خدا کے وجود سے متعلق ایک شاہکار منتخب تحریر 

Click  to read more.

خدا کے وجود سے متعلق ایک شاہکار منتخب تحریر
_________________________

ایک ماں کے رحم میں دو بچے تھے ۔ دونوں گفتگو کرنے لگے.
ایک نے دوسرے سے پوچھا ” کیا تم اس زچگی کی زندگی کے بعد بھی کسی زندگی پر یقین رکھتے ہو ؟ “

دوسرے نے کہا ” یقیناً ۔ زچگی کے بعد بھی کوئی نہ کوئی زندگی تو ہو گی ، ممکن ہے کہ ہم یہاں اس لیے ہوں کہ خود کو آنے والی زندگی کے لیے تیار کر لیں “

“میرا نہیں خیال” ، پہلا بولا ، “بھلا وہ کس قسم کی زندگی ہو سکتی ہے؟ “

دوسرے نے کہا ” مجھے نہیں معلوم، لیکن وہاں ، یہاں سے زیادہ روشنی ہو گی ۔ ہو سکتا ہے کہ ہم وہاں اپنے پیروں سے چلیں اور اپنے منہ سے کھائیں ۔ ممکن ہے وہاں ہمارے پاس ایسے حواس ہوں جن کے بارے میں ہمیں ابھی کچھ سمجھ نہیں ہے “

پہلے نے مذاق اڑایا ” کیا بے وقوفی ہے ۔ پیروں سے چلنا ممکن ہی نہیں۔ اور اپنے منہ سے کھانا ! مضحکہ خیز ! ناف سے جڑی نالی سے ہمیں ہر وہ چیز مل جاتی ہے جس کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے۔ یہ نالی چھوٹی سی ہے ۔ لیکن جب یہ نالی ساتھ نہ ہو گی تب زندگی کا تصور بھی محال ہے “

دوسرے نے کہا ” بہرحال ! میرا خیال ہے کہ وہاں کچھ نہ کچھ ضرور ہے اور شاید یہاں سے مختلف۔ ممکن ہے کہ وہاں ہمیں خوراک کی اس نالی کی ضرورت ہی نہ ہو اور ہو سکتا ہے ہم وہاں ہوا میں سانس بھی لیں “

پہلے نے کہا ” بالکل فضول ! ہم تو پانی میں ڈوبے ہوئے ہی سانس لے سکتے ہیں۔ پانی کی تھوڑی سی بھی کمی ہو تو ہماری زندگی خطرے میں ہوتی ہے اور تم ہوا میں سانس لینے کی بات کر رہے ہو۔ یہ تو سراسر غیر علمی بات ہے۔ اچھا چلو ! اگر اس کے باہر بھی زندگی ہے تو کوئی کبھی وہاں سے واپس کیوں نہیں آیا ؟ سمجھ لو کہ بس یہی زندگی ہے اس کے بعد کچھ نہیں” ۔

دوسرا بولا ” خیر ! میں یہ سب نہیں جانتا لیکن مجھے یقین ہے کہ یہاں کی زندگی ختم ہونے کے بعد ہماری ملاقات ہماری ماں سے ہوگی۔ اور وہی ہماری دیکھ بھال کرے گی “

پہلا حیران ہوا ” ماں ؟؟ کیا تم واقعی ماں کے وجود پر یقین رکھتے ہو ؟ ارے اگر ماں وجود رکھتی ہے تو ابھی وہ کہاں ہے؟ “

دوسرا بولا ” مجھے لگتا ہے کہ ماں ہمارے چاروں طرف ہے ۔ ہر جانب۔ ہم بھی اسی کی وجہ سے ہیں۔ اس کے بغیر یہ دنیا، جہاں ہم موجود ہیں ، وجود نہیں رکھ سکتی “

پہلے نے اعتراض کیا ” اگر ماں کا وجود ہوتا تو وہ مجھے نظر بھی آتی ۔ مجھ سے بات بھی کرتی ۔ اتنی چھپ کے نہ بیٹھی رہتی ۔ اگر وہ ہم سے اتنا ہی پیار کرتی تو ہم کو ایسے نہ چھوڑتی ۔ لہذا ! عقل یہی کہتی ہے کہ ماں کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ سب ہمارے دماغ کی پیداوار ہے ۔ اور کچھ بھی نہیں ہے “

دوسرے نے جواب دیا ” کبھی کبھی جب ہم خاموش ہوتے ہیں، توجہ دیتے ہیں اور سننے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے ۔ کہیں اوپر سے اس کی محبت بھری آواز سنائی دیتی ہے ۔ ہم کو اپنی دھڑکنوں کے ساتھ اس کی دھڑکن بھی محسوس ہوتی ہے ۔ وہی ہماری ماں ہے ۔ بات صرف محسوس کرنے کی ہے “

پہلے نے کہا “یہ سب مفروضے اور بیکار کی باتیں ہیں۔ میرا علم یہ تسلیم نہیں کر سکتا۔ ویسے بھی مجھے کافی دنوں سے لگ رہا ہے کہ تم مولویانہ سوچ رکھتے ہو۔ تھوڑی تحقیق بھی کر لیا کرو”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *