Click down to read more
(آج پیزا نہیں کھاتے)
*بیوی:* آج دھونے کے لئے زیادہ کپڑے مت نکالنا۔
*شوہر:* کیوں؟
*بیوی:* کام والی ماسی دو دن نہیں آئے گی
*شوہر:* کیوں؟
*بیوی:* اپنی نواسی سے ملنے بیٹی کے پاس جا رہی ہے، کہہ رہی تھی دو دن نہیں آؤں گی۔
*شوہر:* ٹھیک ہے، زیادہ کپڑے نہیں نکالوں گا۔
*بیوی:* اور ہاں !!! ماسی کو پانچ سو روپے دے دوں؟
*شوہر:* کیوں؟ ابھی عید آ ہی رہی ہے، تب دے دیں گے۔
*بیوی:* ارے نہیں بابا !! غریب ہے بیچاری، بیٹی اور نواسی کے پاس جا رہی ہے، تو اسے بھی اچھا لگے گا۔اور کچھ اپنی نواسی کے لئے بھی لے جائے گی۔ اس کی بیٹی اور نواسی بھی خوش ہوجائیں گی۔ویسے بھی اس مہنگائی کے دور میں اس کی تنخواہ سےکیا بنتا ہوگا۔ اپنوں کے پاس جا رہی ہے،کچھ ہاتھ میں ہوگا تو خوش رہے گی۔
*شوہر:* تم تو ضرورت سے زیادہ ہی جذباتی ہو جاتی ہو میرا خیال اس کی ضرورت نہیں۔
*بیوی:* آپ فکر مت کریں میں آپ سے ایکسٹرا پیسے نہیں مانگو گی۔ میں آج کا پیزا کھانے کا پروگرام منسوخ کر دیتی ہوں۔خواہ مخواہ 500 روپے اڑ جائیں گے، اس موٹی روٹی پیزا کے آٹھ ٹکڑوں کے بدلے اس کی مدد مجھے بہتر لگتی ہے۔
*شوہر:* واہ، واہ بیگم صاحبہ آپ کے کیا کہنے !! ہمارے منہ سے پیزا چھین کر ماسی کی پلیٹ میں؟ چلو آپ کی محبت میں یہ بھی برداشت کئے لیتے ہیں۔
تین دن بعد
*شوہر:* (پونچھا لگاتی كام والی ماسی سے پوچھا) اماں کیسی رہی چھٹی؟
*ماسی:* صاحب بہت اچھی رہیں۔ مالکن جی نے پانچ سو روپے دیئے تھے بڑے کام آئے۔ اللہ سلامت رکھے اور اللہ آپ کو بہت زیادہ عطا کرے۔
*شوہر:* اماں 500 روپے کا کیا کیا لیا؟
*ماسی:* نواسی کے لئے 150روپے کی فراک لی اور 40روپے کی گڑیا، بیٹی کے لئے 50روپے کے پیڑے لے گئی تھی، 50 روپے کی جلیبیاں محلے میں بانٹ دیں’ 60 روپے کرایہ لگ گیا تھا۔ 25 روپے کی چوڑیاں بیٹی کے لئے اور داماد کے لئے 50روپے کا بیلٹ لیا۔ باقی 75 روپے بچے تھے وہ بھی میں نے نواسی کو کاپی اور پنسل خریدنے کے لئے دے دئیے۔
جھاڑوپونچھا لگاتے ہوئےپوراحساب اس کی زبان پر رٹا ہوا تھا۔
*شوہر:* 500روپے میں اتنا کچھ ؟؟؟ وہ حیرت سے دل ہی دل میں غور کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے آٹھ ٹکڑوں والا پیزا گھومنے لگا، وہ ان آٹھ ٹکڑوں کا موازنہ ماسی کے خرچ سے کرنے لگا۔ پہلا ٹکڑا بچے کی ڈریس کا، دوسرا ٹکڑا پیڑےکا، تیسرا ٹکڑا محلے کے لوگو ں کا’ چوتھا کرایہ کا، پانچواں گڑیا کا، چھٹا ٹکڑا چوڑيوں کا، ساتواں داماد کی بیلٹ کا اور آٹھوا ں ٹکڑا بچی کی کاپی پنسل کا۔
آج تک اس نے ہمیشہ پیزا کا اوپر والا حصہ ہی دیکھا تھا، کبھی پلٹ كر نہیں دیکھا تھا کہ پیزا پیچھے سے کیسا لگتاہے۔ لیکن آج كا م والی ماسی نے پیزے کا دوسراحصہ دکھا دیا تھا۔ پیزے کے آٹھ ٹکڑے اسے زندگی کا مطلب سمجھا گئے تھے۔زندگی کے لئے خرچ یا خرچ کے لئے زندگی کا جدید مفہوم ایک جھٹکے میں اسے سمجھ میں آگیا۔ ہم ان چھوٹی چھوٹی باتوں پرکبھی غور ہی نہیں کرتے ہمارے لئے پانچ سو یا ہزار کی کوئی اہمیت بھی نہیں ہوتی لیکن یہ ہزار پانچ سو غریبوں کے لئے بڑی رقم ہوتے ہیں۔ اس لئے کبھی کبھی اپنی نہ محسوس ہونے والی چھوٹی چھوٹی خوشیاں کسی کے نام کرکے دیکھو آپ کو کیسے بڑی خوشی ملتی ہے۔
اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم *شئیر* کر دیکھیں آپ کی *روح* کو کتنی تسکین ہو گئ۔