مکمل مضمون پڑھنے کے لئے نیچے “مزید پڑھیں” ( ریڈ مور) کو کلک کریں
#ورزش کی اہمیت**
فلپ امریکہ میں میرا گائیڈ تھا‘ میں نے اس کے ساتھ امریکہ کی چھ ریاستوں میں سفر کیا‘ وہ مجھے ورجینا لے کر گیا‘ اس نے مجھے نیو یارک‘ ٹیکساس‘ واشنگٹن‘ فلوریڈا اور کیلیفورنیا بھی دکھایا‘ ہم 25 دن اکٹھے رہے‘ میں نے جب واشنگٹن میں فلپ کو پہلی مرتبہ دیکھاتھا تو مجھے بہت مایوسی ہوئی ‘ وہ ایک کمزور بوڑھا تھا اور ذرا سا بیمار بھی دکھائی دیتا تھا‘ میرا خیال تھا وہ شاید ہی واشنگٹن سے باہر نکل سکے اور اس کے بعد مجھے ایک مردے کے ساتھ سفر کرنا پڑے گا لیکن جب ہم نیویارک پہنچے تو میں فلپ کی چستی‘ معاملہ فہمی‘ وقت کی پابندی اوران تھک شخصیت پر حیران رہ گیا‘ وہ پیدل چلتے ہوئے ہمیشہ مجھ سے آگے نکل جاتا تھا اور اس کی سانس تک نہیں پھولتی تھی‘میں ائیر پورٹس پر اپنا سامان پوٹرز کے حوالے کردیتا تھا جبکہ وہ اپنے دونوں بیگ خود اٹھاتا تھا‘ مجھے آدھ گھنٹہ چلنے کے بعد ریسٹ کی ضرورت پڑتی تھی جبکہ فلپ بغیر رکے‘ بغیر دم لئے چلتا رہتا تھا‘ وہ صبح سوا چھ بجے آنے کا وعدہ کرتا تھا توٹھیک چھ بج کر 14منٹ پروہ میرے دروازے پر کھڑا ہوتا تھا ‘ اس نے 25 دنوں میں مجھے کبھی کسی فلائیٹ‘ کسی ٹرین سے لیٹ نہیں ہونے دیا اور وہ صبح سے رات تک بلا تھکان میرے ساتھ گھومتا تھا‘ میں اس کی ایفی شینسی پر حیران تھا‘ میں نے ایک بار اس سے عمر پوچھی تو وہ مسکرایا اور دھیمے لہجے میں بولا ”79 سال“ میں نے اس کی گزری ہوئی زندگی کے بارے میں پوچھنا شروع کردیا‘ اس کا بائیو ڈیٹا بہت دلچسپ تھا‘ اس نے 15 سال کی عمر میں ایک ریستوران پر کام شروع کیا تھا‘ وہ شام کو کام کرتا تھا اور دن میں سکول جاتا تھا‘ اس نے نوکری کے ساتھ ساتھ گریجویشن کی‘ یونیورسٹی گیا‘ وہاں سے پی ایچ ڈی کی اور پڑھانا شروع کردیا‘ پانچ سال پڑھایا اور پھر ایک فرم میں ملازمت کرلی‘ ملازمت چھوڑی اور اپنا کاروبار شروع کردیا‘ کا روبار سے وہ سیاست میں آیا اور فلوریڈا کی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوگیا‘ پارلیمنٹ کی مدت ختم ہوئی تو وہ فارن سروس میں چلاگیا‘ اس نے اس سروس میں رہ کر لبنان‘ سوڈان‘ ایران اور پاکستان میں کام کیا‘ وہ 4 سال کراچی رہا‘ فارن سروس چھوڑنے کے بعد اس نے این جی او بنا لی اور جب این جی او چل نکلی تو اس نے واشنگٹن میں ٹور آپریٹنگ فرم بنا لی‘ مجھے اس وقت پتہ چلا میں جس فرم کے ذریعے امریکہ کی سیر کررہا ہوں وہ اس فرم کا مالک ہے‘ میرے لئے یہ خبر انکشاف کی حیثیت رکھتی تھی‘ میں نے اس سے پوچھا ”تم مالک ہو کرمیرے ساتھ دھکے کیوں کھا رہے ہو؟“ اس نے قہقہہ لگایا ”میں سال میں ایک بار گائیڈ کاکام بھی کرتا ہوں‘ اس سے میری استطاعت بھی بڑھتی ہے ‘میری معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور مجھے سیاحوں کی خواہشات اور ضروریات کا بھی اندازہ ہوتا ہے یوں میں اپنے تجربات کی روشنی میں اپنی کمپنی کے کام میں تبدیلیاں لاتا رہتا ہوں“
میں نے ایک دن فلپ سے پوچھا ” تم چار سال پاکستان میں کام کرچکے ہو‘ تم اپنے تجربے کی روشنی میں بتاﺅ ¾ کیا پاکستان کبھی ترقی کرسکتا ہے“ اس نے ذرا سا سوچا اور مسکرا کر بولا ”ہاں لیکن ایکسر سائز کے ساتھ‘ اگرتم لوگ ورزش شروع کردو تو تم کمال کرسکتے ہو“ میرے لئے اس کا جواب بم بلاسٹ تھا‘ وہ مسکرایا ”تم میرے جواب کو غیر سنجیدہ سمجھ رہے ہو لیکن میں انتہائی سنجیدہ ہوں‘ میں ایکسرسائز نہیں کرتا تھا‘ میں 6گھنٹے ریستوران پر کام کرتا تھا اور دس گھنٹے پڑھتا تھا لہٰذا میرے پاس ورزش کےلئے وقت نہیں بچتا تھا‘ میںپڑھائی کے بعد جاب میں مصروف ہوگیا‘ وہاں بھی مجھے وقت نہیں ملتا تھا لیکن جب میں پارلیمنٹ کارکن منتخب ہوا تو مجھے معلوم ہوا ہماری پارلیمنٹ کے تمام ارکان روزانہ ورزش کرتے ہیں‘ فلوریڈا کی پارلیمنٹ میں 160 ارکان تھے‘ ان میں سے 132 مختلف ”جمز“ کے ممبر تھے جبکہ 28 ایک گھنٹہ روزانہ جاگنگ کرتے تھے‘ مجھے وہاں جا کر علم ہوا امریکہ کی تمام ریاستوں کے 98 فیصد ارکان پارلیمنٹ اور سو فیصد سیاستدان ورزش کرتے ہیں اور جوشخص سیاست میں آنے کے بعد ایکسرسائز نہیں کرتا اسے سیاست میں سنجیدہ نہیں سمجھا جاتا‘ میں نے ذرا سی تحقیق کی تو پتہ چلا امریکی عوام کا خیال ہے جو سیاستدان اپنے آپ کو اہمیت نہیں دیتااس کے پاس ملک اور حلقے کے لوگوں کےلئے بھی وقت نہیںہوتا چنانچہ امریکہ میں سیاست کا آغاز انسان کے اپنے وجود سے ہوتا ہے‘ شاید یہی وجہ ہے امریکہ کا ہر سیاستدان ورزش کا پابند ہے‘ تم ہمارے صدر بل کلنٹن (اس وقت کلنٹن امریکہ کے صدر تھے) کو دیکھو‘ کلنٹن روزانہ ڈیڑھ گھنٹے جاگنگ کرتے ہیں‘ اس وقت صدارت کے تین بڑے امیدوار ہیں‘ جارج بش ‘ جان کیری اورالگور‘ یہ تینوں ورزش کے عادی ہیں‘ بش دن میں تین بار ایکسر سائز کرتے ہیں‘ وہ مہینے کے تین دن اپنے فارم ہاﺅس پرگزارتے ہیں‘ وہ اپنے ہاتھ سے لکڑیاں کاٹتے ہیں‘ زمینوں میں ٹریکٹر چلاتے ہیں‘ جانوروں کا دودھ دھوتے ہیں اور پودوں کوپانی دیتے ہیں‘الگور کوہ پیما ہیں ‘وہ کوہ پیمائی کرتے ہیں اور جان کیری جاگنگ کرتے ہیں لہٰذا میں نے دوسرے سیاستدانوں کی پیروی میں ورزش شروع کردی‘ میں نے سیاست کے بعد کاروبار شروع کیا تو پتہ چلا امریکہ کے بزنس مین سیاستدانوں سے زیادہ ورزش کے پابند ہیں‘ اس وقت امریکہ میں 1000 بڑے بزنس مین ہیں‘ ان میں سے چار سو ارب پتی ہیں‘ پوری دنیا میں سب سے زیادہ ارب پتی امریکہ میں پائے جاتے ہیںاور یہ تمام ارب پتی نو دولتیے ہیں‘ ان میں کوئی ایسا شخص نہیں جو تیسری نسل سے امیر ہو‘ یہ سب پہلی اور دوسری نسل کے امراءہیں لہٰذا ہم ان تمام ارب پتیوں کو سیلف میڈ کہہ سکتے ہیں‘ اس وقت دنیا کے 14 بڑے ادارے امریکہ کے ارب پتیوں پر تحقیق کررہے ہیں‘ وہ ان کی مشترکہ عادتیں معلوم کرنا چاہتے ہیں ‘ مجھے چین کے ایک ادارے کی تحقیق پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ اس نے امریکہ کے 1000 کامیاب بزنس مینوں کی عادتوں کا چارٹ بنایا‘ اس چارٹ کے مطابق ان لوگوں میں 23 عادتیں مشترک تھیں‘ تم شاید یہ جان کر حیران ہو جاﺅ ان 23 عادتوں میں پانچویں عادت ورزش تھی‘ امریکہ کی ہزار بڑی کاروباری شخصیات ورزش کی عادی ہیں لہٰذا جب میں کاروبار کی دنیا میں داخل ہوا تو مجھے پتہ چلا ورزش کے بغیر کوئی شخص اچھا بزنس مین نہیں بن سکتا چنانچہ میں نے روزانہ ایک گھنٹہ جاگنگ شروع کردی اور آدھ گھنٹہ مسلز ٹریننگ‘ اس کے بعد میں آج تک روزانہ ورزش کرتا ہوں اور مہینے کے آخری دو دن کسی پہاڑ پر گزارتا ہوں‘ میں وہاں کیمپنگ کرتا ہوں‘ پیدل چلتا ہوں اور فطرت کے ساتھ 48 گھنٹے گزار کر واپس آجاتا ہوں‘ یہ اسی ورزش کا کمال ہے میں 79 برس کی عمر میں بھی فٹ ہوں‘ مجھ میں تم سے زیادہ توانائی ہے “ وہ خاموش ہوگیا۔
ہمارے درمیان بڑی دیر تک خاموشی کا وقفہ رہا‘ وہ دوبارہ بولا ” قوموں کی ترقی سیاست اور معیشت پر استوار ہوتی ہے اور اس کےلئے سیاستدانوں اور بزنس مینوں کا صحت مند ‘ مثبت اور فعال ہونا ضروری ہوتا ہے‘ امریکہ کے تمام سیاستدان اور بزنس مین صحت مند بھی ہیں اور فعال بھی لہٰذا ہم دنیا کی سب سے بڑی سیاسی اور اقتصادی قوت ہیں ‘تم اگر ہماری طاقت کے پیچھے جھانک کر دیکھو تمہیں اس میں ورزش نظر آئے گی‘ اس وقت دنیا میں ورزش کی سب سے زیادہ مشینیں امریکہ میں خریدی جاتی ہیں‘ دنیا میں سب سے زیادہ ٹریک سوٹ‘ جاگرز اور ٹی شرٹس امریکہ میں بکتی ہیں اور دنیا میں سب سے زیادہ فوڈ سپلی منٹس امریکہ میں لئے جاتے ہیں ‘ امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ورزش انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکی ہے‘ امریکہ میں سینکڑوں کمپنیاں ورزش کے نئے آلات اور نئی ورزشیں ایجاد کررہی ہیں‘ دنیا میں سب سے زیادہ جم امریکہ میں ہیں اور امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ورزش کےلئے باقاعدہ ٹیلی ویژن چینل ہیں ‘ جس میں ورزش کرانے کے کلبز اور کمپنیاں ہیں لہٰذا یہی وجہ ہے ہم دنیا سے بہت آگے ہیں جبکہ میں نے پاکستان میں ایسا نہیں دیکھا‘ میں کراچی کے ایک پارک میں جاگنگ کرتا تھا‘مجھے اس پورے پارک میںکوئی دوسرا شخص دکھائی نہیں دیتا تھا ‘ میں نے اپنے چار سالہ قیام میں پاکستان کے سیاستدانوں اور بزنس مینوں کو جتنا سست اور بیمار دیکھا اتنا مجھے دنیا کا کوئی دوسرا بزنس مین اورکوئی دوسرا سیاستدان دکھائی نہیں دیا‘ تم پاکستان جاﺅ اور جا کر تحقیق کرو تمہارے ملک کے کتنے سیاستدان اور کتنے بزنس مین ورزش کرتے ہیں‘ مجھے یقین ہے تمہیں مایوسی ہوگی لہٰذا جس ملک کا سیاست دان اور بزنس مین اپنے ساتھ وفادار نہ ہو‘ جس کا رویہ خودکش ہو وہ ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے‘ ترقی کےلئے مثبت سوچ کی ضرورت ہوتی ہے اور ورزش کے بغیر کسی شخص کی سوچ مثبت نہیں ہوسکتی“ اس نے میری طرف دیکھا اور مسکرا کر پوچھا ” تمہاری عمر کتنی ہے“ میں نے مسکراکر جواب دیا ”35 برس“ اس نے قہقہہ لگایا اور اپنے بازو پر ہاتھ پھیر کر بولا ”جس ملک کا 35 برس کا نوجوان مجھ جیسے 79 سال کے بوڑھے کے ساتھ پیدل نہ چل سکتا ہو وہ ملک جدید دنیا کے چیلنجوں پر کیسے پورا اترے گا‘