Click downto read more
*صدقہ*
لو بھلا بتاؤ۔ ۔ ۔ گھر میں برکت ہو، تو کیسے ہو؟
ابّا دکان پر کھڑے ”کُوپیکس” کیڑے مار پاؤڈر کو گھورتے ہوئے بڑبڑا رہے تھے۔
ارے۔ ۔ ۔ شاہ صاحب۔ ۔ ۔! بہترین دوا ہے یہ ۔ ۔ ۔ منٹوں میں چیونٹیاں مر جاتی ہیں اس سے۔ دکاندار نے ابّا سے کہتے ہوئے ماڈرن خاتون کی جانب پریشانی سے دیکھا، جو ابّا کے اس جملے پر چونک گئی تھیں اور ان کو وضاحت طلب نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔
ٹھیک ہے بھائی ۔ ۔ ۔ تم ایسا کہہ سکتے ہو، تمہاری دکانداری کا معاملہ ہے۔ ۔ ۔ مگر گھر میں آئی چیونٹیوں کو بھگانے کے لئے یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔ ابّا اپنی بات پر قائم تھے۔
یہ 1986ء کی بات ہے۔ ۔ ۔ میں کچھ دیر پہلے ہی مہینے بھر کی گراسری کے لئے ابّا کے ساتھ دکان پر آیا تھا، ہم ہمیشہ اسی دکان سے سودا لیا کرتے تھے۔ آج بھی جب ہم دکان پر پہنچے اور سودا لینے لگے تو اُسی دم وہ ماڈرن خاتون اپنے کاندھے پر دوپٹہ ٹھیک کرتی ہوئی کاؤنٹر پر آ پہنچیں۔
ستاربھائی۔ ۔ ۔ وہ چیونٹیاں مارنے والا پاؤڈر ہے؟ انہوں نے آتے ہی دکاندار سے سوال کیا تھا، جو اسوقت ہمارے لئے کالی مرچ تول رہا تھا۔
جی باجی۔ ۔ ۔ ابھی لایا۔
وہ ہماری کالی مرچوں کو چھوڑ کر اندرونی حصے میں چلا گیا اور کچھ دیر بعد کوپیکس پاؤڈر کے گول ڈبے کو جھاڑتا ہوا لے آیا۔
یہ کیا ہے ؟ ابّا کے ماتھے پر بل آگئے۔
ارے۔ ۔ ۔ شاہ صاحب۔ ۔ ۔ یہ بڑا بہترین پاؤڈر ہے، چیونٹیوں کو مارنے کے لئے۔ ۔ ۔ منٹوں میں چیونٹیوں کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ ۔ ۔ اور یہ انسانی صحت کے لئے مضر بھی نہیں۔ ۔ ۔ میں تو اپنی پوری دکان میں یہی استعمال کرتا ہوں۔
ابّا کے استفسار پر ستار بھائی کی آنکھوں میں پاؤڈر والوں کا کمیشن لہرانے لگا۔
ہاں ۔ ۔ ۔ وہ تو ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ مگر چیونٹیوں کو کون مارتا ہے بھلا ؟ آخر وہ کسی کا کیا بگاڑتی ہیں؟ ابّا نے حیرانی سے خاتون کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
تو کیا کروں انکل؟ میں تو پریشان ہو گئی ہوں ان چیونٹیوں سے۔ ۔ ۔ بچوں والا گھر ہے میرا۔ ۔ ۔ شوہر سے کہا تو انہوں نے بھی جھاڑ پلا دی۔ ۔ ۔ کہنے لگے، ”امی کی زندگی میں تو کبھی ہمیں چیونٹیوں نے پریشان نہیں کیا۔ ۔ ۔ کیونکہ وہ گھر کو بالکل صاف رکھا کرتی تھیں” ۔ ۔ ۔ اب آپ ہی بتائیں۔ ۔ ۔ آپ کو کیا لگتا ہے؟ کیا میں گھر کی صفائی نہیں کرتی ہونگی؟ کیا میں آپ کو ایسی پھوہڑ دکھائی دیتی ہوں؟
خاتون نے نہ صرف اپنا دکھڑا رونا شروع کردیا، بلکہ ابّا سے سوالات بھی کرنا شروع کردئے۔
اور ابّا جو ان سوالات کے لئے بالکل تیار نہ تھے، ایکدم پریشان ہو گئے۔
نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ میں تو بس یہ کہہ رہا ہوں کہ ۔ ۔ ۔ چیونٹیوں سے نجات کے لئے تم ایک مٹھی آٹا ڈال دیا کرو۔ ۔ ۔ یہ بیچاری ننھی مخلوق تو صرف رزق کے لئے باہر آتی ہے۔ ۔ ۔ اور بس۔ ۔ ۔!
ابّا کے لہجے میں زمانے بھر کی شفقت دیکھ کر، خاتون نے غیر محسوس انداذ میں دوپٹہ سر پر لے لیا۔
جی جی انکل۔ ۔ ۔ مگر کیا اس سے چیونٹیوں سے چھٹکارہ مل جائے گا؟ وہ اب بھی غیر یقینی انداذ میں ابّا سے پوچھ رہی تھیں۔
کیوں نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ پرانے زمانے سے یہی رواج چلا آرہا ہے۔ ۔ ۔ اِدھر گھر میں چیونٹیاں نظر آئیں، اور اُدھر بڑی بوڑھیوں نے مٹھی بھر آٹا کونوں میں ڈال دیا۔ ۔ ۔ چیونٹیوں سے بھی نجات۔ ۔ ۔ اور صدقے کی نیکی مفت میں۔
ابّا ہنسنے لگے تو خاتون کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔
چلیں میں بھی پھر۔ ۔ ۔ آٹا۔ ۔ ۔ ہی ٹرائے کرتی ہوں۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے کوپیکس پاؤڈر وہیں کاؤنٹر پر رکھ کر واپسی کے لئے مڑ گئیں۔
اور ستاربھائی نے ابّا کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کالی مرچوں کو تولنا شروع کردیا۔
ابّا۔ ۔ ۔ تم نے ستار بھائی کی دکانداری خراب کردی ۔
واپسی پر میں نے ابّا سے ہنستے ہوئے کہا۔
نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ یہ بات نہیں۔ ۔ ۔ ہمارے گھروں سے برکتیں اسی لئے اٹھ گئی ہیں ۔ ۔ ۔ لوگ اللّہ کی مخلوق کا خیال رکھنا بھول چکے ہیں۔ ۔ ۔ پہلے کسی گھر کے سامنے کُتا بھی آکر بیٹھ جاتا تھا، تو گھر کی خواتین اسکے سامنے بھی کچھ نہ کچھ بچا کھچا سالن روٹی رکھ دیا کرتی تھیں۔ ۔ ۔ مگر اب ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ اب ۔ ۔ ۔ روٹیاں بھی گن کر پکائی جاتی ہیں۔ ۔ ۔ برکتیں کہاں سے آئیں گی پھر؟ ۔ ۔ ۔ اس قوم پر زلزلے نہ آئیں۔ ۔ ۔ سیلاب نہ آئیں۔ ۔ ۔ تو اور کیا ہو؟
ابّا تاسف کے اظہار کے ساتھ ساتھ مجھے آسان زندگی کے گُر سمجھانے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔
عرصہ گذر گیا۔ ۔ ۔
میں بھی اس واقعے کو بھول گیا۔
پھر ایک دن بڑے بھائی جان کے ہاں جانا ہوا۔ ابھی ڈور بیل بجانے ہی لگا تھا کہ، چڑیوں کے جُھنڈ کے اڑنے کی زوردار آواز کانوں میں پڑی، چونک کر اوپر دیکھا تو پتہ چلا کہ مین گیٹ کے دونوں جانب مٹی کے کُونڈے رکھے تھے، اور ان کُونڈوں سے چند لمحے قبل یقیناً وہ چڑیاں دانہ چگ رہی تھیں ۔ ۔ ۔ اور اب میری آمد سے ڈر کر اانہوں نے اڑان بھری تھی۔ مگر ابھی بھی۔ ۔ ۔ وہ اڑ کر دور نہیں گئیں تھیں۔ ۔ ۔ بلکہ اوپری مُنڈیر پر اِدھر اُدھر پھدک کر میرے جانے کا انتظار کر رہی تھیں۔
بھتیجی نے دروازہ کھولا تو میں اندر داخل ہوگیا۔
یہ کیا ؟۔ ۔ ۔ اتنی ساری چڑیاں۔ ۔ ۔؟ میں نے سلام کے بعد خوشگوار حیرت سے بھابھی سے پوچھا جو کچن کی کھڑکی سے کھانا پکاتے ہوئے مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔
تمہارے بھائی جان نے رکھے ہیں یہ کُونڈے لا کر۔ ۔ ۔ چڑیوں کے دانے کے لئے۔
وہ معنی خیز انداز میں بڑی بھتیجی کو دیکھ کر مسکرائیں تو مجھے اچنبھا سا محسوس ہوا۔
شام کو بھائی جان آئے تو مجھ سے رہا نہ گیا۔
بھائی جان۔ ۔ ۔ یہ چڑیوں کے لئے دانہ رکھنے کی کوئی خاص وجہ ہے کیا؟
نہیں بس ۔ ۔ ۔ ایسے ہی ۔ ۔ ۔ اچھا ہوتا ہے۔ ۔ ۔صدقہ دیتے رہنا چاہئے۔
بھائی جان نے آہستہ سے سمجھایا۔ ۔ ۔ یہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ ۔ ۔ خصوصًا جس گھر میں بیٹیاں ہوں۔ ۔ ۔
پھر بتانے لگے کہ کسی بزرگ کے پاس ایک شخص نے آکر بتایا کہ وہ غریب آدمی ہے اور پریشان ہے کہ اپنی جوان بیٹیوں کی شادی کس طرح کر پائے گا، کیونکہ غربت کی وجہ سے کوئی اسکی بیٹیوں سے شادی کرنے کو تیار نہیں۔
بزرگ نے مشورہ دیا کہ روز دو سو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ۔ ۔ ۔ تمہارا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
غریب آدمی مارے احترام کے بزرگ کو تو کچھ نہ بول پایا، البتہ آستانے سے باہر آکر زاروقطار رونے لگا۔
پاس سے گذرتے کسی دانا نے پوچھا روتے کیوں ہو؟
غریب نے جواب دیا ۔ ۔ ۔ غربت نے پہلے ہی مار مار کر ادھ موا کیا ہوا ہے۔ ۔ ۔ اور سرکار نے فرمایا ہے کہ روز دو سو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ ۔ ۔ ۔ تب بیٹیوں کی شادی ممکن ہوگی۔
دانا آدمی مسکرا کر بولا
بھلے آدمی۔ ۔ ۔ بھوکا کیا صرف انسان ہوتا ہے؟ اللّہ کی مخلوق ۔ ۔ ۔ چھوٹی ہو یا بڑی ۔ ۔ ۔ بھوک تو سب کو ستاتی ہے۔ ۔ ۔ اگر تم ایک مٹھی آٹا بھی چیونٹیوں کو ڈال دو گے تو سمجھو تمہارا صدقہ ہوگیا۔
دانا آدمی تو یہ کہہ کر اپنی راہ چل دیا۔ ۔ ۔ اور غریب اپنی ناقص عقل پر ہنستے ہوئے اپنے گھر کو چلا۔ کچھ عرصے بعد ہی صدقے کی برکات سے نہ صرف وہ اپنی بیٹیوں کے فرائض سے سبکدوش ہوا بلکہ گھر میں بھی خوشحالی آگئی۔
بھائی جان جس وقت یہ واقعہ ہم کو سنا رہے تھے۔ ۔ ۔ مجھے ابا کی ”مٹھی بھر آٹے” والی بات یاد آرہی تھی۔ اور پھر میں نے آنے والے دنوں میں دیکھا کہ بھائی جان نے اپنی چاروں بیٹیوں کی شادیاں ان کی صحیح عمر میں بالکل درست موقعے پر کر دیں۔
شاید اسی لئے۔ ۔ ۔
جب میں نے اپنا گھر لیا تو سب سے پہلے اپنے دروازے کے پاس چڑیوں کے لئے دانہ رکھ دیا۔
کئی بار گھر بدلا۔ ۔ ۔ ہر بار یہ چڑیاں، کبوتر اور کوّے میرے رزق کی آسانیوں کا سبب بنتے رہے۔
بیماریاں بھی آئیں۔ ۔ ۔
پریشانیوں نے بھی گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی مگر ہمیشہ یہ پرندے مجھے آسرا دیتے رہے۔ ۔ ۔
اِنّا مَعَ العُسرِ یُّسرًا ۔ ۔ ۔
کے معنی سمجھاتے رہے۔ ۔ ۔ اللّہ رب العزت کی بڑائی کا یقین دلاتے رہے۔
الحمداللہ۔ ۔ ۔
ثُمَّ الحمداللہ۔ ۔ ۔
میں نے آج تک اپنے بچوں کا بہتا خون نہیں دیکھا۔ انہیں کسی تکلیف سے تڑپتے نہیں دیکھا۔
ایک وقت ایسا بھی آیا جب میرے گھر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ہماری مرغی کُڑک ہوجانے کے باوجود انڈوں پر کیوں نہیں بیٹھ رہی ہے. اور یہ وہ دور تھا جب میرا گھر ”کبوتروں والا گھر” کے نام سے مشہور ہوچکا تھا۔
یقین مانئیے۔ ۔ ۔ کہ یہ تمام باتیں اس لئے نہیں لکھی ہیں کہ نعوذ بااللہ میں اپنی نیکیوں کا پرچار کرنا چاہتا تھا۔ ۔ ۔ بلکہ میں اس راز کو کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں جو سوال کی صورت میں مجھ سے اکثر کیا جاتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ آخر کیسے گذا را کر لیتے ہو؟۔ ۔ ۔ ہم سے تو نہیں ہوتا۔
میں نے اپنی زندگی کو اسی ننھی مخلوق کی خدمت کرکے آسان بنایا ہے۔
تمام بڑائیاں اس رب کے لئے جس نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں یہ کر سکوں۔
اللّہ ہم سب کو صدقات کی توفیق دے ۔
آمین
*منقول*