Click down to read more
*مدینے کی ریاست کی ایک جھلک۔*
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد نبوی کے ساتھ تھا،
اور اس مکان کا پرنالہ مسجد کی طرف تھا جب بارش ھوتی تو پرنالہ سے پانی گرتا جس کے چھینٹے نمازیوں پر پڑتے،
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نمازیوں پر چھینٹے پڑتے دیکھے تو پرنالے کو اکھاڑ پھینکا،
سیدنا عباس آئے دیکھا ان کے مکان کا پرنالہ اتار دیا گیا ھے،
پوچھا یہ کس نے اتارا،
جواب ملا امیر المومنین نے نمازیوں پر چھینٹے پڑتے دیکھے تو اسے اتار دیا،
سیدنا عباس نے قاضی کے سامنے مقدمہ دائر کر دیا،
چیف جسٹس ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ھیں،
امیر المومنین ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش ھوئے تو جج صاحب لوگوں کے مقدمات سن رھے ھیں اور سیدنا عمر عدالت کے باھر انتظار کر رھے ھیں، کافی انتظار کے بعد جب سیدنا عمر عدالت کے روبرو پیش ھوئے تو بات کرنے لگے،
مگر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے روک دیا کہ پہلے مدعی کا حق ھے کہ وہ اپنا دعوٰی پیش کرے،
یہ عمر کے دور کا چیف جسٹس ھے،
سیدنا عباس دعوٰی پیش کرتے ھیں کہ میرے مکان کا پرنالہ شروع سے مسجد نبوی کی طرف تھا، زمانہ نبوی کے بعد سیدنا ابوبکر کے دور میں بھی یہیں رھا لیکن عمر نے میرے مکان کا پرنالہ میری عدم موجودگی میں میری اجازت کے بغیر اتار دیا ھے، لہذا مجھے انصاف چاھئے،
چیف جسٹس ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ھیں آپ بے فکر رھیں آپ کو انصاف ملے گا،
قاضی نے سیدنا عمر سے پوچھا آپ نے سیدنا عباس کے گھر کا پرنالہ کیوں اتارا،
بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم کٹہرے میں کھڑا ھو کر کہتا ھے، سیدنا عباس کے مکان کا پرنالہ مسجد نبوی کی طرف تھا جب بارش ھوتی ھے پرنالے سے پانی بہتا ھے اور چھینٹے نمازیوں پر پڑتے ھیں جس سے نمازیوں کو پریشانی ھوتی ھے اس لئے میں نے اسے اتار دیا،
ابی بن کعب نے دیکھا کہ سیدنا عباس کچھ کہنا چاہ رھے ھیں، پوچھا آپ کیا کہنا چاھتے ھیں؟؟
سیدنا عباس کہتے ھیں یہ جس جگہ میرا مکان ھے یہاں رسول پاک نے اپنی چھڑی سے مجھے نشان لگا کر دیا اور میں نے اسی جگہ مکان بنایا پھر جب پرنالہ نصب کرنے کا وقت آیا تو رسول پاک نے کہا چچا میرے کندھے پر کھڑے ھو کر اس جگہ پرنالہ نصب کر دیں میں نے نبی پاک کے کندھے پر کھڑا ھونے سے انکار کیا مگر بھتیجے کے اصرار پر میں نے ان کے کندھے پر کھڑا ھو کر یہاں پرنالہ نصب کیا یہاں پرنالہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود لگوایا تھا،
ابی بن کعب نے پوچھا اس کا کوئی گواہ ھے آپ کے پاس،
سیدنا عباس جلدی سے باھر گئے اور کچھ انصار کو لے کر آئے انہوں نے گواھی دی کہ سیدنا عباس سچ کہہ رھے ھیں،
یہ سنتے ھی سیدنا عمر کے ھوش اُڑ گئے اور رونے لگے، آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی،
اپنا پیارا نبی یاد آ گیا،
اور زمانہ نبوی کا منظر نظروں میں گھوم گیا،
عدالت میں سب کے سامنے یہ بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم سر جھکائے کھڑا ھے،
جس کا نام سن کر قیصر و کسرٰی کے ایوانوں میں لرزہ طاری ھو جاتا تھا،
سیدنا عباس سے کہا مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ پرنالہ رسول پاک نے خود لگوایا ھے،
آپ چلئے میرے ساتھ جیسے رسول پاک نے یہ پرنالہ لگوایا تھا ویسے ھی آپ لگائیں،
چشم کائنات نے دیکھا!
وقت کا حاکم دونوں ھاتھ مکان کی دیوار سے ٹکا کر کھڑا ھو گیا بالکل اسی طرح جیسے رسول پاک کھڑے ھوئے تھے،
سیدنا عباس امیر المومنین کے کندھوں پر کھڑے ھوئے اور دوبارہ اسی جگہ پرنالہ لگا دیا،
وقت کے حاکم کا یہ سلوک دیکھ کر سیدنا عباس نے مکان مسجد نبوی کو وقف کر دیا،
*أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 210، الحديث رقم : 1790،*