Click 👇 to read more and leave comments if you like.
اماں بی نے ناراضگی سے پاؤں سمیٹے ،
“اٹھو بھئی یہ تم میاں بیوی کے روز کے جھگڑے ، ہمارے پاس نہ لایا کرو “
” اماں آپ سے نہ کہوں تو کس سے کہوں۔ عاجز کر دیا ہے آپ کی بہو نے۔ سمجھ نہیں آتا کیا کروں، کہاں جاوں۔ ” بیٹے نے تقریبا سر کے بال کھینچتے ہوئے کہا۔
” تمیں کچھ ماہ کی چھٹی ملے گی۔؟ ” اماں بی نے اس کے پریشان چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” کیوں اماں کیا آپ اب مجھے اس کے ساتھ گھومنے بھیجنا چاہ رہی ہیں ۔ بھر پایا میں ہر روز کے رونے دھونے ، مطالبوں سے۔ اوپر سے زبان درازی الگ۔ میں بیوی کو لے کے کہیں سیر کے لیے نہیں جا رہا۔ ” بیٹے نے بری طرح بلبلا کے کہا۔
” میں جو پوچھ رہی ہوں اس کا جواب دو؟ ” اماں بی نے گھورا ۔
” اماں آپ جانتی تو ہیں اچھی طرح کہ آرام سے مل جائے گی۔ میں بھائی جان سے پوچھ لیتا ہوں اپنے بزنس کا یہی فایدہ ہے”
“چلو ابھی کال کر کے پوچھو ” اماں نے موبائل اٹھا کے ہاتھ میں دیا ۔
بیٹے نے کال ملا کے بھائی سے بات کی اور اماں کو بتا دیا۔تین ماہ کی چھٹی مل گئی تھی۔
” ٹھیک ہے بیگ پیک کرو ، تین ماہ کے لیے تم اپنے جاوید ماموں کے پاس رہو گے۔ میں نے ان سے بات کر لی ہے۔ بیوی ساتھ نہیں جائے گی۔ اس کو اس کی اماں کے گھر بھیج دو تاکہ اس کے بھی وہاں رہنے کے ارمان پورے ہو جائیں ۔” اماں بی نے مزے سے بتایا اور لیٹ کے کروٹ بدل لی۔
بیٹا جانتا تھا اب یہی کرنا پڑے گا۔ “خیر اچھا ہی ہے اس لڑاکا لڑکی سے جان چھوٹے۔ تین ماہ مزے کروں گا۔ یہاں تو اس کے فرمائشی پروگرام ہی ختم نہیں ہوتے ۔ “
بیگ پیک ہوا۔ بیوی بھی خوشی سے اچھل پڑی ۔ ” چلو جی ہماری تو عید ہو گئی ۔ کہاں اماں کے گھر کے آرام ۔ کہاں یہ بدمزاج دھونس جماتو میاں۔ یہ کرو وہ کرو ۔ ایسے کرو ، ایسے نہ کرو، اب تو میں تین مہینے تک خوب گھوموں گی، شہر بھر کے گول گپے برگر کھاؤں گی۔ دل بھر کے سووں گی۔ ۔۔” ایک لمبی لسٹ تیار کرلی دل ہی دل میں ۔
جلدی جلدی بیگ پیک کر کے ، دونوں میاں بیوی اپنی اپنی منزل کو روانہ ہوئے ۔
سارے گھرانے نے سکھ کا سانس لیا ورنہ تو صبح شام کی لڑائیاں تھیں جن میں وہ سب کبھی ایک کو سمجھاتے کبھی دوسرے کو مناتے دن گزارتے تھے۔ اور اس منانے سمجھانے میں سارے اہم کام رہ جاتے۔
لڑکے کے ماموں نے اپنے بھانجے کا خوب استقبال کیا۔
“آ جاؤ میرے کڑیل جوان ۔ مجھے تو بیج کی بوائی کے لیے تمہارا ہی انتظار تھا۔ چلو آج ہی تمہیں زمین دکھاؤں” گرم جوشی سے گلے لگا کر انہوں نے کہا۔
” جی !!! ” بھانجے نے حیرت سے کہا،
” آپا بی نے کہا تھا جب تک تم اپنی زمین سے پھل نہ پاؤ گے واپس جانے کی اجازت نہیں “
” ہیں اماں بھی نہ !!!”
خیر مرتے کیا نہ کرتے ، ماموں کے ساتھ گھر سے نکلا ، گیلی مٹی کی البیلی مہک ، نرم ہوا ، آس پاس بکھرا سبزہ، موڈ ایک دم خوشگوار ہوگیا۔ لیکن جب وہ قطعہ دیکھا جس میں اس کو بوائی کرنی تھی تو کچھ دیر تو چپ کا چپ ہی رہ گیا۔ اچھے خاصے حصے میں کانٹے دار جھاڑیاں اگی تھیں ، ایک جانب کائی ذدہ ڈھلان ، جس میں پانی ٹھرا ہوا تھا۔
“یا اللہ”, خیر دیکھتے ہیں۔
اگلے دن سویرے سے زمین کی گڈائی شروع ہوئی ، ہر جگہ سے مٹی اوپر نیچے کرنا، کھاد ملانا اور زمین کو بیج بونے کے لیے خود رو پودوں سے پاک کرنا کوئی آسان نہ تھا اور نہ ہاتھ اس محنت کے عادی تھے۔
کانٹے دار جھاڑیوں سے زمین کو صاف کرتے ، ڈھلان کو مٹی ڈال کے ہموار کرتے اس نے سوچا کہ اماں نے شاید اس کی ذہنی حالت کو درست کرنے کے لیے یہاں بھیجا ہے جیسے امریکی فوجیوں کو افغانستان سے لوٹنے کے بعد گھوڑوں کو سدھانے اور فارمننگ کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے تا کہ ان کے اعصاب بحال ہوں۔
واقعی بیوی کے ساتھ رہنا حالت جنگ سے کم نہیں ۔ سارا وقت بہنوئیوں، اپنی کزنز کے شوہروں کے قصے، کون منہ میں نوالہ ڈالتا ہے ، کس کی بیوی رات کو صبح کہہ دے تو وہ بھی پھر صبح ہی کہتا ہے اور کون محبت میں دودھ کی نہر کھودنے پہ آمادہ ہے، سنا سنا کہ زچ کر دیتی۔ اور اس پہ بس نہ چلتا تو شوہر کے فرائض اور زمہ داریوں پہ مشتمل احادیث ، اقوال جمع کر کے واٹس ایپ کرتی، فیس بک پہ پوسٹ لگاتی اور ٹیگ بھی اسی کو کرتی ۔ ایک زمانے کو پتہ چل گیا تھا کہ وہ اپنی زمہ داریوں اور فرائض سے ناواقف ہے ۔
اللہ اس لڑکی کو کسی نے اس کی زمہ داریاں بھی بتائی ہیں ؟؟؟ اپنی قابلیت کے قصے اور خوبصورتی کی داستانیں سنانے کا شوق مزید سونے پہ سہاگا تھا ۔ اس نے غصے سے کدال زمین پہ ماری اور گھٹنوں بیٹھ گیا۔ کسی مرد کے لیے اس سے زیادہ تھکا دینے والی بات کیا ہو گی کہ اس کی بیوی کے مطابق اس میں کوئی خوبی ہی نہیں۔ اور اس کی قسمت ہی پھوٹ گئی جو ایسے مرد سے اس کی شادی ہو گئی ۔ یہ تو اس کا سیلف کتھارسس ہی ہو گیا۔ یعنی اپنے ذہنی تناؤ کو ختم کیا.
تھک ہار کے گھر آتا تو لذیذ ساگ ، دیسی مرغ کے سالن ، لسی کا گلاس پی سکون سے سورہتا۔
زمین تیار ہوئی تو بوائی کا موسم آیا ۔ ایک کٹھن مرحلہ ، لیکن اس کے بعد جو پانی دینے اور بیج کی دیکھ بھال کرنی تھی ، تو اندازہ ہوا کہ یہ اور بھی پر مشقت کام ہے ۔ گھر کی یاد بھی آتی۔ بیوی سے فون پہ بات بھی کرتا ۔ یہاں دل ایسا لگ گیا تھا ، جس زمین میں پسینہ بہایا تھا ،اس کی بہار دیکھے بغیر گھر لوٹنا اب مشکل لگتا۔
زمین پہ چلتا بھی تو احتیاط کے ساتھ کہ کہیں کوئی نرم و نازک کونپل نکلنے سے پہلے نہ کچل جائے۔کبھی وہیں بیٹھ کے زمین کو پھاڑ کے نکلتے سبزے کو دیکھنے سے بڑھ کے دل فریب کام کیا ہوگا ۔ پھر انکی حفاظت کے جنگلی جانور گھس کے تباہی نہ مچا دیں۔اب تو رات کی نیندیں دن کا چین سب غائب تھا۔ جیسے جیسے پھل آنے کا موسم آ رہا تھا اس کی محنت بھی بڑھ رہی تھی۔ کیڑوں نے حملہ کیا تو زرعی سینڑ سے جا کے معلومات حاصل کرکے اسپرے کیا۔ اس پاس کے لوگوں سے دوستی بڑھائی کے ضروت پڑنے پہ کوئی سنگی ساتھی تو ہو۔
ننھی ننھی توریاں اب پودوں پہ بہار دکھا رہی تھیں۔ ہر دن نئے جوش سے اٹھ کے اپنی زمین کے پاس اتا۔ فصل پک کے تیار ہوئی تو خوشی سے اس کا دل رقص کناں تھا۔ سرپرائز دینے اماں بھی آ گئیں۔ لہلہاتے سبز پودے اور تازہ تازہ توری ، بیٹے کی محنت دیکھ کے دل باغ باغ ہوگیا۔ محبت سے ماتھا چوما۔
“چلو بھئی امتحان ختم, اب ہمارے ساتھ واپس چلو “
رات جب وہ ان کے پاؤں دبا رہا تھا تو پیار سے کہنے لگیں۔اتنے دن کے بعد بیٹے کو دیکھا تھا۔
“کیسا رہا میرے بیٹے کا یہ تجربہ ؟”
” بہت مشکل، بے حد کٹھن ،جان توڑ محنت ۔
بس اماں کیا بتاؤں، جب فصل لہلہاتی ہے تو ساری تھکن غائب ۔ اپنی کھیتی کو ہرا بھرا دیکھنا اتنا خوبصورت تجربہ ہے کہ لفظوں میں بیان کرنا مشکل ۔ “
جوش سے اٹھ کے بیٹھ گیا۔ ہاتھ اماں کے سامنے کھولے
سخت محنت سے نشان زدہ گٹے پڑے ہاتھ ۔
اماں دھیرے سے مسکرائیں۔
“نساوکم حرث لکم
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔”
” اماں !”
ایک دم بہت کچھ سمجھ آیا ،
اماں نے کیوں بھیجا تھا ؟
کیا تھا جو وہ سکھانا چاہتی تھیں ؟
زمین سے محبت کیسے کی جاتی ہے !
اپنا بنانے کے لیے کس طرح خون پسینہ بہانا پڑتا ہے !
کیونکر حفاظت کی جاتی ہے !
دیکھ بھال کتنی کٹھن !
پھر خوبیوں میں اضافہ اور خامیوں کی کاٹ چھانٹ !
اور تمام محنت کے بعد لہلہاتی زمین کو دیکھ کے خوش ہوجانا !
ایسی خوشی کسی دوسری چیز میں کہاں ؟
یہی وہ سبق ہے جو اب اس کو یاد رکھنا ہے ۔
“اماں بی، ” لاڈ سے ماں کی گود میں سر رکھ دیا ۔
بیوی کی یاد آئی،
مسکرا کے آنکھیں موند لیں۔
______
دوسری طرف بیوی جونہی گھر داخل ہوئی تو ماں نے بڑے پرتپاک انداز میں بیٹی کا استقبال کیا. دو بھابھیاں تھیں جن کے چہرے پر ظاہرا خوشی کے آثار نظر آرہے تھے. وہ دونوں بھی اس طرح گلے ملیں جیسے صدیوں بعد ملاقات ہوئی ہو. اب بیوی بے فکر ہو کر بستر پر سو گئ. دوچار دن گزرتے تو ایک بھابھی نے رواجاً پوچھا کہ گھر بار سب ٹھیک ہے. تو بولی ہاں سب ٹھیک ہے بس اب تھوڑا آرام کرنا چاہتی ہوں. بھابھی نے ماتھے پر جھریاں ڈالتے ہوئے دوبارہ یوں پوچھا جیسے اسے سمجھ نہ آئی ہو. اور کہا کہ کیا نیند پوری نہیں ہوئی کیا؟ نہیں نہیں ایسی بات نہیں اب کچھ وقت اماں کے پاس گزارنا ہے… بھابھی نے کہا کوئی بات نہیں ست بسم اللہ…. چند دن اور گزرے تو بھابھی نے اپنے خاوند کو بڑے محبت بھرے لہجے میں بتانے کی کوشش کی کہ لگتا ہے آپ کی بہن لڑائی جھگڑا کر کے آئی ہے. ہمیں تو کوئی مسئلہ نہیں مگر بہن، بیٹی اپنے خاوند کے گھر میں ہی رہے تو اچھی لگتی ہے….. اس کے جواب میں بھائی نے بھابھی کو ڈانٹ کر چپ کرا دیا…. جبکہ دوسری بھابھی کے لیے اس کا ان کے گھر رہنا باعث دقت محسوس ہونے لگا. اور وہ باتوں باتوں میں اپنی ساس کو بتاتی رہی مگر ساس نے کوئی توجہ نہ دی. کرتے کرتے ابھی دو ہفتے گزرے ہوں گے کہ بھابھیوں نے اسے کپڑے دھونے اور باورچی خانے میں کام کا کہ دیا. اب وہ کام کرنے لگے تو آہستہ آہستہ انہوں نے گھر کے سارے کام اس کے ذمہ لگا دئیے. ابھی کھانا بنا کر دیا ہی تھا کہ کسی نے چائے کا کہہ دیا. کبھی کوئی کپڑے استری کے لئے دے دے. ایک بھابھی نے تو کہہ دیا کہ مجھے تو کمر میں درد ہے ڈاکٹر نے اب مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے. اب بھابھیوں کے ساتھ ان کے بچوں کا خیال رکھنا بھی اسی کے ذمہ لگ گیا. اور ساتھ ساتھ طعنے بھی سننے کو مل گئے کہ شادی سے پہلے تو سب کچھ کرنا آتا تھا اب تو کوئی بھی کام سلیقے سے نہیں کر رہی. ابھی مزید ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ اس کو دن میں تارے نظر آنا شروع ہو گئے. اب اس کو اپنے گھر کی یاد آنا شروع ہو گئی کہ اِس سے آدھا کام بھی میں اپنے شوہر کے گھر میں نہیں کرتی تھی اور وہ پھر مجھے کچھ نہیں کہتے تھے الٹا میں ہی خواہ مخواہ جھگڑا کر کے بیٹھ جاتی تھی. اب کبھی بچے لڑ پڑتے تو فوراً آواز آتی کہ بچوں کو کس نے مارا ہے….. . جب سے یہ آئی ہے بچوں کی لڑائیاں ہی ختم نہیں ہوتیں
ایک دن تنگ آکر اس نے ماں کو بتایا تو ماں نے کہا کہ آپنے شوہر کو کال کرو اور اسے کہو کہ وہ تمہیں آکر لے جائے….. نہیں ماں میں کال نہیں کروں گی. وہ خود ہی مجھے لینے آئے گا تو جاؤں گی. تو ماں نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر انتظار کرو اور اپنی بھابھیوں کی باتیں سنو. اب دو ماہ گزر چکے تھے اور اس نے اپنے آپ کو ایسے محسوس کیا کہ وہ کسی کام کی سزا بھگت رہی ہو. اب اپنے خاوند کے کی یاد آنے لگی اور احساس بھی ہونا شروع ہو گیا کہ مجھے اپنے خاوند سے غیر مناسب رویہ نہیں رکھنا چاہیے تھا. لیکن ساتھ ہی سوچنے لگ جاتی کہ میں کال کیوں کروں. میں اپنی بالادستی قائم رکھوں گی… ابھی ایک دن اور گزرا ہی تھا کہ گھر میں کچھ مہمان آگئے تو کھانا پکانے کے بعد بھابھی کے نئے شیشے کے ڈنر سیٹ کا ڈونگا ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا جس پر بھابھی نے خوب باتیں سنائیں اور کہا کہ اتنا مہنگا سیٹ توڑ دیا ہے. کبھی خریدا ہو تو پتہ چلے. پلاسٹک کے برتنوں میں کھانے والوں کو شیشے کے برتنوں کی کیا پہچان…. اب ایسے جملے اس کی برداشت سے باہر ہو رہے تھے مگر کیا کرتی…. خاموش رہنے کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہ تھا.
مہمانوں کی رخصتی کے بعد برتن ٹوٹنے کی بات پھر تقویت پکڑ گئی. بھابھی نے اس کے بھابھی یعنی اپنے خاوند کو کہا کہ آپ کی بہن نے میری ماں کے دیئے ہوئے جہیز کے ڈنر سیٹ کو برباد کر دیا ہے مجھے ایسا ہی سیٹ ابھی چاہیے. یا اپنی بہن کو کہیں کہ مجھے فوراً اس کے پیسے دیں. اتنے میں ماں آگئی اور اس نے معاملے کو بڑی حکمت سے سلجھایا.
تھوڑی دیر بعد بھتیجی آئی اور کہنے لگی پھوپھو پھوپھو ماما کہہ رہی تھی کہ آپ ہمارے پاس ہماری خدمت کے لئے آئی ہیں؟ اور ہاں وہ یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ تمہاری پھوپھو بہت جھگڑالو ہیں… .. ہر وقت اپنے گھر میں کوئی نہ کوئی تماشا لگایا ہوتا ہے
بھتیجی کے منہ سے یہ باتیں سننا ہی تھیں کہ اس نے بچی کو کوئی جواب دیئے بغیر اس کو کمرے سے باہر جانے کا کہا اور دھڑام سے بیڈ کے گدے پر گر کر رونا شروع کر دیا
اب اسے ایسے لگا جیسے اس نے اپنے خاوند سے دور رہ کر بہت بڑی غلطی کی ہو
اتنے میں اماں کمرے میں جائے نماز تلاش کرتے کرتے آ پہنچیں…. بیٹی کو اس قدر عجیب کیفیت میں دیکھ کر گلے لگایا… اور اسے سمجھایا کہ بیٹا میں تو پہلے دن ہی سمجھ گئ تھی مگر میں نے تمہیں واپس جانے کا اس لئے نہیں کہا تھا کہ کہیں تم یہ نہ سمجھ لینا کہ میری ماں نے مجھ سے منہ موڑ لیا ہے… میں نے سوچا کہ ایک دن تمہیں خود ہی احساس ہو جائے گا کہ بیوی کی شان اس کے اپنے گھر میں ہے
چلو خیر….. صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آجائے تو اس کو بھولا ہوا نہیں کہتے
ابھی اپنے میاں کو فون کرو کہ وہ کل صبح پہلی ٹرین سے ہی تمہیں لینے آجائے
ادھر خاوند کو بھی چونکہ احساس ہو چکا تھا اس نے اپنی ماں کو ساتھ لیا اور اپنے ماموں کے گھر سے اپنے گھر جانے کی بجائے کچھ تازہ پھلوں اور مٹھائی کے دو بڑے ڈبوں کے ساتھ اپنے سسرال کے گھر کا رخ کیا.
بیوی نے جونہی اپنے خاوند اور ساس کو دیکھا…. تو امی جان کہتی ہوئی ماں کے گلے سے لپیٹ گئ…..
ابو یُمنٰی
Very nice
Please also write what happened to his wife and how it impacted him afterwards life
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ. شکریہ. باقی حصہ بھی مکمل کر دیا ہے.