حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما

Click

فضائل امیر معاویہ پر ائمہ کی کتب کی فہرستیں پیش کرنے والوں کے لیے Zaheer Ahmad کی خوبصورت اور جامع تحقیق پیش خدمت ہے
*حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل پر لکھی گئی کتب کا تحقیقی جائزہ*
تحریر: حافظ ظہیر احمد الاسنادی (ریسرچ اسکالر، فریدِ ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی نے گذشتہ دنوں ’’مولا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے باب میں‘‘ نہایت مدلل، مفصل اور احسن انداز میں امتِ مسلمہ کی گذشتہ تیرہ سو سالہ علمی تاریخ سے عقیدۂ اہلِ سنت کو روزِ روشن کی طرح عیاں فرما دیا۔ شیخ الاسلام نے مجددِ وقت اور عالم گیر و بے مثال مربی و مصلح ہونے کا حق ادا کیا۔ انہوں نے کسی کی تحقیر و تضحیک کیے بغیر صرف نفسِ مسئلہ کے بیان پر ارتکاز کیا جوکہ ہمیشہ سے ان کا وطیرہ بھی رہا ہے، نفسِ مسئلہ کی علمی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے اصلاح کی طرف توجہ دلائی اور بس! اس بے مثال علمی و محققانہ خطاب کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ موقف سے رجوع کرکے امت میں افتراق و انتشار کا یہ نیا باب ہمیشہ کے لیے بند کرتے ہوئے اپنی اصلاح پر توجہ دی جاتی اور حکمِ مصطفیٰ کریم پر عمل کرتے ہوئے غلامی اہلِ بیت کا قلادہ اپنے گلے میں مضبوطی سے پہن لیا جاتا۔ مگر افسوس صد افسوس کم علمی اور کوتاہ نظری کا یہ سلسلہ تھما نہیں بلکہ کچھ نادان دوستوں کی طرف سے اسے مزید طول دیا جانے لگا۔ شیخ الاسلام نے تو اپنا فرضِ منصبی ادا کر دیا ’’اب جس کے جی میں آئے پائے روشنی… اور بچائے اپنا ایمان‘‘۔

یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ شیخ الاسلام کی بات اور دلائل ہمیشہ اتنے مستند، منظم، مضبوط اور ثقہ ہوتے ہیں اور موقف اتنا واضح، صریح، دوٹوک اور اگر مگر کے بغیر ہوتا ہے کہ ان کا رد کرنا تو درکنار ان پر انگلی اٹھانے کی جسارت کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لیے جب مخالفین کا ایک موقف واضح طور پر رد ہوجائے تو وہ عوام میں غلط فہمی پیدا کرنے کے لیے اپنے موقف کو نئے الفاظ کا لبادہ پہنا کر سامنے آجاتے ہیں۔ اس لیے کہ حق برہانِ الٰہی ہوتا ہے اس کا کوئی توڑ نہیں ہوتا۔ شیخ الاسلام جب حق واضح کرنے کے لیے گفتگو فرماتے ہیں تو پھر وہ خود نہیں بولتے بلکہ برہانِ ربانی بول رہی ہوتی ہے۔ ان کی زبان سے فیضانِ مصطفیٰ، فیضانِ اہلِ بیت، فیضانِ صحابہ اور فیضانِ اولیاء اللہ بولتا ہے۔اس وقت منبرِ رسول پر غوث الثقلین اور حضور قدوۃ الأولياء کا روحانی بیٹا بول رہا ہوتا ہے۔ اسی لیے جب کبھی ان اعلیٰ ہستیوں میں سے کسی کے خلاف کچھ ہرزہ سرائی ہوتی ہے تو اس کا دندان شکن جواب شیخ الاسلام کی طرف سے ہی آتا ہے جیسے: شیخین کریمین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شان میں زبانِ طعن دراز کی گئی تو دفاعِ شانِ شیخین کے لیے شیخ الاسلام نے 48 گھنٹے کے مدلل جواب دے کر اس فتنہ رافضیت کا قلعہ قمع کر دیا۔ اسی طرح جب مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں کچھ نازیبا کلمات بیان کیے گیے تو اس کے رد میں 10 گھنٹوں سے زیادہ مسلسل دلائل مجددِ وقت کے سوا کسی نے نہیں دیے؟ جن کا رد آج تک کوئی مائی کا لال نہیں کر سکا۔ جب کہ اس پر بہت سے قلب سلیم رکھنے والے اور مسلک و شخصیات کے بتوں کی پوجا کرنے والے نہیں بلکہ حق کے متلاشی لوگوں نے بغیر تعصب کے ان خطابات و دلائل کو سننے کے بعد اپنے ان غلط عقائد سے تائب بھی ہوئے۔ یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ غلط فہمی دور کرنا ہے کہ شیخ الاسلام کے یہ محققانہ خطابات کسی خاص مسلک، خاص جماعت یا خاص لوگوں کے خلاف ہیں جب کہ درحقیقت ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہے بلکہ خرابی یا بگاڑ اپنوں میں ہو یا باہر جہاں بھی ہو وہ اپنا دینی و علمی فرضِ منصبی سمجھتے ہوئے اس کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور قرآن و سنت کی روشنی میں اس حوالے سے عوام الناس کو واضح رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

گذشتہ دنوں مولا علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے باب میں شیخ الاسلام نے اتنے صریح انداز میں عقیدۂ اہل سنت کو بیان کر دیا ہے کہ اس کے بعد کسی حیل و حجت کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس پر کچھ احباب نے اپنے پرانے مؤقف کو نئے الفاظ کا لباس پہنا کر غلط فہمیاں پیدا کرنا شروع کر دیں۔ وہ بے گناہ و بے خطا والا حصہ تو مان گئے لیکن اپنی انا سے چھٹکارا نہ پاسکے.

اس حوالے سے کہا جانے لگا کہ: ’’عقائدِ اہلسنت کی کتب میں اس بات کی تو دو ٹوک صراحت موجود ہے کہ مشاجراتِ صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سکوت کیا جائے گا۔ ان کتبِ عقائد میں اس بات کی بھی صراحت موجود ہے کہ مولائے کائنات علی مشکل کشا رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق پر تھے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خطا پر تھے۔ (اب آگے نیا موقف آگیا کہ) لیکن یہ عقیدہ تو اہلسنت کی کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل بیان کرنے سے سکوت کیا جائے گا۔ ائمۂ متقدمین ومتأخرین نے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں کتابیں لکھی ہیں۔‘‘ اس کے بعد ان گنتی کی چند کتابوں کے نام ذکر کر دیئے جاتے ہیں جن کا آج وجود بھی کم کم ملتا ہے۔ یا ان میں فضائل کم دیگر معاملات زیادہ پائے جاتے ہیں. مجھے بھی بہت سے احباب نے سوشل میڈیا پر وہ فہرست بھیجی۔ راقم نے ان کتابوں کو دیکھا اور چاہا کہ ہم مل کر اپنی ناقص استطاعت کے مطابق ان کتابوں کا علمی جائزہ لینے کی کوشش کریں اور ائمۂ متقدمین اہلِ سنت اور اسلاف امت کی خوشہ چینی کرتے ہوئے ان کی تعلیمات اور ساری زندگی کے طرزِ عمل سے رہنمائی لیتے ہوئے اس نئے موقف کا بھی جائزہ لیتے ہیں کہ ائمۂ کرام نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب کا بیان کیا ہے یا نہیں اور اگر کیا ہے تو کس انداز میں اور کس مقام پر اور ان کے ہاں اس ذکر کی کیا اہمیت ہے؟

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب کے بیان میں درج ذیل کتب کی فہرست مختلف لوگوں سے موصول ہوئی، ان کا فرداً فرداً علمی جائزہ لینے کی طالبعلمانہ کوشش کرتے ہیں، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ رب العزت ہمیں شرح صدر اور حق کی معرفت عطا فرمائے۔ آمین بجاہِ النبی الامین

*1.* ان میں سب سے اہم حوالہ *امام ترمذی کی السنن* کا ہے۔ السنن میں امام ترمذی نے ’کتاب المناقب‘ میں ’باب مناقب لمعاویۃ بن ابی سفیان‘ قائم کیا ہے، لہٰذا ان کے مناقب بیان کرنا چاہیئے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ امام ترمذی نے اس نام سے باب قائم کیا ہے، لیکن پہلے یہ دیکھیں کہ وہ یہ باب لائے کس مقام اور کس نمبر پر ہیں؟ بہت سے صحابہ کرام و قبائل عرب کا ذکر کرنے کے بعد یہ باب لائے. باب میں صرف ایک ہی متن کو 2 مختلف سندوں سے ذکر کیا ہے۔ دوسری اسناد کی عبارت سے پتا چلتا ہے کہ لوگوں نے حضرت امیر معاویہ کو گورنر بنانے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو وہاں حضرت عمیر نے لوگوں کو روکنے کے لئے وہ روایت بیان کی۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ روایت بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج سے بہت پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیان ہوئی۔ پھر *امام ترمذی نے خود ہی آگے عمرو بن واقد کو ضعیف بھی لکھ دیا ہے۔* اس کے علاوہ امام ترمذی نے اس باب میں مزید کوئی روایت بیان نہیں کی۔ جب کہ اس کے برعکس مولا علی، سیدہ کائنات جگرِ مصطفیٰ اور حسنین کریمین علیہم السلام کے مناقب پر امام ترمذی درجنوں صحیح روایات وارد کرتے ہیں.

*2.* دوسرا حوالہ *امام احمد بن حنبل کی کتاب ’فضائل الصحابہ‘* کا دیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس کتاب میں ’فضائل معاویۃ بن ابی سفیان‘ کے عنوان سے باب قائم کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل کی ’فضائل الصحابہ‘ میں بھی سنن الترمذی والا حال ہے کہ درجہ دیکھیں کس درجے میں جاکر ان کا باب قائم کیا گیا ہے؟ امام ترمذی کی طرح مولا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا باب تو بالکل شروع میں خلفائے راشدین کے ساتھ لائے ہیں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر فضائلِ انصار، حضرت خالد بن ولید، سعد بن معاذ، صہیب رومی، فضائل عرب، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم اسی طرح چلتے آئیں: حضرت عمار بن یاسر، فضائل اہل یمن ، فضائل بنی غفار و اسلم وغیرہ، شام کے مختلف قبیلوں کے فضائل یہاں تک کہ عمومی صحابہ کرام کے بھی بعد کہیں جا کر بالکل کتاب کے آخری دو ابواب سے پہلے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام سے باب قائم کیا ہے۔ اب اس باب میں بیان کی گئی روایت کا بھی جائزہ لے لیں کہ ایک ہی متن کی روایت تین مختلف اسناد سے ذکر کی گئی ہے، متن ایک ہی ہے۔ وہ دعا کیا ہے: اللهم علمه الكتاب والحساب وقه العذاب۔ (اے اللہ ان کو کتاب و حساب سکھا اور عذاب سے بچا) *کیا کسی اور صحابی کے لیے ’’عذاب سے بچا‘‘ کے الفاظ فضائل میں ذکر ہوئے؟* حدیث مبارکہ کے مضمون سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے *آقا کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کے علم مبارک میں تھا کہ ان سے ایسا کام ہوگا جس سے عذاب کے مستحق قرار پا سکتے ہیں، اسی لیے شرفِ صحابیت اور دیگر نسبتوں کی وجہ سے ان کے لئے عذاب سے محفوظ رہنے کی خاص دعا فرمائی۔* علاوہ ازیں فضائل الصحابہ کی روایات بھی ضعیف ہیں اور اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ اسی لیے امام احمد بن حنبل ان روایات کو اپنی حدیث کی کتاب “المسند” میں نہیں لائے ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے (فتح الباری، 7 : 104) میں امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے حضرت امیر معاویہ کے فضائل کے حوالے سے سوال کیا تو جواب میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔

*3.* تیسری کتاب حافظ ابو بکر بن ابی الدنیا متوفی 281ھ نے ’’حلم معاویہ رضی اللہ عنہ‘‘ کے نام سے لکھی۔ *امام ابن ابی الدنیا کی تالیف ’حلم معاویۃ‘* کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔ یہ کتاب نہیں چند صفحات پر مشتمل کتابچہ ہے، جو کہ دار البشائر نے طبع کیا ہے اور یہ بھی جان لیں اس کی اشاعتِ اول 2003ء میں ہوئی۔ اس سے پہلے یہ کتابچہ طبع ہی نہیں ہوا اس سے اس کی استنادی حیثیت کا اندازہ خود سے لگا لیں۔ یہ کتابچہ کل 36 صفحات اور 39 قصص پر مشتمل ہے۔ یہ 36 صفحات بھی 2 اجزا پر مشتمل ہیں۔ الجز الاول صفحہ 26 اور حدیث نمبر 23 تک ہے اور پہلی سطر میں ہی واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ یہ حصہ منقول نہیں سماعی ہے، یعنی اس کی نقل شدہ سند نہیں ہے۔ الجز الثانی صفحہ 27 تا صفحہ 36 تک ہے یہ حصہ منقول ہے۔

اگلی اہم بات یہ ہے کہ امام ابن ابی الدنیا نے اپنی اس تالیف میں اول تا آخر ایک روایت بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں مرفوع بیان نہیں کی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس کتابچہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل نہیں بلکہ ان کی زندگی اور دورِ ملوکیت کے واقعات اور لوگوں سے معاملات ذکر کیے گئے ہیں۔حضرت امام حسن علیہ السلام کے حوالے سے بحث مباحثے، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے تکرار اور اسے طرح عام صحابہ اور لوگوں سے تکرار یا مجادلے کے واقعات یا ان لوگوں کو اپنی ملوکیت سے ڈرانے کے واقعات ہیں یا پھر کسی نے خوش کرنے کے لیے امیر المؤمنین کہہ دیا تو سرکاری خزانے سے اسے نوازنے کے قصے ہیں مثلاً روایت نمبر:28 دیکھ لیں۔ اب یہ سب عوام الناس میں بیان کرنے کی چیزیں نہیں ہیں لیکن کچھ لوگوں کے غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل سے خواص کے مسائل عوام میں زیرِ بحث آگئے اور معاشرہ میں انتشار و فساد بپا ہوگیا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو باتیں آج تک اہل سنت کی عوام الناس کو نہیں معلوم تھیں اور وہ ان باتوں کو اہل تشیع یا رافضیوں کی اختراعات و بہتان سمجھتے تھے۔ آپ کے شرفِ صحابیت کا پردہ پڑا ہوا تھا ایک لحاظ و مروت باقی تھے وہ بھی ختم ہوگئے۔ *ابن ابی الدنیا کی کتاب ’حلم معاویۃ‘ کے بالکل شروع میں ہی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: کان عمر بن خطاب إذا رأی معاوية قال: ھذا کسری العرب۔ (ابن ابی الدنیا، حلم معاویہ،ص:20،رقم:3)* اب ان کے ادب کی وجہ سے میں تو ترجمہ کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ یہ زحمت فضائل بیان کرنے والے خود کرلیں۔ الغرض اس طرح کے اور کئی واقعات بلکہ اس کتاب کی اکثر روایات اسی طرح کی ہیں، مثال کے لیے صرف یہ ایک عرض کر دی ہے، یہاں عوام الناس میں بیان کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔

*4.* کہا گیا کہ امام محدث ابو عمر محمد بن عبد الواحد غلام ثعلب متوفی 345ھ اور شیخ القراء ابو بکر النقاش البغدادی متوفی 351ھ نے فضائل معاویہ رضی اللہ عنہ پر کتابیں لکھیں۔ اب ان کتابوں کے نام تک خود بیان کرنے والوں کو بھی معلوم نہیں ہیں۔

*5.* اسی طرح کہا گیا کہ ابو القاسم السقطی متوفی 406ھ نے فضائل معاویہ رضی اللہ عنہ پر ایک جزء لکھا۔ یہ جز بھی مفقود الحال ہے ۔

*6.* کہا گیا کہ متاخرین میں اہل سنت کے متفقہ امام یعنی امام اہل سنت اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ نے پانچ کتب لکھیں: البشرى العاجلة من تحف أجله… الأحاديث الراوية لمدح الأمير معاوية …. عرش الإعزاز والإكرام لأول ملوك الإسلام. ذب الأهواء الواهية في باب الأمير معاوية.. رفع العروش الخاوية من أدب الأمير معاوية..عرض ہے کہ بسیار تلاش کے جب مجھے امامِ اہلِ سنت کی ان کتابوں کا کہیں وجود نہ ملا تو میں نے یہ فہرست بھیجنے والے ساتھی سے گذارش کی کہ آپ ہی یہ کتابیں مجھے عنایت فرما دیں۔ لیکن ان کے پاس بھی فی الحال معذرت کے سوا کچھ دستیاب نہ ہو سکا۔ الغرض متقدمین میں سے یہ گنتی کے چند نام ہیں، یا چلیں ہم اپنی کم علمی اور جہالت کا اعتراف کرتے ہوئے اس فہرست میں پندرہ بھی نہیں، تیس مزید کتابوں کا اعتراف کر لیتے ہیں جو ممکن ہے ہمیں دستیاب نہیں ہوسکیں ۔ پھر بھی وہ کتابیں آج کیوں ناپید ہیں؟ اور جن ائمہ نے شرفِ صحابیت کے حیا میں اپنی کتابوں کے آخر میں جتنا اور جیسے ذکر کیا وہ بھی میں عرض کر چکا ہوں۔

*حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان کرنے سے منع نہیں کیا گیا کے مؤقف کا جائزہ:*

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل متاخرین میں سے امامِ اہلِ سنت احمد رضا بریلوی کی طرف منسوب چند کتب کے ناموں کے سوا ائمہ سے کچھ دستیاب نہیں۔ ان کے بعد ان سے نیچے کسی نے بیان بھی کیے تو ظاہر ہے کہ علمی دنیا میں وہ استنادی حیثیت نہیں رکھتے جو ائمہ کبار کی حیثیت ہے۔ جو فضائل ذخیرۂ کتب میں منقول تھے وہ ائمہ نے بیان کر دیئے اور جو ہیں ہی نہیں وہ خود سے گھڑ کر بیان کرنے سے رہے۔ جیسا کہ ائمہ اسماء الرجال نے بیان کیا کہ امام نسائی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خصائص پر کتاب لکھی۔ پھر انہوں نے ’فضائل الصحابہ‘ پر کتاب لکھی تو کسی نے ان سے کہا گیا کہ اس کتاب میں آپ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان نہیں کئے؟ امام نسائی نے فرمایا: أي شئ اخرج، حديث: اللهم لا تشبع بطنه؟ فسكت السائل. (تذكرة الحفاظ للذهبي، 2: 699) (سير أعلام النبلاء للذهبي، 14: 129) (تاريخ الإسلام لذهبي، 23: 107 (تهذيب التهذيب لابن حجر، 1: 33)

اسی طرح امام اسحاق بن راہویہ سے مروی ہے: لم يصح في فضائل معاوية شئ! (فتح الباری، 7: 104). حافظ ابن حجر عسقلانی خود فرماتے ہیں: قد ورد في فضائل معاوية أحاديث كثيرة لكن ليس فيها ما يصح من طريق الاسناد وبذلك جزم إسحاق بن راهويه والنسائي وغيرهما. (فتح الباری، 7: 104)، ان عبارتوں کے تراجم اس لیے نہیں بیان کئے جا رہے کہ یہ چیزیں عوام الناس کے لئے نہیں ہیں، اگر ان کے تراجم شائع کر دیئے جائیں تو عوام حدِ ادب سے باہر نکل کر اپنے طریقے سے برتاؤ کرتے ہیں اور مخالفین کو بھی مواقع میسر آتے ہیں. ان کے علاوہ اور بھی بہت سے ائمہ کرام سے ایسے اقوال مروی ہیں کیوں کہ یہاں مقصود صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ عقیدۂ اہلِ سنت میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص بیان کرنے سے کف لسان کا حکم ہے، اس سے باز نہ آنے والا رافضی ہے۔ جب کہ اہلِ سنت کی تیرہ سو سالہ علمی تاریخ میں فضائل، نعرے اور عظمت کے جھنڈے صرف اہلِ بیتِ اطہار کے ہی بیان ہوتے آئے ہیں۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ خود کو شیخ ابن تیمیہ کے فکری جانشین سمجھتے ہیں ان احباب کے لیے بھی آخری حوالہ شیخ ابن تیمیہ کا پیش کر دیتا ہوں۔ شیخ ابن تیمیہ اپنی کتاب منهاج السنة النبوية (4: 400) میں بیان کرتے ہیں: طائفة وضعوا لمعاوية فضائل ورووا أحاديث عن النبي في ذلك كلها كذب.

لہذا ان تمام امور سے صریحاً پتہ چلتا ہے کہ امت مسلمہ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مذمت و تنقیص بیان کرنے سے کف لسان کا حکم ہے اور ان کے فضائل بیان کرنے والے مؤقف کو آج تک کبھی بھی پذیرائی ملنا تو درکنار قابل اعتناء بھی نہیں سمجھا گیا۔ اسی وجہ سے اسلاف کی پوری علمی تاریخ میں یہ گنتی کی سات سطور کے فضائل کے سوا کچھ نہیں ملتا اور وہ بھی اب ناپید ہیں اور امت مسلمہ کے اجتماعی مؤقف کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیر متداول ہی نہیں غیر معروف ہیں۔ امت مسلمہ کا اجتماعی طور پر یہی موقف رہا ہے جو شیخ الاسلام نے صریحا بیان فرما دیا: *’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ آخری دور میں اسلام قبول کرنے والے صحابی ہیں اور اس شرف صحابیت کے باعث جو ان کے بارے میں بدگوئی اور لعن و طعن کرتا ہے وہ رافضی ہے اور ان کے قصیدے بیان کرنے والا خارجی ہے۔‘‘* واضح رہے کہ اہلِ سنت کا موقف اعتدال اور میانہ روی پر مشتمل ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے شرف صحابیت اور اس فضیلت پر ایمان رکھا جائے، ان سے جو خطائیں ہوئیں اس وجہ سے ان پر لعن و طعن سے زبان بند رکھی جائے اور ان کے فضائل کا چرچا امت مسلمہ کی تاریخ میں نہ تو کبھی کیا گیا ہے اور نہ ہی ایسے مؤقف کو کبھی بھی کسی بھی دور میں پذیرائی ملی ہے۔ بایں وجہ ائمہ دین نے کثرت سے ان کے فضائل بیان کیے نہ ہی ان کے لیے نعرے اور جھنڈے بلند کیے، اس لیے کہ یہ عقیدۂ اہلِ سنت کے صریحاً خلاف عمل ہے۔

*فضائلِ اہلِ بیت پر لکھی جانے والی کتب:*

اس کے برعکس فضائل مولا علی کرم اللہ وجہہ و اہل بیت علیہم السلام کے فضائل و مناقب میں لکھی گئی کتب دیکھنا چاہیں تو اس طرح کھنگالنے کی اور بال کی کھال اتارنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، بلکہ ہر ہر سطر، ہر ہر لفظ، ہر ہر حرف، ہر ہر نقطہ، زبر، زیر اور پیش خود بڑھ کر پہلے اسلام لانے والے، نفسِ مصطفى، دامادِ مصطفی، فاتحِ خیبر، برادرِ مصطفی، نوجوانانِ جنت کے سرداروں کے بابا، جنت کی عورتوں کی سردار، سیده کائنات، خاتونِ جنت کے شوہر نامدار، چادرِ تطہیر میں داخل کیے جانے والے علی كی شان میں: *من کنت مولاہ فھذا علي مولاہ* کے قصیدے پڑھتے نظر آئیں گے۔ قرآن مجید سے شروع کریں اور موجودہ لمحے تک آجائیں، اس وقت اور اس لمحہ بھی کوئی غلام ان کی شان لکھ رہا ہے، کوئی پڑھ رہا ہ اور کوئی بیان کر رہا ہے. انسان جن کے ٹکڑوں پر پلتا ہے انہی کے قصیدے بھی گاتا ہے. جہاں تک خدا کی خدائی ہے، مصطفیٰ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی رسالت ہے، وہاں تک علی کی ولایت ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنی کتاب ’’قرابۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں تفصیل سے ان آیات کو بیان کر دیا ہے جو مولا علی علیہ السلام اور اہل بیتِ اطہار کی شان میں بیان ہوئی ہیں۔

قرآن حکیم کے بعد اہلِ سنت کے نزدیک سب سے مستند کتاب ’صحیح البخاری‘ ہے، جس میں امام بخاری ’کتاب فضائل أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ میں بالکل شروع میں خلفاءِ راشدین کے ساتھ ’باب مناقب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ‘ قائم کرتے ہیں اور اس میں فضائل علی رضی اللہ عنہ پر ایک دو نہیں، آٹھ آٹھ، دس دس مرفوع روایات بیان کرتے ہیں۔

اسی طرح امام مسلم نے اپنی ’صحیح مسلم‘ میں ’’کتاب فضائل الصحابۃ‘‘ میں امام بخاری کی طرح بالکل شروع میں خلفاءِ راشدین کے ساتھ ’’باب فضائل علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ‘‘ قائم کیا اور اس میں ایک دو نہیں 13، 14 مرفوع روایات شانِ علی علیہ السلام میں بیان کیں۔ جب کہ امام مسلم نے بھی فضائل سلمان و صہیب و بلال حبشی، فضائل اہل بدر، فضائل أصحاب الشجرہ، عرب کے قبائل کے فضائل یہاں تک کہ نساء قریش تک کے فضائل باب قائم کرکے بیان کیے ہیں لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل پر کوئی باب قائم نہیں کیا۔ بلکہ امام مسلم نے تو وہ بھی بیان کر دیا جو اوروں نے نہیں کیا کہ کس طرح ممبروں پر لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معاذاللہ سب و شتم کیا جائے. اسی طرح صحاح ستہ کی تمام کتابوں میں مناقب علی رضی اللہ عنہ بیان ہوئے۔ راقم نے خاص اہل بیت اور مولا علی علیہ السلام کی فضیلت پر لکھی گئیں صرف عربی کتابوں کی فہرست تیار کرنے کی کوشش کی تو بنا کسی خاص جدوجہد کے 800 سے زیادہ کتابوں کی فہرست تیار ہوگئی ۔ اگر ان کتابوں اور ان کے مصنفین و مؤلفین کے صرف نام اور مختصر تعارف ہی ذکر کیا جائے تو یہ بلامبالغہ 800 صفحات پر مشتمل ضخیم انڈیکس تیار ہوجائے۔ یہ بھی واضح رہے کہ اس فہرست میں وہ کتابیں شامل نہیں ہیں جن میں ضمناً مولا علی علیہ السلام کا ذکر ہوا ہو۔ اس فہرست میں اردو اور دیگر زبانوں میں لکھی گئیں کتابیں بھی شامل نہیں ہیں۔ جب کہ میرا یہ دعویٰ بھی نہیں ہے کہ میں نے اس فہرست میں عربی زبان میں مناقبِ اہلِ بیت میں لکھی گئی تمام کتابوں کا احاطہ کیا ہے۔

*خلاصۂ بحث:*

ہمیں غیرمتعصب ہو کر تفکر کرنا چاہیئے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جن فضائل پر مشتمل کتابوں کا سات سطور میں ذکر ختم ہوجائے ان کو تو بطور دلیل اختیار کر لیا جائے اور جو فضائل، مناقب اور خصائص شمار میں ہی نہ ہوں جن کا ذکر خود خدا، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بشمول حضرت معاویہ بیان کرتے ہوں ان سے بے اعتنائی برتی جائے؟ کہاں وہ پاک ہستیاں کہ جن کی فضیلت اور شان میں قرآن نازل ہوتا ہو اور کہاں وہ لوگ کہ جن کے فضائل تلاش کرنے کے لیے تیرہ سو سالہ علمی ذخیرے میں سے ضعیف یا موضوع روایات کے سوا کچھ دستیاب نہ ہو؟ کہاں اہلِ کساء اور کہاں اہلِ طلقاء؟ کہاں بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت علی ابن ابی طالب، شعبِ ابی طالب میں رات کو آقا سے بستر تبدیل کر لینے والے اور ہجرت کی رات بستر موت پر بلا جھجھک لیٹ جانے والے علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہما اور کہاں فتح مکہ کے بعد دور فتوحات میں ایمان لانے والے والے لوگ (یہ بھی یاد رہے 8 ہجری میں فتح مکہ ہوا اور 11 ہجری میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا تھا) کسی حوالے سے بھی ان کا کوئی جوڑ اور مقابلہ نہیں بنتا!

*صد افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں صرف اتنی بات سمجھ نہیں آ رہی کہ ان غیر معروف، غیر مطبوعہ کتب اور ضعیف یا موضوع روایات کی بنیاد پر آپ اس سے کیا فائدہ لینا چاہتے ہیں؟ آخر آپ کے ذہن میں اتنے بڑے کام کی کوئی توجیہ، کوئی حکمت، کوئی وجہ تو آخر ہوگی، جس کے اثرات امت میں اور بالخصوص پاکستان میں اتنے بڑے انتشار کی صورت میں نکل رہے، یہ ملک پہلے ہی انتہائی نامساعد حالات اور اندرونی و بیرونی دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہے۔ گزارش ہے کہ وہ حکمت ہی ہمارے گوش گزار کر دیں جس کی بنیاد پر اس نئے کام کا بیڑا اٹھایا گیا ہے۔*

ہماری تربیت میں حسنِ اخلاق اور حسنِ ظن کا دامن ہر حال میں تھامے رکھنا شامل ہے، ہم آپ کے بارے میں بھی حسنِ ظن رکھتے ہیں کہ بلاشبہ آپ لوگ بھی اسی طرح سے حب اہل بیت رکھنے والے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ نیک نیتی کے ساتھ یہ کام کر رہے ہوں، لیکن غور کرنا چاہیئے کہ ملک و قوم کے لیے اس کام کے فوائد زیادہ ہیں یا نقصانات؟ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں سورۃ البقرہ، آیت نمبر 219 اور 220 میں اصول سمجھایا۔ فرمایا: يَسۡ‍َٔلُونَكَ عَنِ ٱلۡخَمۡرِ وَٱلۡمَيۡسِرِۖ قُلۡ فِيهِمَآ إِثۡمٞ كَبِيرٞ وَمَنَٰفِعُ لِلنَّاسِ وَإِثۡمُهُمَآ أَكۡبَرُ مِن نَّفۡعِهِمَاۗ وَيَسۡ‍َٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَۖ قُلِ ٱلۡعَفۡوَۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمُ ٱلۡأٓيَٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَتَفَكَّرُونَ٢١٩ فِي ٱلدُّنۡيَا وَٱلۡأٓخِرَةِۗ۔ ’’آپ سے شراب اور جوئے کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ (دنیوی) فائدے بھی ہیں مگر ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے، اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں: جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)، اسی طرح اللہ تمہارے لیے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو o (تمہارا غور و فکر) دنیا اور آخرت (دونوں کے معاملات) میں (رہے)۔‘‘ اس آیت کریمہ میں یہ اصول سکھایا گیا کہ دینی معاملات میں بالخصوص اور دنیاوی معاملات میں بھی کوئی کام کرنے سے پہلے اس کے نفع اور نقصانات دونوں کا آپ اندازہ لگالیں تاکہ بعد میں پریشانی نہ ہو۔

اسی طرح امام احمد بن حنبل، امام ترمذی اور دیگر بعض ائمہ نے اگر بقول آپ کے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان کیے بھی ہیں تو ان سے پہلے بہت سے دیگر جلیل القدر صحابہ کرام علیہم الرضوان کےفضائل و مناقب بیان فرمائے ہیں۔ اگر آپ پہلے ان سب کے نہ سہی بعض بزرگ صحابہ کرام کے عرس ہی منا لیتے ان کے لیے نعرے اور جھنڈے بلند کر لیتے پھر یہ کام کرتے تو شاید خلقِ خدا میں اتنا اضطراب بھی پیدا نہ ہوتا اور آپ کے پاس بھی ٹھوس جواز ہوتا لیکن اتنے جلیل القدر صحابہ کرام کو چھوڑ کر براہِ راست آخری درجے کے صحابی، جن کا زمانہ صحابیت بھی بہت کم عرصے پر محیط ہے اور جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد اپنے چند افعال کی وجہ سے امت میں انتہائی متنازعہ تصور کیے جاتے ہیں، اتنی شان و شوکت کے ساتھ ان کا عرس منانا اور اس پر اچانک اتنا اصرار چہ معنی دارد؟ چلیں اب ایسا کر لیں کہ سارے نہ سہی 1400 صحابہ کرام علیہم الرضوان کا نہ سہی 40، 50 معروف اور کبار صحابہ کا عرس ہی منالیں تاکہ یہ گلہ شکوہ بھی ختم ہو جائے. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق کہنے، لکھنے، پڑھنے اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین.أحقر حافظ ظہیر احمد الاسنادی (ریسرچ اسکالر، فریدِ ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ)

—-+++++——++++——+++++——++++++——

Part 2

 

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر لکھی گئی کتب کے حوالے سے چند مزید علمی گذارشات
تحریر: حافظ ظہیر احمد الاسنادی
خاکسار نے گذشتہ تحریر میں بتوفیقِ الہٰی اعتدال و توازن اور ادب و احترام کے تمام تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے صرف علمی طور پر نفسِ مسئلہ کے بیان پر اور کسی پر طنز و تشنیع کے نشتر چلائے بغیر انتہائی دقیق مسئلہ کو اپنی کوشش کے مطابق آسان تر انداز میں پیش کرنے کی ادنی سی کوشش کی ہے۔ اس لیے کہ اب اگر عوام الناس میں یہ مسئلہ آہی گیا ہے، تو وہ اس کے بنیادی امور سے صحیح معنی میں آگاہی حاصل کر سکیں اور عقیدۂ اہلِ سنت کی صحیح معرفت حاصل کرکے اپنے ایمان کی حفاظت کر سکیں۔ اس کے علاوہ جتنا ممکن ہو سکا اختصار بھی پیشِ نظر رہا لیکن کچھ امور پر مزید تسلی اور وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس لیے کچھ مزید گذارشات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
جیسے کہ گذشتہ مقالے میں بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات کے حوالے سے اہلِ سنت والجماعت کا موقف بار بار بیان ہوا لیکن یہاں ایک بار پھر بیان کر دینا ضروری ہے تاکہ بات سمجھنے سمجھانے میں آسانی رہے: 1۔ جان لیں ہم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو صحابی رسول تسلیم کرتے ہیں۔ ہمیں ان کی سیاسی اور انتظامی حوالے سے صلاحیتوں اور خصوصیات کا بھی انکار نہیں ہے (یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے ان صلاحیتوں کا مثبت استعمال کم کیا)۔ 2۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ مولا علی علیہ السلام حق پر تھے، آپ کی خلافت حق اور خلافتِ راشدہ تھی ۔ آپ کے خلاف حضرت معاویہ کا جنگ کرنا خروج اور بغاوت تھی جس کی وجہ سے بہت سے صحابہ کرام علیہم الرضوان شہید کیے گئے۔ 3۔ جناب امیر معاویہ کی حکومت حضرت امام حسن کی دستبرداری کے باوجود ملوکیت، ناانصافی اور ظلم پر مبنی تھی۔ 4۔ شرفِ صحابیت کی وجہ سے حضرت امیر معاویہ پر لعن، طعن نہیں کیا جائے گا بلکہ سکوت اختیار کیا جائے گا۔ آپ پر کھلے عام سب و شتم کرنے والا رافضی کہلائے گا۔ 5۔صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ذکر کے ساتھ بطور صحابی یا عمومی انداز میں حضرت امیر معاویہ کا تذکرہ کرنا جائز ہے۔ لیکن مولا علی رضی اللہ عنہ کے برابر ان کے فضائل بیان کرنا، ان کو مثالی شخصیت بنا کر پیش کرنا، ان کے عرس منانے کی بات کرنا، ان کے فیض کے چشمے جاری کرنا، ان کے نام پر مساجد بنانا، جھنڈے اٹھا کر جلسے جلوس نکالنا، بے گناہ و بے خطا کے نعرے لگا کر نوجوان نسل کو کنفیوز کرنا ظلمِ عظیم، مولا علی علیہ السلام کی مخالفت اور خارجیت ہے۔ ایسا عمل امت مسلمہ کی پوری تاریخ میں کبھی نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ایسے موقف کو کبھی کسی دور میں پذیرائی ملی ہے۔ ایسا کرنا عقیدۂ اہلِ سنت والجماعت کے صریحاً خلاف ہے۔..
کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں:’’یہ عقیدہ ،اہلِ سنت کی کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان کرنے سے سکوت کیا جائے۔ ائمۂ متقدمین ومتأخرین نے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں کتابیں لکھیں اور کتبِ حدیث میں ابواب قائم کیے ہیں۔ پھر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے اس قول کا کیا مطلب ہوا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے قصیدے بیان کرنے والا خارجی ہے؟ کیا یہ سب ائمہ و محدثین معاذ اللہ خارجی ہوکر اہلِ سنت سے نکل گئے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر سکوت سے کیا مراد ہے؟ یا شیخ الاسلام کے اس قول کا کیا مطلب ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان کرنے والا خارجی ہے۔‘‘
فضائل، مناقب اور خصائص کے بیان میں اور فقط ذکر یا تذکرہ کرنے میں فرق:
واضح رہے کہ کتاب میں صرف کسی کا نام آجانا یا کسی کے حالات زندگی بیان کر دینا فضائل نہیں کہلاتے بلکہ یہ صرف ذکر کرنا کہلاتا ہے، اسے تذکرہ بھی کہتے ہیں، فضائل و مناقب ایک خاص اصطلاح ہے۔ اس میں کسی کی ایسی انفرادی خوبی یا فضیلت بیان کی جاتی ہے، جو اس کی پہچان بن جاتی ہے. دوسرے لوگ بھی اس خوبی کو دیکھ سن کر رشک کرتے ہیں۔ لیکن عمومی طور پر اگر کہیں کسی کا ذکر آجائے تو لوگ اسے فضائل کا بیان سمجھ لیتے ہیں۔ اسی طرح کسی شخص کے نام سے صرف باب قائم کر دینے کو فضائل کا بیان نہیں کہتے۔ اس کے علاوہ حدیث یا کسی تاریخ کی کتاب یا کسی اور کتاب میں کسی کا تذکرہ کر دینا یا اس کے حالاتِ زندگی بیان کر دینا کیا یہ اس کے فضائل بیان کرنا ہوتا ہے یا اس شخص کے احوالِ زندگی اور حالات و واقعات کو لوگوں تک پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔ تاکہ بعد میں آنے والے یہ سب بھول نہ جائیں اور کچھ لوگ ایسے الفاظ اور نعروں کے ساتھ تاریخ کو مسخ نہ کرسکیں کہ کون حق پر تھا اور کون خطا پر؟ کون بے گناہ تھا اور کون باغی؟ اگر صرف کتابوں میں تذکرہ آجانا ہی فضائل و مناقب کا بیان ہے تو پھر اٹھائیں حدیث کی کتابیں، سیرت کی کتابیں اور تاریخ کی تمام کتابیں اور دیکھیں، کیا ان میں ابو جہل و ابو لہب ، کفار، منافقین اور یہود کا ذکر نہیں ملتا ؟ کیا ان میں مسیلمہ کذاب ، حجاج بن یوسف اور یزید پلید جیسے لوگوں کے تذکروں کی بھرمار نہیں ملتی؟ کیا ان کے ناموں سے ابواب قائم نہیں ہیں۔ ان کے سیاہ کارناموں سے جلدیں بھری پڑی ہیں۔ اب کیا کہیں گے کہ ائمہ، محدثین اور مؤرخین نے معاذ اللہ ان کے فضائل بھی بیان کیے ہیں اور سکوت نہیں کیا ہے؟ العیاذ باللہ۔
محدث، مؤرخ، مجتہد اور فقیہ سب کا اپنا اپنا دائرۂ کار ہوتا ہے۔ وہ اسی میں رہ کر اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی، جس تک جو پہنچا اس نے اس کے حکم کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ صرف اس بات کو ثابت کرنا کہ کس کس نے ان کا ذکر کیا، تو اس حوالے سے تو لاتعداد کتابوں کے نام گنوائے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ کہنا کہ ان سب لوگوں نے جناب معاویہ کے فضائل بیان کیے ہیں یہ ان لوگوں سے فقط دھوکہ دہی ہے۔ جن کی ان کتابوں تک رسائی نہیں ہے. اب ان کے اس ذکر کو یا کسی امام کے صرف ان کے نام سے باب قائم کر دینے کو فضائل سمجھ لیا جائے تو صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہی سےاس بات کو سمجھنے کے لیے چند مثالوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
امام بخاری نے صحیح بخاری (6/ 2606)، کتاب الفتن، میں ایک باب قائم کیا ہے: باب ذکر الدجال. اب اس سے کیا مراد لیا جائے گا کہ معاذ اللہ دجال کے فضائل بیان ہوئے ہیں؟ دوسری مثال: امام مسلم نےصحیح مسلم (2/ 740)، کتاب الزکاۃ میں باب قائم کیا ہے: باب ذکر الخوارج وصفاتهم. اسی طرح امام مسلم نےصحیح مسلم (4/ 2247)، کتاب الفتن میں باب قائم کیا: باب ذکر الدجال وصفته وما معه۔ اسی طرح امام مسلم نے کتاب الفتن وأشراط الساعہ میں باب قائم کیا: باب في صفة الدجال وتحريم المدينة عليه وقتله المؤمن وإحيائه ( 4/ 2256 ) دجال کے حوالے سے ایک نہیں کئی ابواب قائم کیے ہیں. مختصر یہ کہ صرف باب قائم کر دینا ہی اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ اس شے کے فضائل بیان ہوئے ہیں بلکہ معاملہ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے. پھر اس عنوان کے ساتھ ساتھ اس باب کے تحت لائی گئی احادیث کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔
فضائل، مناقب اور خصائص کسے کہتے ہیں:
فضائل و مناقب اور خصائص کسی کی ذات میں وہ خوبیاں اور تفردات ہوتے ہیں، جو اسے دوسروں پر اس حوالے سے خاص برتری اور فضیلت دیتے ہیں۔ جیسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی محبوبِ خدا نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ ہیں۔ اب یہ فضائل کبھی باب کے عنوان سے ہی فوراً معلوم ہوجاتے ہیں، جیسے: امام بخاری اپنی الصحیح ’ کتاب فضائل الصحابہ‘ میں باب قائم کرتے ہیں: باب مناقب فاطمة عليها السلام وقال النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: فاطمة سيدة نساء أهل الجنة، (3/ 1374)۔ پڑھتے ہی فوراً پتا چل جاتا ہے کہ یہاں فضائل بیان ہو رہے ہیں۔ اسی طرح اس کے فوراً بعد امام بخاری باب قائم کرتے ہیں: باب فضل عائشة رضي الله عنها،(3/1374)۔ یہاں بھی فوراً معلوم ہوجاتا ہے کہ فضائل بیان ہو رہے ہیں۔ امام مسلم اپنی الصحیح میں ’کتاب الإیمان‘ میں باب قائم کرتے ہیں: باب الدليل على أن حب الأنصار وعلي رضي الله عنه من الإيمان وعلاماته وبغضهم من علامات النفاق، ( 1/ 85)۔ یہ عنوان کوئی بھی سنے گا تو فوراً سمجھ جائے گا کہ فضائل بیان ہو رہے ہیں کہ انصار اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ایمان کی علامت اور ان سے بغض نفاق کی علامات میں سے ہے. کیوں کہ عنوان خود اتنا صریح اور واضح ہے۔ اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنی زبان اقدس سے کسی کی خاص فضیلت بیان فرماتے ہیں،
جیسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایا ہے: إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي مَالِهِ وَصُحْبَتِهِ أَبُو بَكْرٍ. (صحيح البخاری، فضائل أصحاب النبي، باب من فضائل أبي بکر، (3/1337، الرقم:3454)، مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل أبي بکر g، (4/1854، الرقم: 2382) ’’تمام لوگوں میں سے سب سے زياده مجھ پر ابوبکر کا احسان ہے، مال کا بھی اور ہم نشینی کا بھی۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایا ہے: لَوْ کَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔ (سنن الترمذی، کتاب المناقب، باب في مناقب عمر بن الخطاب، (5/619، الرقم: 3686)، أحمد بن حنبل في المسند، (4/154) ’’ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایا ہے:
أَلَا أَسْتَحْیِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْیِي مِنْہُ الْمَلَائِکَة. (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل عثمان بن عفان، (4/1866، الرقم: 2401)’’میں اس شخص سے کیسے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔‘‘
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے فرمایا ہے:
عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ؟ فَقَالَ: أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلَاثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَنْ أَسُبَّهُ، لَأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، يَقُوْلُ لَهُ خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيْهِ. فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: أَمَا تَرْضَى، أَنْ تَكُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُّوْسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي. وَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ يَوْمَ خَيْبَرَ: لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ، وَيُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُوْلُهُ، قَالَ: فَتَطَاوَلْنَا لَهَا، فَقَالَ: ادْعُوْا لِي عَلِيًّا، فَأُتِيَ بِهِ أَرْمَدَ، فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ، وَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ. فَفَتَحَ اللهُ عَلَيْهِ. وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: ﴿فَقُلۡ تَعَالَوۡاْ نَدۡعُ أَبۡنَآءَنَا وَأَبۡنَآءَكُمۡ﴾ [آل عمران، ٣/٦١]، دَعَا رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا، فَقَالَ: اَللَّهُمَّ، هَؤُلَآءِ أَهْلِي.(مسلم، الصحيح، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب، (4/1871، الرقم/2404، سنن الترمذی، كتاب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، (5/638، الرقم/3724)
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت معاويه بن ابی سفيان نے حضرت سعد کو امیر بنایا تو ان سے دریافت کیا کہ تمہیں ابو تراب کو برا کہنے سے کس چیز نے روکا؟ حضرت سعد نے کہا: مجھے وہ تین باتیں یاد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کے متعلق فرمائی تھیں. اس لیے میں ان کو کبھی برا نہیں کہہ سکتا، اگر ان تین باتوں میں سے ایک بات بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے لیے فرمائی ہوتی تو وہ مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہوتی۔ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض غزوات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے (مدینہ منورہ میں) چھوڑ دیا، تو حضرت علی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے؟ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ پھر غزوہ خیبر کے دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا کہ کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا، جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں، سو ہم سب (ساری رات) اس سعادت کے حصول کے انتظار میں رہے (کہ صبح معلوم نہیں کس خوش نصیب کو یہ سعادت حاصل ہوتی ہے، صبح)، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی کو میرے پاس لاؤ، حضرت علی کو لایا گیا، اس وقت وہ آشوبِ چشم میں مبتلا تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور انہیں جھنڈا عطا کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر خیبر فتح کر دیا۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی: (آپ فرما دیں کہ آجاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں)۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیہم السلام کو بلایا اور کہا: اے اللہ! یہ میرے اَہلِ بیت ہیں۔‘‘
ان سب روایات کو پڑھنے کے بعد کسی وضاحت کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ فضائل و مناقب کے بیان میں اور عام تذکرے میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل کے نام پر بیان کی جانے والی مزید اہم کتب کا علمی جائزہ:
فضائل و مناقب اور تذکرے کا فرق جان لینے کے بعد، اب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل کے حوالے سے بیان کی جانے والی کتب میں سے بعض اہم کتب جن کا ہم علمی اعتبار سے جائزہ نہیں لے سکے۔ آئیے ان میں سب سے اعلیٰ درجے کی چند کتب کےابواب اور احادیث کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد باقی نیچے درجے کی کتب کا آپ کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا۔
1۔ سب سے پہلےصحیح البخاری کے باب اور اس کے تحت لائی گئی احادیث کا جائزہ لے لیتے ہیں، جو اہلِ سنت کے نزدیک قرآن حکیم کے بعد سب سے مستند کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کا بہت چرچا کیا جاتا ہے اور لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں کہ امام بخاری نے اپنی ’الصحیح‘ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل پر باب قائم کیا ہے تو کیا امام بخاری معاذ اللہ خارجی ہو گئے ہیں؟ عربی یا اردو کو ئی بھی صحیح بخاری کھول لیں اس میں کتاب فضائل الصحابہ نکال لیں۔ اس میں امام بخاری نے جن جن صحابہ کے بھی فضائل بیان کیے ہیں، ان کے لیے دو الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ایک لفظ ’فضائل‘ ہے اور دوسرا لفظ ’مناقب‘ ہے جو کہ منقبة کی جمع ہے، جس کے معنی فضیلت اور بزرگی کے ہیں۔ انہوں نے تیسرا لفظ ’ذکر‘ کا استعمال کیا ہے۔ اب ابواب کے نام پڑھتے چلیں آئیں: باب فضائل أصحاب النبي رضي الله عنهم، باب مناقب المهاجرين وفضلهم منهم أبو بكر، باب فضل أبي بكر بعد النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص القرشي العدوي رضي الله عنه، باب مناقب عثمان بن عفان أبي عمرو القرشي رضي الله عنه وقال النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: من يحفر بئر رومة فله الجنة فحفرها عثمان، وقال من جهز جيش العسرة فله الجنة فجهزه عثمان، باب مناقب علي بن أبي طالب القرشي الهاشمي أبي الحسن رضي الله عنه وقال النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لعلي: أنت مني وأنا منك وقال عمر: توفي رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وهو عنه راض، باب مناقب جعفر بن أبي طالب الهاشمي رضي الله عنه وقال النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: أشبهت خلقي وخلقي، باب مناقب الحسن والحسين رضي الله عنهما قال نافع بن جبير عن أبي هريرة عانق النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الحسن.
ان أبواب کا اردو ترجمہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے ویسے ہی واضح ہے کہ امام بخاری تمام القابات کے ساتھ صحابہ کرام علیہم الرضوان کا باب کے عنوان میں ہی ذکر کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ان کی نہایت خاص خوبی کو بھی باب کے عنوان میں بیان کر رہے ہیں، پھر ذیل میں روایات بھی لاتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مکمل القابات اور فضائل کے ساتھ ذکر ہے، پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی سخاوت کا واقعہ اور ان کے لیے جنت کی بشارت کا بیان ترجمۃ الباب میں کیا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمانِ رسول کے ساتھ ساتھ حضرت عمر کی زبان سے ان کی شان میں ترجمۃ الباب میں قول لا رہے ہیں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خَلق و خُلق میں مشابہت کے ساتھ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے۔ حسنین کریمین کا راکبِ دوشِ رسول ہونے کا ترجمۃ الباب میں ذکر ہے۔ مختصر یہ کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تک درمیان میں اور بھی بہت سے صحابہ کرام کا ذکر آتا ہے۔ سب کے ابواب کا ذکر کرنا یہاں ممکن نہیں یہ چند مثالیں بیان کی ہیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ امام بخاری کس طرح ابواب قائم کرتے چلے آرہے ہیں جن کے فضائل و مناقب بیان کر رہے ان کے ساتھ فضل یا مناقب کا لفظ لکھتے ہیں ورنہ ذکر لکھتے ہیں اور ذکر کا لفظ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ بھی بیان کیا ہے۔ چلتے چلتے جب حضرت امیر معاویہ پر آتے ہیں تو باب کا عنوان اس طرح قائم کرتے ہیں: باب ذكر معاوية رضي الله عنه، یعنی باب کے عنوان میں فضائل یا مناقب کے لفظ کا ذکر کیا اور نہ ہی ترجمۃ الباب میں ان کی کوئی خاصیت ذکر کی۔ اس باب کے حوالے سے آخری بات بخاری شریف کی احناف کی سب سے معروف شرح سے امام عینی کا قول نقل کر دیتا ہوں، جو اس باب کے تحت انہوں نے بیان کیا ہے۔ اگر کسی نے فتویٰ لگانا ہو تو امام بدر الدین عینی پر لگائے ہم پر نہ لگائے۔ امام عینی عمدۃ القاری (16/ 249) پر اس حدیث کے ترجمۃ الباب کے حوالے سے لکھتے ہیں: مطابقته للترجمة من حيث إن فيه ذكر معاوية ولا يدل هذا على فضيلته فإن قلتَ: قد ورد في فضيلته أحاديث كثيرة قلتُ: نعم ولكن ليس فيها حديث يصح من طريق الإسناد نص عليه إسحاق بن راهويه والنسائي وغيرهما فلذلك قال: باب ذكر معاوية ولم يقل: فضيلة ولا منقبة۔ ’’حدیث کی ترجمۃ الباب سے مطابقت: اس میں حضرت معاویہ کا ذکر ہے اور یہ عنوان ان کی فضیلت پر دلالت نہیں کرتا ہے، اگر تم کہو کہ حضرت معاویہ کی فضیلت میں بہت ساری احادیث وارد ہوئی ہیں۔ (امام عینی کہتے ہیں) میں کہتا ہوں: ہاں، لیکن ان میں سے ایک بھی سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ اسی لیے (شیخ البخاری) امام اسحاق بن راہویہ اور امام نسائی وغیرہ نے نص کے ساتھ ان روایات کو من گھڑت کہا ہے۔ اسی لیےامام بخاری نے بھی اپنے (شیوخ کی تائید میں) باب کا یہ عنوان قائم کیا ہے: ’’باب ذکر معاویہ‘‘ اور ان کے لیے فضیلت اور مناقب کا لفظ استعمال نہیں کیا۔‘‘
یہ امام الاحناف بدر الدین عینی کی عبارت ہے ہم نے اسے صرف نقل کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی روایات کی اصل نہ ہونے کے حوالے سے اس سے بھی سخت مؤقف گذشتہ مقالے میں امام عسقلانی کا بیان ہو چکا ہے۔ مزید تسلی اسی باب کے تحت فتح الباری (7/ 104) کا مطالعہ کر کے وہاں سے کی جا سکتی ہے۔ اس میں امام عسقلانی کی طرف سے امام احمد بن حنبل، شیخ البخاری امام اسحاق بن راہویہ اور امام نسائی وغیرہ کی طرف سے بھی ان روایات کے بے اصل ہونے کے حوالے سے اقوال مل جائیں گے۔
اب اس باب کے تحت بیان ہونے والی روایات کا حال بھی سن لیں۔ کل تین روایات بیان ہوئی ہیں۔ پہلی روایت درج ذیل ہے:1۔ عن بن أبي مليكة قال: أوتر معاوية بعد العشاء بركعة وعنده مولى لابن عباس فأتى بن عباس فقال: دعه فإنه صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم۔(صحیح البخاری، كتاب فضائل الصحابة، باب ذكر معاوية، 3/1373، الرقم/3553) ’’ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ نے نماز عشاء کے بعد وتر کی ایک رکعت پڑھی۔ ان کے پاس حضرت ابن عباس کا آزاد کردہ غلام بھی تھا۔ اس نے واپس آکر حضرت ابن عباس کو بتایا تو انہوں نے فرمایا: ان سے کچھ نہ کہنا کیونکہ وہ بھی رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہیں۔‘‘
یہ مرفوع روایت نہیں ہے بلکہ آثار ہے۔ نہ ہی اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ اقدس سے براہ راست کوئی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس نے حضرت امیر معاویہ کا صحابی ہونا بیان کیا جس کسی کو انکار ہی نہیں ہے۔
امام بخاری کی بیان کردہ دوسری روایت درج ذیل ہے: 2۔۔حدثنا نافع بن عمر حدثني بن أبي مليكة قيل لابن عباس: هل لك في أمير المؤمنين معاوية فإنه ما أوتر إلا بواحدة قال: أصاب إنه فقيه۔ (صحیح البخاری، كتاب فضائل الصحابة، باب ذكر معاوية، 3/1373، الرقم/3554) ’’ابن ابی ملیکہ کا ہی بیان ہے کہ حضرت ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آپ کی امیر المومنین معاویہ کے بارے میں کیا رائے ہے جب کہ وہ وتر کی ایک ہی رکعت پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: بے شك وہ فقیہ ہیں۔‘‘
یہ روایت بھی مرفوع نہیں بلکہ حضرت عبد اللہ بن عباس کے آثار میں سے ہے اور انہوں نے یہ نہیں بیان کیا کہ آقا علیہ الصلاۃ و السلام نے یوں فرمایا ہے یا میں نے سنا ہے بلکہ خود آپ کو فقیہ کہا.
امام بخاری کی بیان کردہ تیسری روایت درج ذیل ہے: ۳۔ عن معاوية رضي الله عنه قال: إنكم لتصلون صلاة لقد صحبنا النبي صلى الله عليه وسلم فما رأيناه يصليها ولقد نهى عنهما يعني الركعتين بعد العصر۔ (صحیح البخاری، كتاب فضائل الصحابة، باب ذكر معاوية، 3/1373، الرقم/3555)
اس روایت میں حضرت امیر معاویہ کے بارے میں کچھ بھی بیان نہیں ہوا بلکہ آپ نے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
2۔ ’’التاریخ الکبیر‘‘ امام بخاری کی کتاب ہے اس کا نام بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب راویوں کے حالات پر مشتمل ہے، اس میں بھی ذکر ہے فضائل نہیں۔
3۔ گذشتہ تحریر میں سنن الترمذی،4۔ فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل،5۔ حلم معاویہ اور دیگر معروف و غیر معروف کتب کا تفصیلی جائزہ لیا جا چکا ہے۔
6۔ اس کے بعد صحیح ابنِ حبان کا مطالعہ کر لیتے ہیں یہ بھی اہلِ سنت کے نزدیک مستند کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ امام ابنِ حبان نے بھی اپنی ’الصحیح‘ (16/191، الرقم/7210) میں ’باب ذكر معاوية بن أبی سفیان رضي الله عنه‘ کے عنوان سے باب قائم کیا ہے۔ اس باب کے تحت وہ صرف ایک روایت لائے ہیں : اللهم علم معاوية الكتاب والحساب ووقه العذاب۔ اے اللہ معاویہ کو کتاب و حساب سکھا اور عذاب سے بچا۔ اس روایت پر ہم امام احمد بن حنبل کی فضائل الصحابہ میں تفصیل سے بات کر چکے ہیں کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے ان کے لیے اللہ سے ہدایت نصیب ہونے یا عذاب سے بچانے کی خصوصی دعا کیوں فرمائی۔
7۔ امام ابوبکر الخلال کی ’’السنۃ‘‘ کا ذکر کیا جاتا ہے اس میں باب کے عنوان ہی سے آپ کو روایات کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔ ’’ذکر صفین والجمل وذکر من شهد ذلک ومن لم يشهد‘‘ باب ہی سے ایک تو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس باب میں جنگ صفین و جمل کے حوالے سے روایات بیان ہوئی ہیں۔ ان میں سے بھی اکثر کے ساتھ اسنادہ ضعیف لکھا ہوا ہے۔ حضرت عمار کی شہادت والی روایات اور اسی طرح کی تاریخی اور ان جنگوں کے حوالے سے موقوف روایات و آثار ہیں، جو ہمارے اس مؤقف کی بھرپور تائید کرتے ہیں کہ لوگ انٹرنیٹ یا اسلامک بکس کے ریسرچ سافٹ وئیر میں ان کا نام لکھ کر سرچ کرتے ہیں اور بس جہاں جس حوالے سے بھی کسی کو حضرت معاویہ کا نام نظر آیا اس نے فضائل کہہ کر اسے بنا تحقیق کیے.، کتاب کھولے آگے بیان کر دیا، خواہ اس میں ایک روایت بھی فضائل پر مشتمل نہ ہو. جب کہ علمی دیانت کچھ اور تقاضا کرتی ہے.
8۔ امام ابوبکر ابن ابی عاصم نے ’’الآحاد والمثانی‘‘ میں باب قائم کیا ہے: ’’ومن ذکر معاوية بن أبی سفیان بن حرب بن أمية بن عبد شمس أبو عبد الرحمن رضي الله عنه وأمه هند بنت عتبة‘‘ باب کے عنوان سے ہی میرا خیال ہے تسلی ہو گئی ہوگی لیکن پھر بھی مزید تسلی کے لیے دو تین روایات ذکر کر دیتا ہوں جن سے قارئین کو اندازہ ہو جائے گا کہ کیسے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست اور مرفوع روایت ایک بھی نہیں کی گئی۔ سب دوسرے بعد کے لوگ بیان کر رہے ہیں اس امر پر غور کرنا چاہیے اکثر و بیشتر ائمہ کا یہی اسلوب ہے آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ باب کی سب سے پہلے روایت یہ ہے: عن أبي عبد رب الزاهد قال: رأيت معاوية رضي الله عنه يصفر لحيته (1/373، الرقم/495)۔’’فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت معاویہ کو اپنی داڑھی کو پیلا رنگ کرتے دیکھا۔‘‘
ایک روایت میں ہے: عن عطية بن قيس قال: كان معاوية بن أبي سفيان إذا أراد أن يسافر لبس قبل ذلك بشهر الرانين والموقين والمنطقة (1/376، الرقم/506)۔ ’’یعنی حضرت معاویہ جب سفر کا ارادہ کرتے تو اس سے ایک ماہ پہلے ہی دبیز لباس، موٹے موزے اور کمربند پہن لیتے۔‘‘ اب خود اندازہ لگا لیں ان چیزوں کو لوگ فضائل کہتے ہیں۔ تقریباً سب ہی ایسی چیزیں ہیں۔ آخری مثال بیان کرتا ہوںَ۔
شعبی بیان کرتے ہیں: أول من خطب معاوية جالسا حين كثر شحمه وعظم بطنه۔(1/380، الرقم/520)۔ ’’یعنی سب سے پہلا شخص جس نے بیٹھ کر خطبہ دیا وہ حضرت معاویہ ہیں جب (ان کے بدن کی) چربی بڑھ گئی اور پیٹ بڑا ہو گیا۔‘‘ استغفر اللہ یہ صحابی کے فضائل ہیں؟
9۔ امام جلال الدین سیوطی کا بھی اس حوالے سے بلا جواز نام لیا جاتا ہے جب کہ وضاحت کے لیے ان کی کتاب ’’تاریخ الخلفاء/323) سے صرف ایک حوالہ ہی کافی ہے۔ فرماتے ہیں: وقد ورد في فضله أحاديث قلما تثبت. “حضرت معاویہ کے فضائل میں کافی احادیث وارد ہوئی ہیں مگر وہ کم ہی (صحيح) ثابت شدہ ہیں۔”
10۔ اس کے علاوہ کوئی تاریخ کی کتاب ہے تو کوئی موضوعات اور اباطیل والمناکیر کی یا کچھ بالکل آخری درجے کی کتابیں ہیں۔ لیکن جب ان میں سے کچھ نہیں نکلا تو باقی اگر اکا دکا کسی نے کچھ بیان کر بھی دیا ہے تو اتنی بڑی اکثریت کے سامنے ان کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ جس نے سمجھنا ہے اور جو حق کا متلاشی ہے اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے اور جس نے تسلیم نہیں کرنا اس کا اپنا نصیب ہے، ہمارا فریضہ یہیں تک تھا۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے قصیدے بیان کرنے والا خارجی ہے۔ اس سے کیا مراد ہے:
شیخ الاسلام کے اس قول کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کرنا یا ان کا نام لینا ہی خارجیت ہے یا کسی امام نے ان کا تذکرہ تک بیان نہیں کیا۔ ایسی بات نہیں ہے اور آپ کی بات کا ایسا مفہوم نکالنے والے لوگ بہتان تراش ہیں۔ آپ جب صحابہ کرام کا ذکر کر رہے ہوں تو ان میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر بھی کر سکتے ہیں جیسے کہ بیان ہوچکا۔ لیکن اس میں غلو کرنا اور وہ بھی اس انداز میں کہ ان کو مولا علی علیہ السلام کے مقابل اور ایک برابر مقام پر لا کھڑا کرنا یا اس قدر بڑھا کر بیان کرنا کہ پوری اسلامی تاریخ کو مسخ کر دیا جائے اور تیرہ سو سالہ عقیدۂ اہلِ سنت میں بگاڑ پیدا ہونے لگ جائے۔ ائمہ کہیں کہ ان کا خلافتِ راشدہ کے خلاف خروج تھا لیکن شرفِ صحابیت کے احترام میں خاموش رہا جائے۔ لیکن آج لوگ بے گناہ و بے خطا، پارسا و باوفا کے نعرے بلند کرنے لگ جائیں۔ تمام جلیل القدر صحابہ کرام علیہم الرضوان کو چھوڑ کر آپ ان کا عرس منانے لگ جائیں۔ جب اس انتہا پر پہنچیں گے تو یہاں سے خارجیت کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔
خلاصۂ بحث:
آخری بات عرض ہے کہ اگر آپ کے پاس علم اور دلیل ہے تو دلائل سے بات سمجھیں اور سمجھائیں، گالی گلوچ نہ کریں۔ دلیل کے جواب میں گالی سن کر ہمیں اور یقین ہوجاتا ہے کہ ہم الحمد للہ علی والے ہیں اور ہم ہی حق پر ہیں۔ حضرت علی کے دشمنوں کے پاس بھی دلیل نہیں گالی تھی اور بدلے میں صبرِ علی تھا۔ آج ہمیں کوئی ان کا نام لینے کی جرم میں گالی دیتا ہے تو ہمیں اس پر بھی فخر ہے۔
جان لیں کہ امام بخاری جنہیں دو لاکھ صرف صحیح احادیث یاد تھیں اور ضعیف اس کے علاوہ تھیں۔ امام مسلم، امام احمد بن حنبل، امام ترمذی، نسائی، ابن حبان اور ابن ابی عاصم جیسے جلیل القدر ائمہ حدیث کو جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں کوئی حدیث نہیں ملی۔ جنہوں نے طلبِ حدیث کے لیے دنیا بھر کے اسفار کیے، مشقتیں جھیلیں اور صعوبتیں برداشت کیں۔ ان کی نظر سے کون سی ایسی حدیث رہ گئی تھی جو ان کو تو نظر نہیں آئی اور آج کسی کو دستیاب ہو گئی ہے۔ ان ائمہ نے اپنی کتب میں ایک، دو یا تین حدیثیں لانی تھیں تو صرف ذکر پر مشتمل اور وہ بھی موقوف روایتیں بیان کرنا پڑیں تو آج ہمیں خود اندازہ لگا لینا چاہیے کہ تیرہ سو سال بعد جنہوں نے ان فضائل پر مشتمل کئی کئی سو صفحات لکھنے کے دعوے کیے ہیں، انہوں نے کیا بیان کیا ہوگا۔ یہاں یہ بات جاننا بھی ضروری ہے کہ کچھ لوگ اور طبقات ایسے بھی ہیں کہ جب ان کے سامنے ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل، شمائل اور خصائص پر مشتمل صحیح احادیث بھی پیش کرتے ہیں تو انہیں یہ سب روایات ضعیف اور ناقابل قبول نظر آتی ہیں۔ اور جب جب بنو امیہ کی کسی شخصیت کی بات آتی ہے تو ان کا نظریہ اور نقطہ نظر ہی تبدیل ہو جاتا ہے تب ان کے دلائل کا رخ بدل جاتا ہے۔ اس وقت ان کے دلائل کا سارا زور فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث کے مقبول ہونے پر صرف ہوتا ہے۔ دورنگی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا۔۔سراسر موم یا پھر سنگ ہوجا) ایک بار پھر دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کہنے، لکھنے، پڑھنے اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے. ہمارا کوئی علمی دعویٰ نہیں بلکہ ہم تو مدینۃ العلم کی چوکھٹ (باب العلم) سے پے بندھے ادنی سے سگ ہیں یہ سب اس در، اس باب اور اسی چوکھٹ کی خیرات ہے، جس پر ہم پل رہے ہیں. گر قبول افتد زہے عز و شرف. سگِ باب العلم حافظ ظہیر احمد الاسنادی (ریسرچ سکالر، فریدِ ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *