس نے معرکہ کربلا برپا کیا اور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تڑپایا۔ شہر مدینہ میں خون بہایا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور اور مسجد نبوی کو ویران کیا، مکہ پر پتھروں کی بارش کی اور خانہ کعبہ کی چھت کو جلا دیا وہ بدبخت مغفرت کا حقدار کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس کا انجام تو یہ ہوا کہ کعبہ جلانے کے عمل کے دوران وہ تین دن تڑپا اور چوتھے دن واصل جہنم ہوا۔ اس کو تو توبہ بھی نصیب نہیں ہوئی۔ اگر کرتا بھی تو قبول نہ ہوتی۔ 10 محرام الحرام کو جب سیدہ زینب رضی اللہ عنہا قافلہ لے کر دمشق پہنچی تو بازاروں اور گھروں کی چھتوں پر لوگ جمع ہوگئے کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ یہ کٹے ہوئے سر کن کے ہیں اور یہ جو قیدی آرہے ہیں کون ہیں؟ صرف اتنا اعلان کیا ہوا تھا کہ حکومت کے کچھ باغیوں کو قتل کردیا گیا ہے اور ان کے سر یزید کے دربار میں پہنچائے جارہے ہیں۔ لوگ باغیوں کو دیکھنے کے لئے چھتوں پر چڑھ رہے تھے۔ بازار دمشق میں ہجوم ہوگیا۔ قافلہ رک گیا۔ (آج وہ بازار حامدیہ کہلاتا ہے) بھوک، پیاس اور پریشان حالی تھی۔ چھت سے ایک خاتون نے دیکھا کہ قیدی ہیں پریشان حال ہیں تو اس نے پانی، کچھ کھانے کی چیزیں، کچھ کپڑے، دوپٹے اور ضرورت کا سامان بھیجا۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے سارا کچھ دیکھ کر اس خاتون کو بلوایا۔ جب وہ قریب آئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بی بی تو نے ہمارے ساتھ بڑی نیکی کی ہے۔ کوفہ سے لے کر دمشق تک کسی نے ہمیں پوچھا تک نہیں۔ کسی نے ہمارے حال کی خبر نہیں لی۔ تم کون ہو؟ اور ہمیں کیا سمجھ کر ہم سے اتنی بھلائی کی‘‘۔ اس نے کہا : ’’میں اور آپ کچھ نہیں جانتی دراصل میں اپنی اوائل عمر میں مدینہ رہتی تھی اور حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھی۔ جب انکا وصال ہوگیا تو مدینہ چھوڑ کر دمشق آگئی‘‘۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ’’اگر تم نے اتنی نیکی کی ہے تو تمہیں کیا معلوم ہے ہم کون ہیں‘‘؟ اس نے جواب دیا : ’’مجھے اور تو کچھ معلوم نہیں لیکن جب سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے وصال کا آخری وقت تھا تو میں نے عرض کیا : بی بی مجھے کچھ وصیت کردیں اس وصیت پر عمر بھر عمل کروں گی۔ وہ مجھے جانتی تھی کہ میں دمشق سے ہوں۔ انہوں نے مجھے وصیت کی کہ بیٹا ایک ہی وصیت ہے کبھی قیدی نظر آئیں توان سے اچھا سلوک کرنا۔ میں نے سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی وصیت پر عمل کیا ہے‘‘۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں۔ ’’اللہ تیرا بھلا کرے۔ بتا تو نے ہم سے اتنی نیکی کی ہم تیرے لئے کیا دعا کریں۔ ہم تو اس وقت خود مہاجر ہیں۔ قیدی، مظلوم، بے یار و مددگار ہیں ہم تیرے لئے کیا دعا کرسکتے ہیں‘‘۔ اس نے کہا : ’’بی بی میری ایک ہی آرزو ہے‘‘ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے پوچھا : ’’کیا آرزو ہے‘‘؟ اس نے کہا : جب میں وہاں سے چلی تھی اس وقت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے چھوٹے چھوٹے شہزادے تھے۔ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اور بی بی زینب رضی اللہ عنہا۔ اب زمانہ گزر گیا۔ میری اس وقت سے آرزو ہے کہ مجھے حسن و حسین رضی اللہ عنہما اور زینب رضی اللہ عنہا کی زیارت ہو جائے۔ آپ رضی اللہ عنہا دعا کردیں کہ مجھے ان کی زیارت ہو جائے۔ بی بی زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ’’تیری دعا قبول ہوگئی ہے۔ میں زینب (رضی اللہ عنہا) ہوں، قیدی ہوں اور یہ جو سر کٹا ہوا نیزے پر دیکھ رہی ہو یہ حسین (رضی اللہ عنہ) ہیں‘‘۔
پھر سیدہ زینب رضی اللہ عنہا قافلہ لے کر دربار یزید میں پہنچتی ہیں۔ اس بدبخت نے حکم دیا تھا کہ قیدی میرے سامنے پیش کئے جائیں وہ گستاخانہ انداز کے ساتھ حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا اور حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے ساتھ وہ ضعیف خاتون تھی جو سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھی جنہوں نے اپنی گود میں حسن و حسین رضی اللہ عنہما اور زینب رضی اللہ عنہا کو پالا تھا۔ ان کا نام حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا تھا۔ (حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا مزار آج بھی دمشق کے قبرستان میں ہے) بڑھاپے کی وجہ سے ان کی کمر جھک گئی تھی مگر جوش میں سیدھی کھڑی ہوگئیں اور فرمانے لگیں۔ ’’بدبخت یزید تو جن کو لونڈی کہہ رہا ہے خبردار! یہ دنیا و آخرت اور کل کائنات کی وارث ہیں۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہزادیاں ہیں۔ تمیز سے بات کر‘‘۔ یزید نے اپنے فوجیوں کو دیکھا اور کہا کہ یہ بوڑھی خاتون کون ہے؟ جو ہمارے دربار میں بے ادبی کررہی ہے اس کی خبر لو۔ اس کے فوجی اٹھے۔ انہوں نے تلوار لہرائی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو بس اتنا عمل کرنے کی دیر تھی کہ خود یزید کے فوجیوں میں سے حبشہ کے رہنے والے یزید کی اپنی فوج کے سینکڑوں حبشی جوان تلوار نکال کر کھڑے ہوگئے۔ ان کی قومی غیرت اور وطن کی محبت نے جوش مارا۔ اور کہا : خبردار! ’’یہ ہمارے وطن حبشہ کی ماں ہے۔ اگر کسی نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو تلواروں سے گردنیں کاٹ دیں گے‘‘۔ جب حبشہ کی ایک خاتون کی خاطر تلواریں لہرائی گئیں تو سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے مڑ کر مدینہ کی طرف ہاتھ اٹھائے اور عرض کیا : بابا! آج حبشہ کی ایک بیٹی کے لئے سینکڑوں تلواریں نکل آئیں مگر آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیوں کی حفاظت کے لئے کوئی نہیں۔😢😢😢امام حسین رضی اللہ عنہ کا غم در اصل غم مصطفیٰ ﷺ ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فرمان باری تعالیٰ : ۔
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًاO وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا.
(الاحزاب، 33 : 57 – 58)
’’بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دیتے ہیں بغیر اس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اپنی اذیت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور فرمایا جو مجھے اذیت دیتا ہے وہ دراصل میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو اذیت دینے کی سزا ان پر دنیا و آخرت میں لعنت مقرر کی ہے۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر57 اور 58 میں يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ اور يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ میں اذیت دینے کا عمل ایک ہے لیکن دونوں میں فرق ہے۔ مسلمانوں کی اذیت کو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ انہوں نے کھلا ارتکاب کیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینا محض گناہ کبیرہ نہیں کہا بلکہ اسکی سزا کفر، ارتداد، ذلت آمیز عذاب اور دنیا و آخرت کی لعنت مقرر کی ہے۔ بعض لوگ واقعہ کربلا کی بحث کرتے ہوئے اس قسم کی آیات اور دلائل لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو کوئی مومن مرد کو قتل کرے اس کو اتنا عذاب ہے، یزید اور اس کے لشکر نے امام عالی مقام اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کو شہید کیا۔ انہوں نے اتنا بڑا گناہ کیا لہذا وہ فاسق و فاجر ہوگئے۔ گویا وہ امام عالی مقام اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کی اس اندازکی شہادت کو يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ میں شامل کرنا چاہتے ہیں اس سے بڑی جہالت، بغض اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم سے عداوت اور کوئی نہیں۔ کیونکہ گناہ کبیرہ کا کوئی عمل جو مسلمانوں کے ساتھ ہو وہ ظلم اور گناہ ہے مگر وہی عمل اہل مدینہ سے کوئی کرے تو اس کا معاملہ جدا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَا يُرِيْدُ اَحَدٌ اَهْلَ الْمَدِيْنَةِ بِسُوْءٍ اِلَّا اَذَابَهُ اﷲُ فِی النَّارِ ذَوْبَ الرَّصَاص اَوْ ذَوْبَ الْمِلْحِ فِی الْمَاءِ.
(مسلم، الصحيح، کتاب الحج، 2 : 992، رقم : 1362)
’’جو شخص اہل مدینہ کو تکلیف دینا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ میں اس طرح پگھلائے گا جس طرح آگ میں سیسہ پگھلتا ہے یا جس طرح نمک پانی میں پگھلتا ہے‘‘۔
کیا قرآن میں اہل مدینہ کے سوا کسی انسان کے ساتھ برائی کا ارادہ کرنے والے کی ایسی سزا کا حکم ہے؟ کیا ہر انسان کو اذیت دینا برابر ہے؟ نہیں! مگر اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل مدینہ اور عام انسان میں فرق کر دیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَلْمَدِيْنَةُ حَرَمٌ مِنْ کَذَا اِلٰی کَذَا لاَ يُقْطَعُ شَجَرُهَا وَلَا يُحْدَثُ فِيْهَا حَدَثٌ مَنْ اَحْدَثَ فِيْهَا حَدَثاً فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَالْمَلٰئِکَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ.
(بخاری، الصحيح، فضائل المدينة، 2 : 661، رقم : 1768)
’’مدینہ منورہ فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک حرم ہے اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ اس میں کوئی فتنہ بپا کیا جائے جو اس میں کوئی فتنے کا کام ایجاد کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے‘‘۔
کسی کو یہ گمان ہوسکتا ہے کہ شاید یہ حکم حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ظاہری حیات کے لئے تھا اور وصال کے بعد کونسی اذیت رہ گئی۔ اسکا جواب سورۃ الاحزاب میں ہے کہ اذیت جس طرح حیات مبارکہ میں تھی اس طرح وصال کے بعد بھی ہے۔ ارشاد فرمایا :
وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًاO
(الاحزاب، 33 : 53)
اور تمہارے لیے (ہرگز جائز) نہیں کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ (جائز) ہے کہ تم اُن کے بعد اَبد تک اُن کی اَزواجِ (مطہّرات) سے نکاح کرو، بے شک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا (گناہ) ہےo (ترجمہ عرفان القرآن)
فرمان الہٰی سے ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج بھی اسی طرح ہیں جیسے وصال سے قبل تھے۔ ان کی رحمتیں، اذیتیں، تعظیم و تکریم اور ادب و احترام ابدی ہے۔ اس لئے کبھی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گلشن کا کوئی ایک پھول بھی توڑے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گوارا نہیں بلکہ اذیت ہوگی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر کے درخت کٹیں تو انہیں اذیت ہوتی ہے تو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا گلا کٹے تو اذیّت کا عالم کیا ہوگا۔ سیدنا علی اکبر رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا جائے اور حضرت سکینہ رضی اﷲ عنہا کو رلایا جائے تو کیا مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت نہیں ہوگی۔ ان کو اذیت دینا مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینا ہے اور ان سے محبت کرنا مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنا ہے۔ ان کا ذکر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہے۔ ان کا غم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غم ہے۔ میں پوری ایمانداری، توکل، تحقیق اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ غم حسین رضی اللہ عنہ غم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور یہ سنت خدا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ امت، کربلا پر سوگوار کیوں ہے؟ ذکر حسین رضی اللہ عنہ پر آنکھیں کیوں نم ہوتی ہیں۔ واقعہ کربلا کو 14 سو سال گزر جانے کے بعد بھی غم حسین رضی اللہ عنہ میں کیوں رویا جاتا ہے؟ سادہ بات ہے کہ جس سے پیار ہو اس کو کوئی تھوڑی سی تکلیف آئی ہو اور صدیاں بھی گزر جائیں پیار کرنے والے اس کا ذکر غم سے کرتے ہیں اگر یہ بات سمجھ نہ آئے تو صرف سورہ مریم ہی کو پڑھ لیں۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے۔
فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّاO فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّاO
(مريم، 19 : 22، 23)
’’پس مریم (علیھا السلام) نے اسے پیٹ میں لے لیا اور (آبادی سے) الگ ہوکر دور ایک مقام پر جا بیٹھیںo پھر دردِ زہ انہیں ایک کھجور کے تنے کی طرف لے آیا، وہ (پریشانی کے عالم میں) کہنے لگیں : اے کاش! میں پہلے سے مرگئی ہوتی اور بالکل بھولی بسری ہوچکی ہوتی‘‘o
صدیوں پہلے جو واقعہ بیتا اللہ تعالیٰ نے صدیوں بعد اس کا ذکر قرآن میں فرمایا۔ لوگ مثال دے کر کہتے ہیں کہ واقعہ کربلا میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا ذکر کیوں کرتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے پوچھتے ہیں کہ اس نے حضرت مریم علیہ السلام کا دردِ زہ کا ذکر قرآن میں کیوں کیا؟ شدت تکلیف سے آپ علیہا السلام کی زبان سے جو کلمہ نکلا اسکا نقشہ ایک لمحہ میں کیوں کھینچ لیا؟ اگر اس پورے بیان کا مقصد اللہ کے ہاں صرف محبوبوں کا ذکر ہے تو ہم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوبوں کے غم کا ذکر کیوں نہ کریں۔ اولیاء، عرفاء، صلحاء کرام علیہم الرحمۃ اور محبت کرنے والے غم حسین رضی اللہ عنہ میں روتے تھے۔
جریر بن عبداللہ ابتری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا : ’’میں تم پر سورۃ الھکم التکاثر کی تلاوت کرتا ہوں۔ فَمَنْ بَکٰی فَلَهُ جَنَّة جو روئے گا وہ جنت میں جائے گا کچھ صحابہ رضی اللہ عنھم رو پڑے اور کچھ نہ روسکے۔ جنہیں رونا نہ آیا انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم نے بڑی کوشش کی کہ ہمیں بھی رونا آجائے لیکن ہم رو نہیں سکے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا : میں دوبارہ پڑھتا ہوں جو رو پڑے ان کے لئے جنت ہے اور جس کو کوشش کے باوجود رونا نہ آئے وہ رونے والی شکل ہی بنالے یا رونے والوں میں شامل ہوجائے۔
(ترمذی، نوادرالاصول فی احادیث الرسول، 2 : 198)
سو غم کے ذکر میں رونا سنت ہوگئی۔ آقا علیہ السلام کو اپنے قلب و باطن میں رقت، شکستگی پیدا کرنے کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رقت و بکا کی تعلیم دیتے تھے۔ گویا اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے غم میں رونا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنت صحابہ رضی اللہ عنہم ہے۔ کوئی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کو اذیت دے یہ رب کوگوارا نہیں کیونکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیھم السلام اس کائنات میں تشریف لائے لیکن کبھی کسی اور نبی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسی بات نہیں فرمائی، جیسی سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 53 میں فرمائی جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانے پر دعوت دی تو انہوں نے واپس جانے میں دیر کردی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کہ تمہارا دیر تک بیٹھے رہنا میرے محبوب کو اذیت دیتا ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ اگر یہ تکلیف بھی رب کو گوارہ نہیں تو دس محرم الحرام یوم عاشورہ کی اذیتوں کا عالم کیا ہوگا۔ کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کو سمجھا ہی نہیں۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کے گھر کھانے کے بعد صحابہ رضی اللہ عنھم بیٹھے رہیں تو رب تعالیٰ فرماتا ہے : باتوں میں دل لگا کر نہ بیٹھا کرو۔ اس سے میرے محبوب کو تکلیف ہوتی ہے پھر بات یہاں ختم نہیں کی بلکہ مزید فرمایا : تم جانتے ہو کہ میرا محبوب بڑا حیا دار ہے وہ اپنی زبان سے تمہیں کبھی نہیں کہے گا کہ اب چلے جاؤ۔ یہ بات کہنے میں میرے محبوب کو حیا آتی ہے۔ اس لئے ہر ہر لحظہ ہر قسم کی اذیتوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچانا میں نے اپنے ذمہ لیا ہے۔ میں مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محافظ اور گارڈ ہوں۔ دوسرے مقام پر سورۃ توبہ میں فرمایا : وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌO (التوبہ، 9 : 61) اور جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی بدعقیدگی، بدگمانی اور بدزبانی کے ذریعے اذیت پہنچاتے ہیں ان کے لئے بڑا درد ناک عذاب ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ہے مگر یوم عاشورہ کے روز اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی اذیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت تھی یا نہ تھی۔ ان سے محبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت تھی یا نہ تھی۔ ان کی خوشی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی تھی یا نہ تھی اور انہیں تکلیف دینا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف دینا تھی یا نہ تھی۔
یہاں پر بنیادی بات جو بتانا چاہتا ہوں وہ سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کی شان اقدس کے متعلق ہے حضرت مِسْوَر بن محزمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّيْ فَمَنْ اَغْضَبَهَا اَغْضَبَنِيْ. وَيُؤْذِيْنِيْ مَا آذَاهَا.
(بخاری، الصحيح، کتاب المناقب، 3، 1361، رقم : 3510 / مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، 4 : 1903، رقم 2449)
’’میری جان کے دو حصے فاطمہ رضی اللہ عنہا میں ہیں پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی‘‘۔
بَضْعَةٌ عربی زبان میں تین سے نو تک کے عدد کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں سورۃ یوسف اور سورۃ روم میں بضعۃ کا لفظ سات سالوں کے لئے آیا ہے۔ جب آپ دس کے یونٹ میں سات کو دیکھیں تو ساڑھے تین ایک تہائی، ساڑھے تین دو تہائی اور ساڑھے تین ساڑھے نو بن گیا، تو دس کے یونٹ میں ’’7‘‘ دو تہائی بنتا ہے۔ اس لئے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ (رضی اللہ عنہا) سے میرا تعلق یہ ہے کہ دو تہائی جان میری فاطمہ (رضی اللہ عنہا) میں ہے۔ لہذا جس نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا۔ جس نے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔ اذیت کی بات ہورہی ہے تو کیا اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کو اذیت دینا اور پھر جنت کی توقع کرنا، مسلمانی کا دعویٰ کرنا، ایمان کی بات کرنا اور آخرت میں کسی حصے کا دعویٰ رکھنا، یہ حق کسی کو نہیں ہے۔ اس لئے کہ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت ہی ایمان ہے اور جنت اسے ہی ملے گی جس کو سیدہ فاطمۃ الزہراء علیھا السلام دینا چاہیں گی۔ جنت اور آخرت انہی کی ہے۔ جس کو سیدہ فاطمہ علیھا السلام، حسن و حسین علیھما السلام نہیں چاہیں گے اس کو جنت نہیں مل سکتی۔ وہ جنت کے وارث ہونگے اور سب سے پہلے جنت میں داخل ہونگے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَخْبَرَنِيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم اَنَّ اَوَّلَ مَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ اَنَا وَفَاطِمَةُ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ قُلْتُ : يَارَسُوْلَ اللّٰهِ، فَمُحِبُّوْنَا؟ قَالَ : مِنْ وَرَائِکُمْ. (حاکم، المستدرک، 3 : 164، رقم : 4723)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا کہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے، میں (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ خود) فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم ہیں۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم سے محبت کرنے والے کہاں ہونگے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (وہ) تمہارے پیچھے پیچھے جنت میں ہونگے‘‘۔
اسی حدیث کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ یہ بات اس لئے بھی سوچنے والی ہے کہ کون کونسے صحابہ رضی اللہ عنہم اور امہات المومنین میں سے ہیں جنہوں نے ان کی شان میں حدیثیں روایت نہ کی ہوں۔ جن سے دل میں محبت اور پیار نہ ہو کیا وہ ایسی روایتیں بیان کرتے ہیں۔ یہ اعزاز آقا علیہ السلام کے صحابہ کو ہی نصیب ہوا ہے۔ دراصل یہ اس امت کو ایک دائمی اور نہ ختم ہونے والے دنگہ و فساد میں مبتلا کرنے والے قصے ہیں جنہوں نے دلوں سے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت کو نکال دیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع دونوں حضرات کی احادیث کی کتابیں جس زمانے میں مدّون ہوئیں اس وقت دو ادوار گزر رہے تھے۔ پہلا دور بنو امیہ کا اور دوسرا بنو عباس کا تھا۔ بنو امیہ کے حکمرانوں سے انعام اور شاباش لینے کے لئے کچھ لوگ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ یا اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے خلاف اور بنو امیہ کی شان میں باتیں گھڑ گھڑ کر بیان کرتے اور ان سے حدیثیں منسوب کرکے روایت کرتے اور کتابیں لکھتے۔ جب بنو عباس کا دور آیا تو اس دور کے کچھ لوگ بنو عباس کے حکمرانوں کو خوش کرنے اور انعامات وصول کرنے کے لئے بنو امیہ کے خلاف اقوال گھڑتے تاکہ وہ ان کے محب کہلائیں اس طرح دونوں ادوار بیتے اور دونوں میں وضع حدیث کا فتنہ تھا۔ دونوں ادوار میں اپنے اپنے مطلب کو پورا کرنے کے لئے جھوٹے اقوال گھڑے گئے، انہیں احادیث کا نام دیا گیا۔ اس طرح صدیوں سے وہ وضع کی گئیں حدیثیں کتابوں میں اب تک منتقل ہوتی آرہی ہیں یہی وجہ ہے کہ اس فتنے نے امت کو انتہا تک پہنچادیا ہے۔ آج امت ان اصل روایات سے لاعلم ہے جنہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خود آقا علیہ السلام کی زبان اقدس سے سن کر اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی شان میں بیان کیں تھیں۔ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ، حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی شان میں احادیث روایت کی ہیں۔ بتانا مقصود یہ تھا کہ ایک تو ان (اہل بیت رضی اللہ عنہم) کی محبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور ان کو اذیت دینا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینا ہے اور دوسرا یہ کہ قیامت اور جنت کے وارث ہی یہی ہیں۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ روح المعانی میں فرماتے ہیں : ’’میری بصیرت و تحقیق کہتی ہے کہ یزید بدبخت آقا علیہ السلام کی رسالت پر ہی یقین نہیں رکھتا تھا۔ وہ بے ایمان کافر تھا۔ اگر رسالت پر یقین رکھتا ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح سے اذیت نہ دیتا۔ جو لوگ یزید کو بچاتے پھرتے اور اس کی عزت و ناموس کا تحفظ کرتے اور اس کو خلیفہ اور امیرالمومنین بناتے ہیں۔ وہ یہ تو جان لیں کہ اس خبیث نے تمہیں کیا دینا ہے۔ دوزخ ہی دے گا جہاں خود جل رہا ہے۔ شائد دوزخ کا کوئی درجہ بھی اس بے ایمان کو قبول کرے گا یا نہیں۔ اس لئے ان کی نوکری کرو جو جنت کے مالک ہیں تاکہ کچھ مل جائے‘‘۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَلْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّةِ.
(ترمذی، السنن، کتاب المناقب، 5 : 656، رقم، 3768)
’’حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں (شہزادے) جنتی جوانوں کے سردار ہیں‘‘۔
آپ غور کریں اس حدیث کے راوی حضرت ابو سعید خدری، حضرت ابو حذیفہ، حضرت علی المرتضی، حضرت انس بن مالک، حضرت عمر فاروق، حضرت عبداللہ ابن عمر، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ یہ وہ صحابہ رضوان اللہ علیہم ہیں جو اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی سیادت کا اعلان احادیث روایت کرکے کررہے ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود سے حدیث مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ اَحَبّنِيْ فَلْيُحِبَّ هَذانِ. ابن حبان، الصحيح، 15 : 426، رقم : 6970
’’جو مجھ سے محبت کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کرے‘‘۔
آپ نے اندازہ کیا کہ آقا علیہ السلام کو اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے کتنی محبت ہے۔ قیامت، جنت سب ان (رضی اللہ عنہم) کی ہے۔ جس طرح اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے ایک رخ محبت کا ہے اسی طرح دوسرا رخ بغض کا ہے۔ حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم روایت کرتے ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ اَبْغَضَهُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِيْ. ترمذی، تهذيب الکمال، 8 : 437
’’جس نے ان دونوں (حسن و حسین رضی اللہ عنہما) سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا‘‘۔
تو گویا اہل بیت رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنے والے غیر المغضوب علیہم میں شامل ہیں اور جس سے اللہ بغض رکھے گا وہ سیدھا دوزخ میں جائے گا۔ اب امام حسین رضی اللہ عنہ کو اذیت، اس کا عالم کیا ہے۔ حدیث میں ہے یزید بن ابوزیاد اور یحیٰ بن ابوکثیر روایت کرتے ہیں۔
خَرَجَ النَّبِی صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ بَيْتٍ عَائشةَ فَمَرَّ عَلَی فَاطِمَةَ فَسَمِعَ حُسَيْنًا يُبْکِيْ رضی الله عنه فَقَالَ اَلَمْ تَعْلَمِيْ اَنَّ بَکَاءَ هُ يُؤْذِيْنِيْ. طبرانی، المعجم الکبير، 3، 116، رقم : 2847
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلے، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا (کے گھر کے پاس سے) گزرے تو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو روتے ہوئے سنا تو فرمایا : فاطمہ کیا تو نہیں جانتی کہ مجھے اس کا رونا تکلیف دیتا ہے‘‘۔
جب حسین رضی اللہ عنہ کا رونا آج برداشت نہیں کرسکتے تو کربلا میں آقا علیہ السلام نے ان کی تکلیف کب برداشت کی ہوگی۔ اور کیسے برداشت کی ہوگی؟ یہی وجہ تھی کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔ سیدنا مولیٰ علی المرتضی بھی شہید ہوئے۔ سب شہادتیں اکبر و اعظم ہیں مگر کسی کی شہادت کے دن اس کے مشہد پر خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں تشریف لے گئے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ میری شہادت سے ایک رات قبل آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عثمان آج روزہ رکھ لینا اور افطار میرے پاس آ کر کرلینا جو شہید ہوا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں خود پہنچا اور دوسری طرف یہ عالم کہ کربلا کا دن ہے۔ ادھر شہادتیں ہورہی ہیں اور ادھر آقا علیہ السلام بنفس نفیس صبح سے آخری شہادت تک میدان کربلا میں خود موجود ہیں۔ مشہدِ حسین رضی اللہ عنہ اور میدانِ کربلا میں خود موجود رہنا یہ شرف آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے کسی اور کو نہیں دیا۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی۔ ام المومنین حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا کو مٹی دی اور فرمایا کہ جب یہ سرخ ہوجائے تو سمجھ لینا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں حتی کہ میدان کربلا اور سن شہادت کی خبر بھی تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی، کتب حدیث میں کثرت سے اس پر احادیث موجود ہیں۔ صحیح بخاری کتاب العلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو طرح کی خبریں اور علم سیکھے۔ ایک قسم اس علم کی ہے جو میں مجمع عام میں ہرکس و ناکس کے سامنے بیان کرتا رہتا ہوں۔ وہ علم احکام شریعت اور احکام طریقت کا ہے۔ دوسرا علم ایسے حقائق و واقعات اور خبریں ہیں کہ اگر وہ لوگوں کے سامنے بیان کردوں تو میری گردن حلق سے کاٹ دی جائے۔ صحیح بخاری کی یہ حدیث کتاب العلم میں ہے اس پر امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ وہ علم جو سیدنا ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھا اور جسے عوام الناس کے سامنے بیان کرتے کتراتے اور خواص کے سامنے بیان کرتے تھے اس علم میں سے یہ بھی تھا کہ جب دس ہجری کا سن قریب آگیا تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے۔
’’اے اللہ میں سن ساٹھ ہجری اور تخت سلطنت پر نوعمر لونڈوں کے حکمران بن کر بیٹھنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور سن ساٹھ ہجری کا سورج طلوع ہونے سے پہلے مجھے دنیا سے اٹھالینا‘‘۔
امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
’’یزید کے حکومت پر بیٹھنے سے ایک سال پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعا قبول کی اور انہیں اپنے پاس بلالیا‘‘۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں اس علم میں سے ایک یہ بھی تھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں مروان بن حکم سے خطاب فرمایا : اے مروان! میں نے صادق المصدوق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’قریش کے خاندان میں سے ایک گھرانہ کے نادان، بیوقوف لونڈوں کے ہاتھوں میری امت برباد ہوجائے گی‘‘۔ گویا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری امت کی ہلاکت قرار دیا ہے۔ اس وقت تو مروان نے یہ سن کر کہا کہ ان لونڈوں پر خدا کی لعنت ہو لیکن اسے خبر نہ تھی کہ اس کے ہی خاندان کے لونڈوں کی بات ہورہی ہے۔
امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قریش کے وہ بیوقوف لونڈے جنہوں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو تباہ کیا تھا ان میں سے پہلا لونڈا یزید تھا۔ صحیح ترمذی میں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے خواب دیکھا کہ بنو امیہ کے لوگ میری قبر پر کھیل رہے ہیں۔ آقا علیہ السلام کا قلب اطہر مغموم ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکوثر اور سورۃ القدر نازل کی اور فرمایا کہ یہ ایک رات ایک ہزار مہینے سے افضل ہے‘‘۔ یعنی میدان کربلا میں جو اہل بیت رضی اللہ عنہم نے ایک رات گزاری وہ مثل لیلۃ القدر تھی۔ وہ بنو امیہ کے ہزار مہینوں سے افضل تھی۔
لوگ حدیث قسطنطنیہ کا نام لیتے ہیں کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو پہلا لشکر قسطنطنیہ پر حملہ کرے گا میں ان کی بخشش و مغفرت کی بشارت دیتا ہوں۔ یہ جہالت کی انتہا ہے۔ متن حدیث میں قسطنطنیہ کا نام تک نہیں بلکہ مدینہ، قیصر کا نام آیا ہے۔ لفظ قسطنطنیہ کا ذکر دوسری سینکڑوں احادیث میں اس ضمن میں آیا ہے کہ قرب قیامت امام مہدی علیہ السلام قسطنطنیہ فتح کریں گے۔ جو کہتے ہیں کہ اس بشارت والی حدیث میں قسطنطنیہ کا ذکر ہے تو وہ مغالطے میں ہے۔ اصل متن یہ ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا۔
اَوَّلُ جَيْشُ مِنْ اُمَّتِيْ يَغْزُوْنَ مَدِيْنَةَ قَيْصَرَ مَغْفُوْرٌ لَهُمْ.
(بخاری، الصحيح، ماقيل فی قتال الروم، 3، 1060، رقم : 2766)
’میری امت کا جو پہلا لشکر قیصر روم کے پایہ تخت میں جنگ کرے گا اس کے لئے بخشش و مغفرت کی بشارت ہے‘‘۔
اس حدیث مبارکہ میں پہلی بار جانے والے لشکر کی بخشش و مغفرت کی بشارت دی گئی ہے جبکہ یزید بطور سزا جس لشکر میں بھیجا گیا تھا وہ آٹھواں لشکر تھا۔ تو جسے سزا کے طور پر بھیجا جائے کیا وہ مغفرت کا حقدار بنے گا ؟
وہ یزید جس نے تین دین روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خچر باندھے اور تین دین مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اذان نہ ہوئی۔ جس نے معرکہ کربلا برپا کیا اور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تڑپایا۔ شہر مدینہ میں خون بہایا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور اور مسجد نبوی کو ویران کیا، مکہ پر پتھروں کی بارش کی اور خانہ کعبہ کی چھت کو جلا دیا وہ بدبخت مغفرت کا حقدار کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس کا انجام تو یہ ہوا کہ کعبہ جلانے کے عمل کے دوران وہ تین دن تڑپا اور چوتھے دن واصل جہنم ہوا۔ اس کو تو توبہ بھی نصیب نہیں ہوئی۔ اگر کرتا بھی تو قبول نہ ہوتی۔ 10 محرام الحرام کو جب سیدہ زینب رضی اللہ عنہا قافلہ لے کر دمشق پہنچی تو بازاروں اور گھروں کی چھتوں پر لوگ جمع ہوگئے کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ یہ کٹے ہوئے سر کن کے ہیں اور یہ جو قیدی آرہے ہیں کون ہیں؟ صرف اتنا اعلان کیا ہوا تھا کہ حکومت کے کچھ باغیوں کو قتل کردیا گیا ہے اور ان کے سر یزید کے دربار میں پہنچائے جارہے ہیں۔ لوگ باغیوں کو دیکھنے کے لئے چھتوں پر چڑھ رہے تھے۔ بازار دمشق میں ہجوم ہوگیا۔ قافلہ رک گیا۔ (آج وہ بازار حامدیہ کہلاتا ہے) بھوک، پیاس اور پریشان حالی تھی۔ چھت سے ایک خاتون نے دیکھا کہ قیدی ہیں پریشان حال ہیں تو اس نے پانی، کچھ کھانے کی چیزیں، کچھ کپڑے، دوپٹے اور ضرورت کا سامان بھیجا۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے سارا کچھ دیکھ کر اس خاتون کو بلوایا۔ جب وہ قریب آئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بی بی تو نے ہمارے ساتھ بڑی نیکی کی ہے۔ کوفہ سے لے کر دمشق تک کسی نے ہمیں پوچھا تک نہیں۔ کسی نے ہمارے حال کی خبر نہیں لی۔ تم کون ہو؟ اور ہمیں کیا سمجھ کر ہم سے اتنی بھلائی کی‘‘۔ اس نے کہا : ’’میں اور آپ کچھ نہیں جانتی دراصل میں اپنی اوائل عمر میں مدینہ رہتی تھی اور حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھی۔ جب انکا وصال ہوگیا تو مدینہ چھوڑ کر دمشق آگئی‘‘۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ’’اگر تم نے اتنی نیکی کی ہے تو تمہیں کیا معلوم ہے ہم کون ہیں‘‘؟ اس نے جواب دیا : ’’مجھے اور تو کچھ معلوم نہیں لیکن جب سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے وصال کا آخری وقت تھا تو میں نے عرض کیا : بی بی مجھے کچھ وصیت کردیں اس وصیت پر عمر بھر عمل کروں گی۔ وہ مجھے جانتی تھی کہ میں دمشق سے ہوں۔ انہوں نے مجھے وصیت کی کہ بیٹا ایک ہی وصیت ہے کبھی قیدی نظر آئیں توان سے اچھا سلوک کرنا۔ میں نے سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی وصیت پر عمل کیا ہے‘‘۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں۔ ’’اللہ تیرا بھلا کرے۔ بتا تو نے ہم سے اتنی نیکی کی ہم تیرے لئے کیا دعا کریں۔ ہم تو اس وقت خود مہاجر ہیں۔ قیدی، مظلوم، بے یار و مددگار ہیں ہم تیرے لئے کیا دعا کرسکتے ہیں‘‘۔ اس نے کہا : ’’بی بی میری ایک ہی آرزو ہے‘‘ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے پوچھا : ’’کیا آرزو ہے‘‘؟ اس نے کہا : جب میں وہاں سے چلی تھی اس وقت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے چھوٹے چھوٹے شہزادے تھے۔ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اور بی بی زینب رضی اللہ عنہا۔ اب زمانہ گزر گیا۔ میری اس وقت سے آرزو ہے کہ مجھے حسن و حسین رضی اللہ عنہما اور زینب رضی اللہ عنہا کی زیارت ہو جائے۔ آپ رضی اللہ عنہا دعا کردیں کہ مجھے ان کی زیارت ہو جائے۔ بی بی زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ’’تیری دعا قبول ہوگئی ہے۔ میں زینب (رضی اللہ عنہا) ہوں، قیدی ہوں اور یہ جو سر کٹا ہوا نیزے پر دیکھ رہی ہو یہ حسین (رضی اللہ عنہ) ہیں‘‘۔
پھر سیدہ زینب رضی اللہ عنہا قافلہ لے کر دربار یزید میں پہنچتی ہیں۔ اس بدبخت نے حکم دیا تھا کہ قیدی میرے سامنے پیش کئے جائیں وہ گستاخانہ انداز کے ساتھ حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا اور حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے ساتھ وہ ضعیف خاتون تھی جو سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھی جنہوں نے اپنی گود میں حسن و حسین رضی اللہ عنہما اور زینب رضی اللہ عنہا کو پالا تھا۔ ان کا نام حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا تھا۔ (حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا مزار آج بھی دمشق کے قبرستان میں ہے) بڑھاپے کی وجہ سے ان کی کمر جھک گئی تھی مگر جوش میں سیدھی کھڑی ہوگئیں اور فرمانے لگیں۔ ’’بدبخت یزید تو جن کو لونڈی کہہ رہا ہے خبردار! یہ دنیا و آخرت اور کل کائنات کی وارث ہیں۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہزادیاں ہیں۔ تمیز سے بات کر‘‘۔ یزید نے اپنے فوجیوں کو دیکھا اور کہا کہ یہ بوڑھی خاتون کون ہے؟ جو ہمارے دربار میں بے ادبی کررہی ہے اس کی خبر لو۔ اس کے فوجی اٹھے۔ انہوں نے تلوار لہرائی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو بس اتنا عمل کرنے کی دیر تھی کہ خود یزید کے فوجیوں میں سے حبشہ کے رہنے والے یزید کی اپنی فوج کے سینکڑوں حبشی جوان تلوار نکال کر کھڑے ہوگئے۔ ان کی قومی غیرت اور وطن کی محبت نے جوش مارا۔ اور کہا : خبردار! ’’یہ ہمارے وطن حبشہ کی ماں ہے۔ اگر کسی نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو تلواروں سے گردنیں کاٹ دیں گے‘‘۔ جب حبشہ کی ایک خاتون کی خاطر تلواریں لہرائی گئیں تو سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے مڑ کر مدینہ کی طرف ہاتھ اٹھائے اور عرض کیا : بابا! آج حبشہ کی ایک بیٹی کے لئے سینکڑوں تلواریں نکل آئیں مگر آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیوں کی حفاظت کے لئے کوئی نہیں۔😢😢😢