Click 👇 to read more
▪ *انسان اور دنیا کی عجیب حقیقت*
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک کا ایک بادشاہ تھا۔ اس نے ایک نہایت خوبصورت باز پال رکھا تھا جس سے وہ شکار کا کام لیتا تھا۔ باز اس کا وفادار اور اس کے اشاروں پر چلنے والا تھا۔ ایک دن وہ گم ہو گیا۔ تلاش کے باوجود بھی نہ ملا۔ بادشاہ نے ملک بھر میں ڈھنڈورا پٹوا دیا۔ باز کی تلاش شروع ہوگئی۔
اُدھر باز ایک بُڑھیا کی جھونپڑی میں چلا گیا۔ بُڑھیا نا سمجھ اور جاہل تھی۔ اس نے باز کو دیکھا تو کہا،
تو کِن ناسمجھ لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے؟ جنھوں نے تیرے پروں کی تراش خراش کی نہ تیرے ناخن کاٹے اور نہ تیری ٹیڑھی چونچ کو سیدھا کیا۔
سو اس نے باز کی چونچ، پروں اور ناخن کو کاٹ دیا اور اسے بالکل بے کار کر دیا۔ بادشاہ کے کارندے باز کو ڈھونڈتے ہوئے بُڑھیا کی جھونپڑی تک پہنچے اور باز کو لے کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کر کے سارا ماجرا بیان کیا۔
بادشاہ بہت رویا اور باز سے کہنے لگا تیرا یہی علاج تھا جو بُڑھیا نے کر دیا۔ تو نے اپنے مالک سے جو تیری ہر ضرورت کو بہتر سمجھتا اور تیرا خیال رکھتا تھا دغا کیا اور ایسی جگہ گیا جہاں نہ تو کوئی تیری ضرورت کو سمجھتا تھا اور نہ تیرا خیال رکھ سکتا تھا۔ پس ذلت تو تیرا مقدر ہونی ہی تھی سو وہ ہوئی۔
مولانا روم فرماتے ہیں کہ باز سے مراد انسان اور بڑھیا سے مراد دنیا ہے۔
(حکایات مولانا روم سے اقتباس )
tik kaha ap na