*دفاعِ مخدومہ کائنات سلام اللہ علیہا*
میرا بچپن گاؤں میں گزرا ہے۔ ساڑھے تین چار دہائیاں قبل عشق و ادبِ رسالتِ مآب ﷺ سے بھرپور دیہاتی زندگی کا عکس میرے پردہ خیال میں آج بھی محفوظ ہے۔ صرف عقیدہِ اہل سنت و جماعت ہی لوگوں کے قلب و روح میں جاں گزیں تھا۔ لوگوں کے طرزِ زندگی میں سادگی، اخلاص، للّٰہیت اور توکل کا عُنصر غالب تھا۔ جذبات کی پاکیزگی، رشتوں کا تقدس و احترام اور اساتذہ و مشائخ کےلیے کمالِ ادب معاشرے کا خوبصورت تعارف تھا۔ عقائد میں رسوخ تھا، افراط وتفریط سے پاک سادہ لوگ ادبِ صحابہ اور مودۃِ اہلِ بیت کے چلتے پھرتے پیکر تھے۔ گھرگھر گیارہویں شریف کا اہتمام، محافلِ میلاد النبی ﷺ، محرم الحرام کے مقدس مہینے میں بالخصوص پہلے دس دن شہدائے کربلا کے مقدس تذکرے، نسبت و ادبِ اہلِ بیت کہ وجہ سے اپنی خوشیوں اور شادیوں کا محرم کے ایامِ غم میں انعقاد نہ کرنا، اہلِ بیتِ پاک کی نسبت سے گھر گھر لنگر کا اہتمام، باقاعدگی سے موسم کے مطابق مشروبات کی سبیلیں، غریبوں ، مسافروں کو کھانا کھلانا، لنگر پکوا کر مساجد میں اعلان کروانا کہ ہر کوئی آکر لنگرِ حسینی کھائے۔ الغرض کتنا خوبصورت دور تھا کہ عقائد متوازن تھے، سیرتیں پاک تھیں، اخلاق عمدہ تھے، عمل میں اخلاص اور تسلسل تھا، بڑوں کا حیاء تھا، علماء ذمہ دار تھے اس لیے ان کا ادب تھا، مشائخ اور پیرانِ کرام فقر پسند اور اپنے متعلقین ومتوسلین کےلیے رشدوہدایت کا منبع تھے۔
پھر اہلِ سنت کا زوال شروع ہوا۔ عقیدہ محقق علماء کی دسترس سے نکل کر دنیا پرست خطیبوں، ذاکروں اور ملاؤں کےلیے تختہ مشق بن گیا۔تحقیق کی جگہ سُروں اور شعروں نے لے لی۔ لفظِ ”اہلِ سنت“ کی جگہ ”بریلویت“، “اہلِ حدیث“ اور ”دیوبندیت“ نے لے لی۔ اہلِ بیتِ پاک کی مودۃ و غلامی کا درس ”رفض“ بن گیا اور حُبِّ اصحابِ رسول اللہ ﷺ ”ناصبیت“ قرار پائی۔ دین کی جگہ ”مسلک“ پرستی نے لے لی۔ جوڑنے والے کم ہوتے گئے اور نیم خواندہ پھوڑنے والوں کی فوجِ ظفرموج مدارس سے کفر و فسق، بدعت و شرک اور رفض و نصب کے فتوے لیے معاشرے کو انتہاء پسندی کی آگ میں جھونکنے لگی۔
اب حالت یہ ہے کہ معاشرے میں نفرتوں کے بیج بونے والا ”کنزالعلماء“ ، قوم کی عزت و ناموس کا سودا کرنے والا ”سیاستدان“، مریدوں کے اموال پر نگاہ رکھنے والا پیر کہلاتا ہے(اِلا ماشاء اللہ)۔ بقول علامہ اقبالؒ
تھا جو ناخُوب، بتدریج وہی خُوب ہُوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اب حالات یہ ہیں کہ وہ کام کیا گیا جو چودہ صدیوں میں کسی نے کرنے کی جرأت نہ کی۔ عقیدہ اہلِ سنت پر نقب لگاتے ہوئےمخدومہ کائنات، خاتونِ جنت سلام اللہ علیہا کی بے ادبی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی گئی اور آپ سلام اللہ علیہا کو ”خطاپر تھیں“ قرار دیا گیا۔ اب ایک حرماں نصیب ایسا بھی پیدا ہوگیا ہے جس کی زندگی امت کو دامنِ اہلِ بیتِ پاک سے دور کرتے گزری۔ جو دس محرم الحرام کو شہادتِ امامِ حسین علیہ السلام کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی بجائے اپنے نام نہاد مسلک کی ترویج کےلیے فضائلِ جنابِ امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتا ہے۔ جو اپنی کانفرنس کانام تو فضائلِ اہلِ بیت رکھتا ہے مگر زور سارا کفرِ ابو طالب بیان کرنے پر لگاتا ہے۔ اس پے طُرفہ تماشا یہ کہ اس مبلغِ ناصبیت کو اہلِ سنت کا ” کنز العلماء“ کہا جاتا ہے۔ ایسے سطحی کردار و عمل کے علماءِ سوء کو دیکھ نوجوان نسل دین سے دور ہو رہی ہے۔
ان سارے ابتر حالات کے باجود مایوسی نہیں بلکہ خوشی اس بات کی ہے کہ اس بدتہذیب طبقے کی طرف سے اہلِ بیتِ پاک کی ماں سیدۃ نساءِ العالمین پر”خطاء کی نسبت “ کرکے حملہ آور ہونے والے ناصبی ملاں کو حق پرست علماء کرام نے رد کردیا ہے۔ صحیح العقیدہ مسلمانوں نے ملاں کی خوشنودی کی بجائے مخدومہ کائنات کی خوشنودی کے حصول کی کوشش کی ہے۔
اس سارے منظر نامے میں شیخ الاسلام مدظلہ العالیٰ نے اس بےوقعت اور حاسد ملاں پر اپنا ایک بھی جملہ ضائع کیے بغیر مخدومہ کائنات کی بارگاہ میں شاندار ، مضبوط علمی استدلال پر مبنی تفسیری نکات کویوں اجاگر کیا کہ ہر سننے والے کے دل ودماغ م سیدہ کائنات رضی اللہ عنھا کی بارگاہ میں عقیدت ومحبت سے بچھ گئے ہیں۔آپ نے ثابت کیا کہ جس طرح تاجدارِ کائنات محمد رسول اللہ ﷺ خدا نہیں بلکہ مظہرِ ذاتِ خدا ہیں بلکہ اسی طرح مخدومہ کائنات سلام اللہ علیھا بھی مظہرِ عصمتِ مصطفی ﷺ ہیں۔ کیونکہ آپ سلام اللہ علیھا کو بضعتِ مصطفی ﷺ ہونے کی وجہ سے شانِ مظہریت کا فیض ملا ہے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سورہ احزاب کی آیت نمبر 33 کی تفسیر میں لوگ افراط و تفریط کا شکار رہے ہیں۔نواصب و خوارج اس میں صرف ازواجِ مطہرات کو شامل مانتے ہیں جب کہ روافض اس آیت کا مصداق فقط اہلِ بیتِ پاک یعنی اصحاب الکساء کو مانتے ہیں۔ شیخ الاسلام مدظلہ العالیٰ نے اس افراط وتفریط کا قلع قمع کرتے ہوئے مضبوط دلائل و استدلال سے ثابت کیا کہ ان آیات میں امہات المؤمنین بھی شامل ہیں اور اہلِ بیت پاک بھی۔امہات المؤمنین یا اہلِ بیت میں سے کسی ایک کو آیت کے مصداق سے خارج کرنا قرآن مجید کےصیغوں اور سیاق وسباق کے خلاف ہے اور حق یہ ہے کہ یہ دونوں سببِ نزول اور غایتِ نزول میں داخل ہیں۔ کیونکہ سورہ احزاب کی آیت نمبر 28 سے 33 کے پہلے حصہ تک مخاطب ازواجِ مطہرات ہیں اور صیغے بھی مؤنث استعمال ہوئے ہیں، جب کہ تینتیسوی آیت کا دوسرا حصہ آیتِ تطھیر پر مشتمل ہے اور اس میں صیغے مذکر آئے ہیں۔ فکرِ قرآنی کے ساتھ ظلم یہ ہوا ہے کہ ان آیات سے خارجی و ناصبی اپنا اپنامقصد حاصل کرتے رہےہیں۔شیخ الاسلام نے واضح کیا ہے کہ امہات المؤمنین اس لیے آیتِ تطہیر کی مصداق ہیں کہ ان آیات کا خطاب ہی اُن سے ہورہاہے اور آیت نمبراٹھائیس سے تینتیس تک تمام صیغے مؤنث کے آرہے ہیں۔ جب کہ اہلِ بیت پاک کو فیضِ طہارت میں شامل کرنے کےلیے فقط آیت نمبر تینتیس میں مذکر کی ضمائر، مذکر کا صیغہ اور ”اہل البیت“ کا لفظ آیا ہے اور بعد والی آیات میں پھر مؤنث کے صیغے آئے ہیں۔ اس اسلوب سے معلوم ہوا کہ یہاں پر خطاب صرف ازواجِ مطہرات سے نہیں کیونکہ اگر مخاطب صرف امہات المؤمنین ہوتیں تو مؤنث کا صیغہ ”لِیُذھِبَ عَنْکُنَّ“ اور ”وَیُطَھِّرکُنَّ“ ہی استعمال ہوتا۔اگر آگے پیچھے مؤنث کے صیغے آ رہے ہیں اور اس سے امہات المؤمنین مراد ہیں تو درمیان میں صرف ایک آیت میں مذکر کے صیغے وضمائر کچھ مردوں کو بھی خطاب میں شامل کرنے کے متقاضی ہیں، جو آیت نمبر 32 اور 34 میں شامل نہیں تھے وہ آیت نمبر 33 میں شامل ہو گئے ہیں۔لہذااہلِ کساء پنجتن پاک کو مذکر کے صیغوں سے خود اللہ رب العزت نے اور عملی تفسیر کے ذریعے تاجدارِ کائنات ﷺ نے آیت نمبر 33 میں شامل فرما دیا ہے۔
یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ پنجتن کا اضافہ ہوا تب ”اہلِ بیت“ بنے اور جب تک پنجتن اس میں شامل نہیں تھے، تب تک ازواج مطہرات تھیں، نساء النبی تھیں، امہات المومنین تھیں، مگر قرآن مجید نے ان کے لیے” اہل بیت“ کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا۔امہات المؤمنین کو اہلِ بیت کا ٹائٹل اس وقت ملا جب ان کے ذکر کے ساتھ پنجتن پاک بھی شامل ہوگئے۔ قرآن مجید میں اس مقام کے علاوہ کسی اور مقام پر بھی اگر ازواج مطہرات کا ذکر آیا ہے تو وہاں بھی ”اہلِ بیت“ نہیں کہا گیا بلکہ صرف ازواج اور امہات المومنین کہا گیا۔” اہل بیت“ کا ٹائٹل پورے قرآن میں فقط اسی جگہ استعمال ہوا ہے اور یہاں یہ ٹائٹل ازواج مطہرات کے ساتھ پنجتن کو شامل کرکے استعمال کیا گیا ہے۔اس لیے آیت تطہیر میں امہات المؤمنین اور پنجتن پاک دونوں شامل ہیں۔
سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کے مقام ومرتبہ کے فہم کےلیے یہ بات بھی سمجھنے قابل ہے امہات المؤمنین کی طہارت مقرون بالشریعہ والتقویٰ ہے جب کہ مخدومہ کائنات سلام اللہ علیہا کی طہارت مقرون بالبضعہ ہے۔ کیونکہ اٹھائیسویں آیت سے تینتیسوی آیت تک ازواجِ مطہرات کےلیے احکامِ شرعی کا تفصیلی بیان کیا گیااور انھیں شرعی احکامات کی اتباع کے ذریعے طہارت و پاکیزگی کی معراج پر فائز کیا گیا۔ جب کہ خاتونِ جنت سیّدۃُ نساء اہل الجنہ سیّدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا حضور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر اور آپ ﷺکی جان مبارک کا حصہ ہونے کے فیض سے پہلے ہی طہارت و پاکیزگی کی اس معراج پر فائز تھیں اور یہی فیض آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مولیٰ علی اور حسنین کریمین علیھم السلام کو بھی ملا ہے۔ شریعت پر عمل اور تقویٰ و طہارت، نوافل، روزے ،صدقات،عبادات، حج و عمرہ اور دین کی خاطر اپنی جانوں کی قربانی سمیت دوسری تمام نیکیوں سے حاصل ہونے والی طہارت ، ان نفوسِ قدسیہ کے لئے اضافی ہے جو انہیں طہارت و پاکیزگی میں یکتا و منفرد بنادیتی ہے۔
سیدہ پاک کی طرف ”نسبتِ خطا“ کا فعلِ شنیع بالیقین عقیدہ اہلِ سنت پر ڈاکہ ہے۔ حق یہ ہے کہ نہ سیدہ پاک خطا پر تھیں اور نہ سیدنا امیر المؤمنین ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خطا پر تھے۔ جو سیدہ پاک کو خطا پر کہے یا سمجھے وہ بھی مُفرِط ہے اور جو سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو خطا پر سمجھے وہ بھی مُفرِط ہے۔ اللہ رب العزت ان مُفرِطِین کے شر سے امت کو محفوظ فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
طالبِ دعا:: محمد اقبال فانی