ریاستِ مدینہ میں مندروں کی تعمیر. شرعی حیثیت؟

التماس…. تحریر قدرے طویل ہے مگر پڑھیں گے تو آپ کے علم و عمل میں اضافہ ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ

خالقِ کائنات جل وعلا ارشاد فرماتا ہے

لاإِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ.
دین میں کوئی زبردستی نہیں ،بیشک ہدایت کی راہ گمراہی سے خوب جدا ہوگئی ہے

مختلف ادوار میں گرجا گھر اور کلیسے “” اسلامی حکومت”” میں موجود رہے ہیں
کبھی بھی انہیں ادنیٰ گزند تک نہیں پہنچائی گئی بلکہ حکومت نے ان کی حفاظت کی ہے
اور غیر مسلموں کو ان میں عبادات کی انجام دہی کے لیے سہولیات فراہم کی ہیں

اقلیتیں اپنی قدیم عبادت گاہوں کے اندر رہ کر اپنے تمام مذہبی اُمور بجا لا سکتے ہیں،
حکومتِ اسلامیہ اس میں دخل دینے کی مجاز نہیں ہے

کیا اسلامی ملک میں غیر مسلم اپنی نئی عبادت گاہیں تعمیر کر سکتے ہیں؟؟؟

فقہائے اسلام اسلامی ملک کے شہروں کو تین اقسام میں تقسیم کرتے ہیں

  1. وہ شہر جنہیں مسلمانوں نے نئے سرے سے آباد کیا ہو۔

فقہائے اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ ایسے شہروں میں غیرم مسلم ذمی اپنی نئی عبادت گاہیں تعمیر نہیں کرسکتے۔ اور اس پر حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ :

أيما مصر مصرته العرب فليس للعجم ان يبنوا فيه بناء بيعة ولا يضربوا فيه ناقوسا ولا يشربوا فيه خمراً ولا يتخذوا فيه خنزيراً
’’جن شہروں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہے ان میں ذمیوں کو یہ حق نہیں ہے کہ نئی”” عبادت گاہیں” (کلیسے گرجے وغیرہ) تعمیر کریں، یا ناقوس بجائیں، شرابیں پئیں اور سور پالیں۔
(ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 467، رقم : 32982)

2۔ وہ شہر جنہیں مسلمانوں نے بزور شمشیر فتح کیا ہو

ایسے شہروں میں بھی اقلیتیں نئی عبادت گاہیں تعمیر نہیں کرسکتے
ایسے شہروں میں غیر مسلموں کی پرانی عبادت گاہوں سے متعلق
امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں
ان کی پہلے سے موجود عبادت گاہوں کو منہدم کردیا جائے گا۔
جبکہ احناف کہتے ہیں منہدم نہ کیا اور نہ ہی اقلیتوں کو ان میں عبادت کی اجازت دی جائے بلکہ مسلمان انہیں اپنے دیگر کاموں میں استعمال کریں۔
(البناية في شرح الهداية – ج 6 ص 682، دار الفکر ۱۹۹۰)

3۔ وہ شہر جنہیں مسلمانوں نے صلح کے معاہدے سے حاصل کیا ہو

ایسے شہروں میں ان کی پرانی عبادت گاہیں تو موجود رہیں گیں۔
اور اگر وہ پرانی ہوجائیں تو انہیں ان کی “”تجدید” کی اجازت ہوگی
لیکن ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی جازت نہین ہوگی

لیکن” نئی عبادت گاہوں” کی تعمیر کا معاملہ غیر مسلموں سے طے شدہ شرائط پر ہوگا۔
اگر اس شرط پر صلح ہوئی کہ غیر مسلم نئی عبادت گاہیں تعمیر کریں گے تو انہیں اس بات کی اجازت ہوگی۔

جیسے
قاضی امام ابویوسف علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب الخراج میں ذکر کیا ہے کہ
فِي صُلْحِ أَبِي عُبَيْدَةَ، مَعَ أَهْلِ الشَّامِ أَنَّهُ صَالَحَهُمْ، وَاشْتَرَطَ عَلَيْهِمْ حِينَ دَخَلَهَا عَلَى أَنْ يَتْرُكَ كَنَائِسَهُمْ، وَبِيَعَهُمْ عَلَى أَنْ لَا يُحْدِثُوا بِنَاءَ بِيعَةٍ، وَلَا كَنِيسَةٍ،
حضرت ابو عبیدہ ؓ نے ملک شام کی فتح کے وقت اہل شام کے ساتھ اس شرط پر صلح کی تھی کہ مسلمان ملک شام میں جب داخل ہونگے تو ان کی عباد گاہوں کو چھوڑ دیں گے لیکن غیر مسلم نئی عبادت گاہوں کی تعمیر نہیں کریں گے۔ (رد المحتار على الدر المختار، 4: 213, دار الفكر-بيروت، ۱۹۹۲)

صاحب عنایہ کہتے ہیں مسلمانوں میں راجح یہی ہے کہ وہ اسی شرط پر صلح کریں کہ نئی عبادت گاہیں تعمیر نہیں ہونگیں جیسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا۔
(البناية في شرح الهداية – ج 6 ص 682، دار الفکر ۱۹۹۰)

اس ساری بحث کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ “” اسلام آباد”” کا معاملہ پہلی صورت میں آتا ہے
اس شہر کو مسلمانوں نے ہی آباد کیا……….. قانون بھی وہی لاگو ہوگا

دوسرا یہ کہ تیسری قسم کا کوئی شہر ہو جہاں “شرط” میں عبادت گاہ بنانے کی اجازت ہو
تو وہاں بھی حکومت بیت المال سے یا موجودہ سسٹم میں مسلمانوں کے ٹیکس سے گردوارے یا مندر بنائے اس کی شرعاً اجازت نہیں بلکہ غیر مسلم اپنے ذاتی وسائل سے تعمیر کر سکتے ہیں

تیسرا یہ کہ جس ملک میں غربت و افلاس آخری حدوں کو چھو رہی ہو
لوگ افلاس کی وجہ سے خود کشیاں کر رہے ہوں اس ملک میں “اربوں” روپے غیر مسلم کی عبادت گاہوں پہ صرف کر دئے جائیں….. عقل و شعور سے ماوراء ہے

چوتھا یہ کہ یہ اس ملک میں ہو رہا ہے جس ملک میں ناجائز تجاوزات کے نام پہ سینکڑوں مساجد کو مسمار کر دیا گیا اور
ان کی متبادل جگہ بھی فراہم نہ کی گئی

پانچواں یہ کہ ریاستِ مدینہ کے دعویداروں نے اپنے دو سالہ دورِ حکومت میں کوئی “مسجد”
مدرسہ” بھی تعمیر کیا…..؟؟

اس سلسلہ میں سب سے اہم جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے
کہ یہ ملک صرف مسلمانوں کا نہیں غیر مسلموں کا بھی ہے ان کے بھی تو حقوق ہیں

تو میرے بھائی غیر مسلموں کے لئے قانونِ شرعی موجود ہے تاریخ انسانیت میں یہ پہلی اسلامی حکومت نہیں جس ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگایا تھا اس سے کوئی ایک مثال ایسی پیش کردیں…….
ہمارے علم میں بھی اضافہ فرما کر شکریہ کا مؤقع دیں

جان کی امان پاؤں تو پوچھ سکتا ہوں کہ غیر مسلموں کے حقوق مسلمانوں سے بھی زیادہ ہیں؟؟
کہ مسلمان تو دس دس روپے اکٹھے کر کے مساجد بنائیں مدارس بنائیں
اور غیر مسلموں کے لئے “اربوں روپے” آنِ واحد میں خرچ کر دئے جائیں……

یاد رکھیں ایک دن مرنا ہے قبر میں کسی لیڈر کسی کسی قائد نے نہیں آنا
وہاں مصطفیٰ جانِ رحمت شمعِ بزمِ ھدایت تاجدارِ ختمِ نبوت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے جلوہ فرما ہونا ہے…… کون سا منہ دکھائیں گے…… کیسے ان کی بارگاہِ اقدس میں پیش ہونگے…..؟

موت کب آجائے ایک لمحے کا بھروسہ نہیں………سیدِعالم نورِ مجسم شفیعِ بنی آدم رسولِ معظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی طرفداری کرکے اپنی آخرت بچا لیجئے

نوٹ
آپ میری تحریر سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر دلیل سے نہیں………

قاری عبد الرحمن کی وال سے تحریر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *