Click to read more.
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،اپنے حصے کی شمع،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اک ٹیچر نے اپنے شاگرد سے پوچھا کی دسمبر کی یخ بستہ سردی میں آپ بغیر سوئیٹر کے کیوں آئے ہیں، شاگرد نے سرد اور مایوس لہجہ میں جواب دیا کہ گھر والوں کی اتنی پوزیشن ہی نہیں کہ وہ مجھے سویٹر خرید کے دے سکیں، استاد نے دل کی گہرائیوں سے نکلا جواب سن کر ششدر رہ گیا، اس نے مزید بچوں کا بغور جائزہ لیا تو ان میں سے کچھ تعداد محروم نکلی استاد نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا کہ کیوں نہ تھوڑا تھوڑا چندہ اکٹھا کر ان محروم اور غریب بچوں کے لئے کچھ نہ کچھ کیا جائے،
پھر کیا ہوا اک کمپین چلی اور دوستوں نے اپنے حصے کی ایسی شمع جلائی کی جو غریب بچے تھے وہ سردیوں کی شدید لہر سے بچ گئے، کسی بھائی نے سو تو کسی نے پانچ سو اور کسی نے شوز تو کسی نے سویٹزر خرید کر اپنے ضمیر کو مطمئن کیا ،
لوگ پلاؤ کی دیگ پہ دیگ تقسیم کرتے ہیں اور انہی لوگوں میں تقسیم ہو جاتی ہے جو صبح دہی اور پراٹھوں سے ناشتا کر کے باہر تفریح کے لئے نکلتے ہیں
یوں وہ اپنے حصے کی خیرات تو کر جاتے ہیں لیکن حقدار بے چارہ پھر رہ جاتا ہے، جو سردی میں گرم لباس سے نہ ہونے کی وجہ سے باہر نہیں نکل سکتا اس کے لئے ہزار دیگ چاول کی بے کار ہے، جس کے پہننے کے لئے چپل نہیں ہے وہ خیرات کو کیا کرے،
جس کی صبح چائے اس لئے تیار نہیں ہوئی کہ چینی گھر میں دو دن سے ختم ہے وہ بھلا اک پلیٹ چاول کھا کر گھر کیسے جائے،اک آدمی ہر ماہ اک دو پتیلے پلاؤ تقسیم کرتا تھا، اک دن اس کا پڑوسی میڈیسن نہ خریدنے کی وجہ سے مزید بیمار ہو گیا، اس آدمی نے پلیٹوں والی خیرات چھوڑ کر نقد پیسے والی خیرات کو ترجیح دی،
بات کا مدعا یہ ہے کہ سب خیرات اچھی ہیں لیکن جو نقدی کی صورت میں کسی کو دی جائے وہ اپنی مرضی سے اپنی الجھن حل کر سکتا ہے، ہو سکتا جسے ہم کھانا کھلا رہے ہوں وہ بے چارہ بیٹی کی فیس کی ضرورت رکھتا ہو،
اس لئے صاحب ثروت سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ خیرات و صدقہ پیسوں کی صورت میں کرنے سے غریب اپنی وہ الجھن حل کر سکتا ہے جسے وہ بتا نہیں سکتا، بہت سے مسائل ایسے ہیں جو ضرورت مند صرف پیسوں سے حل کر سکتا ہے، اس لئے اپنے حصے کی شمع جلاؤ لیکن ان کے لئے نہ جلاؤ جو پہلے سورج لے کے کر پھر رہے ہیں ان کے لئے جلاؤ جن کے آنگن میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے، مایوسی ہی مایوسی ہے،