Click down to read more
————یہ میرا مسئلہ تو نہیں ہے۔———-
ایک چُوہا کسان کے گھر میں بِل بنا کر رہتا تھا، ایک دن چُوہے نے دیکھا کہ کسان اور اُس کی بیوی ایک تھیلے سے کچھ نکال رہے ہیں، چُوہے نے سوچا کہ شاید کچھ کھانے کا سامان ہے.
خُوب غور سے دیکھنے پر اُس نے پایا کہ وہ ایک چُوہےدانی تھی- خطرہ بھانپنے پر اُس نے گھر کے پِچھواڑے میں جا کر کبُوتر کو یہ بات بتائی کہ گھر میں چوہےدانی آ گئی ہے.
کبوتر نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا: کہ مجھے اس سے کیا۔۔؟ مجھے کون سا اُس میں پھنسنا ہے۔۔؟
مایُوس چُوہا یہ بات مُرغ کو بتانے گیا.
مُرغ نے بھی مذاق اُڑاتے ہوئے کہا کہ:… جا بھائی یہ میرا مسئلہ نہیں ہے.
بالآخر چُوہے نے جا کر بکرے کو بھی یہ بات بتائی، جسے سُن کر بکرا ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونے لگا، اور یہی کہا کہ جاؤ میاں یہ میرا مسئلہ نہیں ہے.
اُسی رات چوہےدانی میں كھٹاک کی آواز ہوئی جس میں ایک زہریلا سانپ پھنس گیا تھا.
اندھیرے میں اُس کی دم کو چُوہا سمجھ کر کسان کی بیوی جب اُسے نکالنے لگی تو سانپ نے اُسے ڈس لیا.
طبیعت بگڑنے پر کسان نے حکیم کو بلوایا، جِس نے اُسے کبُوتر کا سُوپ پلانے کا مشورہ دیا.
کبُوتر ابھی برتن میں اُبل ہی رہا تھا
کہ خبر سُن کر کسان کے کچھ رشتہ دار عیادت کو آ پہنچے جن کے کھانے کے انتظام کیلئے اگلے دن مُرغ کو ذبح کر دیا گیا.
کچھ دنوں کے بعد کسان کی بیوی مر گئی، جِس کے جنازے اورتعزیت پر آنے والوں کی ضیافت میں بکرا کاٹنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہ تھا.
جب کہ
چُوہا تو کب کا دُور جا چکا تھا……. بہت دُور …………
!
لہٰذا
اگلی بار اگر کوئی آپ کو اپنا مسئلہ بتائے اور آپ کو لگے کہ “یہ میرا مسئلہ نہیں ہے” تو انتظار کیجئیے اور دوبارہ سوچیئے کہ کہیں ہم سب خطرے میں تونہیں ہیں۔
کیونکہ
اگر سماج کا ایک حصہ، ایک طبقہ، یا ایک شہری بھی خطرے میں ہے تو یقیناََ کہ پُورا مُلک خطرے میں ہے.
ذات، مذہب اور طبقے کے دائرے سے باہر نكلیں،
صرف اپنی ہی ذات تک محدود مت رہیے. دوسروں کا بھی اِحساس کیجئیے۔
کیونکہ
پڑوس میں لگی آگ آپکے گھر تک بھی پہنچ سکتی ہے….