ذرا مسکرائیے

Click down to read more jokes.

ایک شخص: میں نے آج ایک بڑے آدمی کی جیب کاٹی۔

دوسرا: کمال ہے…آخر کیسے؟

پہلا:میں درزی ہوں۔
—————————————————-
ماں:منے! یہ دروازے پر گندے ہاتھوں کے نشانات تمہارے ہیں۔

بیٹا:جی نہیں امی جان! میں تو لات مار کر دروازہ کھولتا ہوں۔
———————————————————————
بے وقوف شہری:یہ سامنے جو گائے نظر آرہی ہے، اس کے سینگ کیوں نہیں ہیں۔

دیہاتی:سینگ نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں، بعض کے سینگ ٹوٹ جاتے ہیں اور بعض کے ہم کاٹ دیتے ہیں، باقی رہی وہ سامنے والی گائے تو اس کے سینگ اس لیے نہیں ہیں کہ وہ گائے نہیں، گھوڑا ہے۔
———————————————————-
استاد: بھینس کی کتنی ٹانگیں ہوتی ہیں۔

شاگرد:سر! یہ تو کوئی بے وقوف بھی بتادے گا۔

استاد: اسی لیے تو تم سے پوچھ رہا ہوں۔
———————————————————–
استاد: مشہور لڑائیوں کے متعلق بتاؤ۔

شاگرد:امی نے گھر کی باتیں باہر بتانے سے منع کررکھا ہے۔
——————————————————————–
ایک شخص: کیا آپ بتاسکتے ہیں، گائے مفید ہے یا بکری۔

دوسرا: میرے خیال میں بکری مفید ہے، اس لیے کہ گائے نے ایک بار مجھے ٹکر ماری تھی۔ (رانا عبدالرؤف۔ مظفرگڑھ)
—————————————————————————————————–
ایک مرتبہ ایک شخص خلیفہ ہارون الرشید کے پاس آیا اور اس سے کہا، مجھے حج پر جانا ہے۔ میری امداد کریں۔ خلیفہ نے کہا، دیکھو بھائی! اگر تم صاحب نصاب ہو تو ضرور حج کرو، ورنہ حج کیوں کرتے ہو۔

یہ سن کر اس نے کہا:

” میں آپ کو بادشاہ سمجھ کر امداد طلب کرنے آیا تھا، مفتی سمجھ کر فتویٰ پوچھنے نہیں۔
——————————————————–
استاد: پانچ پھلوں کے نام بتاؤ۔

شاگرد:تین سیب اور دو مالٹے۔
————————————————–
ایک شخص: یہ لڑکا تمہارا کیا لگتا ہے۔

دوسرا: یہ میرا دور کا بھائی ہے۔

پہلا: دور کے بھائی سے تمہاری کیا مراد ہے؟

دوسرا: میرے اور اس کے درمیان دس بھائیوں کا فاصلہ ہے۔
————————————————————
ایک شخص ایک نجومی کے پاس گیا اور پوچھا:

”یہ بتاؤ!ابھی تھوڑی دیر بعد کیا ہونے والا ہے۔“

اس نے جواب میں کہا کہ مجھے معلوم نہیں، اس شخص نے اس کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مارا اور بولا:

” یہ ہونے والا تھا۔“
———————————————————————–

ایک شخص بہت زیادہ غربت کا شکار ہوگیا۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا:

” بچوں کو ننھیال بھیج دو اور تم خود اپنی والدہ کے ہاں چلی جاؤ۔“
———————————————————————————–
مالکہ: (خادمہ سے) تم بےکار بیٹھی بیٹھی تھک نہیں جاتیں۔

خادمہ: مجھے آپ کی خاطر تھکنے کی پروا نہیں۔
——————————————————-
استاد: منّے تم کل اسکول کیوں نہیں آئے۔

شاگرد:آپ ہی نے تو کہا تھا کہ بغیر سبق یاد کیے، اسکول نہ آنا۔
—————————————————————————
ایک شاعر کو ہر بات میں یہ کہنے کی عادت تھی، نمونہ پیش کیا ہے۔ ایک روز وہ بازار میں جارہے تھے، کسی صاحب سے ٹکراگئے۔ وہ صاحب جل کر بولے:

” یہ کیا بدتمیزی ہے۔“

انہوں نے فوراً کہا:

” نمونہ پیش کیا ہے۔“
—————————————————–
اردو کے استاد: کوئی اچھا سا شعر سناؤ۔

شاگرد: سنیے:

جگر کا خون چوس لیتا ہے امتحان کا زمانہ

کبھی سہ ماہی، کبھی نوماہی کبھی سالانہ
—————————————————————————
ایک شخص: (کتا فروش سے) اس کتے میں وفاداری کا مادہ بھی ہے یا نہیں۔

کتا فروش: بالکل جناب! تین بار فروخت کرچکا ہوں، یہ بھاگ کر پھر میرے پاس آجاتا ہے۔

—————————————————————————
استاد: وہ کون سا طریقہ ہے جس سے سوال جلد حل ہوجاتا ہے۔

شاگرد: نقل سے۔)

————————————————————————————————————————————————————–

استاد: سب سے زیادہ سونا کہاں ملتا ہے۔

شاگرد:جناب! چارپائی پر۔
————————————————————————————————————————————————————-

ایک فرم کے مالک نے دوسری فرم کے مالک سے پوچھا:

”سناؤ بھئی کاروبار کیسا چل رہا ہے۔“

” ففٹی ففٹی۔“ اس نے جواب دیا۔

”کیا مطلب؟“ دوسرا بولا۔

”صبح ایک آرڈر ملتا ہے، شام کو ایک آرڈر کینسل ہوجاتا ہے۔“
————————————————————-
استاد: گورنمنٹ کسے کہتے ہیں۔

شاگرد: جو منٹ منٹ پر غور کرے۔
——————————————————–
ایک شخص نے کسی سے پوچھا، تمہیں قرآن میں سے سب سے زیادہ کون سا کلمہ پسند ہے۔اس نے جواب دیا، کلو واشربوا یعنی کھاؤ پیو۔ اس نے دوسرا سوال کیا، کون سی دعا پسند ہے۔ اس نے کہا، ربنا انزل علینا مائدۃ من السماء۔ یعنی اے ہمارے رب! اتار ہم پر آسمان سے دسترخوان۔

————————————————————-
استاد: اگر تمہارے پاس دو سیب ہوں اور تمہارے ہاں دو مہمان آجائیں تو تم کیا کروگے۔

شاگرد:ان کے جانے کا انتظار۔ –
———————————————————-

ایک شخص کو مذاق کرنے کی بڑی عادت تھی۔ انہوں نے اپنے دوست کو بیرنگ خط لکھا، خط میں صرف ایک جملہ لکھا کہ میں خیریت سے ہوں۔ جواب میں اسے ایک بھاری بیرنگ لفافہ موصول ہوا۔ وصول کرتے ہی انہوں نے لفافہ کھولا۔ اندر سے ایک پتھر نکلا، اس پر لکھا تھا:

”آپ کی خیریت کی اطلاع پاکر میرے دل سے یہ بھاری پتھر ہٹ گیا۔“
—————————————————————————
پھل والا:جناب یہ آم کھاکر دیکھیے، لڈو ہے لڈو۔

گاہک:لیکن میں گھر سے آم خریدنے نکلا ہوں۔
————————————————————-
بیٹا:اباجان! کیا آپ اندھیرے میں لکھ سکتے ہیں۔

باپ:ہاں! کیوں نہیں۔

بیٹا:تو پھر بلب بجھاکر میری رپورٹ پر دستخط کرکے دکھائیں۔
——————————————————————-

استاد: تمہیں سب سے زیادہ خوشی کس دن ہوتی ہے۔

شاگرد:جس دن آپ بیمار ہوتے ہیں۔
———————————————————

بہن:اسلم تم اردو کس قدر رک رک کر پڑھتے ہو۔ مُنّی کو دیکھو، کیسے فر فر پڑھتی ہے، پڑھو منی۔

منی:فر فر فر فر فرفر ۔
——————————————————–

ایک آدمی کے سر پر بال کہیں کہیں تھے۔ چند لڑکے اس کے پیچھے آرہے تھے۔ ان میں سے ایک بولا:

” ان صاحب نے تو سر پر گھاس اگا رکھی ہے۔“

یہ سن کر وہ صاحب بولے:

”تبھی تو گدھے میرے پیچھے آرہے ہیں۔“
——————————————-

ایک زمیندار نے نیا ملازم رکھا، ایک دن اس نے دیکھا، ملازم بھینس کو دودھ پلارہا ہے۔ زمیندار نے غصے میں آکر پوچھا، یہ کیا کررہے ہو، دودھ دوہنے کی بجائے، اسے پلارہے ہو۔ اس پر ملازم نے کہا:

”دودھ بہت پتلا تھا جناب! میں نے سوچا، دودھ کو ایک چکر اور دے لوں۔“

——————————————————————–
استاد: ململ کو جملے میں استعمال کرو۔

شاگرد:ہمیں خوب مل مل کر نہانا چاہیے۔
——————————————————————-
استاد: برف کی مؤنث بتاؤ۔

شاگرد:برفی۔
——————————————————————

ایک دوست: یار یہ قوالی والے قوالی کے وقت اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر کیوں رکھ لیتے ہیں۔

دوسرا دوست: تاکہ اپنی آواز خود نہ سن سکیں۔
—————————————————————

باپ: جب کوئی بچہ شرارت کرتا ہے تو باپ کاایک بال سفید ہوجاتا ہے۔

بیٹا:اب پتا چلا، دادا جان کے سارے بال کیوں سفید ہیں۔
———————————————————–

ایک دیہاتی اپنے بیٹے کو شہر کا چڑیا گھر دکھانے لے گیا، سیر کے دوران وہ زیبرے کے پاس پہنچے۔ دیہاتی نے بیٹے سے کہا:

”دیکھو بیٹا! چڑیا گھر والوں نے گدھے کو سوئیٹر پہنا رکھا ہے۔
———————————————————————-

بیوی: (تھانے دار سے) جناب! ایک ہفتہ ہوگیا، میرے شوہر آلو خریدنے گئے تھے، اب تک لوٹ کر نہیں آئے۔

تھانے دار:آپ کوئی اور سبزی پکالیں۔
———————————————————
استاد: سب لڑکوں نے دودھ پر دو صفحات کا مضمون لکھا ہے، اور تم نے دو سطر کا۔

شاگرد: جناب! میں نے خالص دودھ پر مضمون لکھا ہے۔
———————————————————–

ایک بھکاری ہاتھ میں تختی لیے بھیک مانگ رہا تھا۔ اس پر لکھا تھا، میں بہرہ اور گونگا ہوں۔ ایک آدمی نے اس سے پوچھا، آپ کب سے گونگے اور بہرے ہیں۔

اس نے فوراً کہا:

” پیدائشی گونگا اور بہرہ ہوں۔“
—————————————————–

ایک دوست: (دوسرے پر رعب ڈالتے ہوئے) اگر میں صبح اپنی کار میں بیٹھ کر اپنی زمین دیکھنے نکلوں تو شام تک پوری زمین نہیں دیکھ پاتا۔

دوسرا: چچ چچ! بہت عرصہ پہلے ہمارے پاس بھی ایک ایسی ہی کھٹارا کار تھی۔
————————————————————————–

بیوی: آپ نے جو گلاب کی قلم لگائی تھی، اس کی جڑ ابھی تک پیدا نہیں ہوئی۔

میاں: تمہیں کیسے معلوم؟

بیوی: میں روزانہ اس کو نکال کر دیکھتی ہوں۔
———————————————-

استاد: دستک کو جملے میں استعمال کرو۔
شاگرد: ہمارے منے کو دس تک گنتی آتی ہے۔
——————————————————-
بیوی (فون پر) جلدی گھر آئیے، منے نے سوئی نگل لی ہے۔
پروفیسر شوہر: میں بہت مصروف ہوں، پڑوسن سے سوئی لے کر کام چلا لو۔
—————————————————————————————–
ایک بچے نے اپنی ماں سے پاکستان کا جھنڈا خریدنے کی فرمائش کی۔ ماں نے دکان دار سے جھنڈا دکھانے کے لیے کہا۔ اس نے جھنڈا دکھایا تو وہ بولی:
”کسی اور رنگ میں دکھاؤ۔“
———————————————————–
ایک دیہاتی کسی بڑے ہوٹل میں گیا اور چائے کا آرڈر دیا۔ بیرا ایک چھوٹے سے کپ میں ذرا سی چائے لے آیا۔ اس نے ایک ہی گھونٹ میں چائے ختم کر دی اور بولا:
”میٹھا ٹھیک ہے، چائے لے آؤ۔
———————————————
باپ: بیٹا میں آپ کے لیے دوسری امی لے آؤں۔
بیٹا:وہ مجھے اسکول جانے کے لیے تو نہیں کہیں گی۔
—————————————————————
ہاسٹل میں رہنے والے ایک دوست نے دوسرے سے پوچھا:
”کیا بات ہے، تم بہت پریشان ہو؟“
دوسرے نے جواب دیا:
”کیابتاؤں یار،میں نےگھروالوں کوخط لکھاتھاکہ ٹیبل لیمپ خریدنےکےلیے500 روپے بھیج دیں، انھوں نے ٹیبل لیمپ بھیج دیا۔“
——————————————)
استاد: آپ کے بیٹے نے اسکول کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔
باپ: نالائق کہیں کا… گھر میں برتن توڑتا رہتا ہے اور یہاں ریکارڈ۔
————————————————————-
ایک کنجوس آدمی اپنی بائیں آنکھ پر ہاتھ رکھ کر جارہا تھا۔ ایک شخص نے پوچھا:
”کیا ہوا بھائی! آنکھ کو کیا ہوا۔“
اس نے جواب دیا:
”کچھ بھی نہیں! جب ایک آنکھ سے کام چل جاتا ہے تو دوسری کیوں استعمال کروں۔
———————————————————
ایک دوست دوسرے سے کہہ رہا تھا:
”یار وہ اپنے دوست وکیل احمد خان تھے نا… وہ جنھیں ہر چیز کی تہ تک پہنچنے کا شوق تھا۔“
دوسرے نے چونک کر پوچھا:
”کیا ہوا انھیں۔“
پہلے نے جواب دیا:
”وہ ڈوب کر مر گئے؟“
————————————————–
ایک صحافی دوسرے سے کہہ رہا تھا:
”فلاں صحافی بک گیا، فلاں نے اتنی رقم لے کر اپنا قلم بیچ دیا، اس نے صحافت کے مقدس پیشے کو بدنام کیا ہے۔ غرض ہر صحافی اور ادیب بک گیا، لیکن میں آج تک نہیں بکا۔“
دوسرے نے یہ ساری بات سن کر کہا:
”بھائی تم جس اخبار میں لکھتے ہو، وہ اخبار کبھی فروخت نہیں ہوا، پھر تم کیسے فروخت ہوسکتے ہو۔“
———————————————————————————– :silly:
احمد: چچا رمضان! کہاں جارہے ہیں۔
رمضان: جمعہ پڑھنے۔
احمد: لیکن آج تو بدھ ہے۔
رمضان:بیٹا احمد جمعے کے دن مسجد میں رش بہت تھا، میں پڑھ نہیں سکا تھا۔ میں نے سوچا، آج پڑھ لوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *