عشرہ ذی الحجہ کے فضائل و اعمال

Click down to read more

*🌹عشرہ ذی الحجہ کے فضائل و اعمال🌹*
عشرۂ ذوالحجہ کے دس دنوں کی فضیلت یعنی دس بہترین دن
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
• وَالْفَجْرِ(1) وَلَيَالٍ عَشْرٍ(2)
وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ(3) وَاللَّيْلِ إِذَا يَسْر(4) هَلْ فِي ذَلِكَ قَسَمٌ لِذِي حِجْر(5)ٍ [الفجر]
قسم ہے فجر کی! اور دس راتوں کی! اور جفت اور طاق کی!اور رات کی جب وہ چلتی ہے! یقینا اس میں عقل والوں کے لیے بڑی قسم ہے۔ والليالي العشر:المراد بها عشر ذي الحجة كما قاله ابن عباس وابن الزبير ومجاهد وغير واحد من السلف والخلف [تفسیر ابن کثیر]
فجر یعنی حج اور قربانی والادن اور دس یوم ذوالحجہ والے کی قسم .

نبی کریمﷺکا اِارشاد ہے:”سَيِّدُ الشُّهُورِ شَهْرُ رَمَضَانَ وَأَعْظَمُهَا حُرْمَةً ذُو الْحِجَّةِ“تمام مہینوں کا سردار رمضان کا مہینہ ہے اور اُن میں حرمت کے اعتبار سے سب سے عظیم ”ذی الحجہ“ کا مہینہ ہے۔ (شعب الایمان:3479)
اِس سے معلوم ہوا کہ ذی الحجہ کا مہینہ ایک عظیم اور بابرکت مہینہ ہے ،بالخصوص اس کے ابتدائی دس دن جس کو ”عشرہ ذی الحجہ “ کہا جاتا ہے ، یہ اور بھی زیادہ با برکت ایّام ہیں ، قرآن و حدیث سے اِن دس دنوں کی بڑی فضیلت ثابت ہے ۔عشرہ ذی الحجہ کے چند فضائل ملاحظہ فرمائیں:

1⃣ ــــ پہلی فضیلت: ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم :
اللہ تعالیٰ نے اِن دس دنوں میں آنے والی راتوں کی قسم کھائی ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿وَلَيَالٍ عَشْرٍ﴾ترجمہ قسم ہے دس راتوں کی ۔(الفجر:2)
حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں:”اللَّيَالِي الَّتِي أَقْسَمَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِنَّ الْعَشْرُ الْأُوَلُ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ“ترجمہ: دس راتیں جن کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے اُن ذی الحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں ۔(شعب الایمان:3470)

2⃣ ــــ دوسری فضیلت :سب سے افضل اور عظمت والے ایّام:
حضرت عبد اللہ بن عباس سے مَروی ہے کہ نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے:
”مَا مِنْ أَيَّامٍ أَفْضَلُ عِنْدَ اللهِ وَلَا الْعَمَلُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ“
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی دن اِن دس دنوں سے زیادہ افضل نہیں ہیں اور ان میں کیے جانے والے اعمال سے زیادہ کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو محبوب اور پسندیدہ نہیں ہے۔(شعب الایمان:3481)
ایک اور روایت میں ہے :”مَا مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ، وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْعَمَلِ فِيهِنَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ“ ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی دن اِن دس دنوں سے زیادہ عظیم نہیں ہیں اور ان میں کیے جانے والے عمل سے زیادہ کوئی محبوب نہیں۔(مسند احمد:5446)

3⃣ ــــ تیسری فضیلت:عشرہ ذی الحجہ کے اعمال کا سب سے زیادہ محبوب ہونا:
نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے :
”مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ يَعْنِي أَيَّامَ الْعَشْرِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ:وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ“
ترجمہ:کوئی دن ایسے نہیں جن میں کیے جانے والے اعمالِ صالحہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ذی الحجہ کے دس ایام سے زیادہ محبوب ہوں، لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا اللہ کے راستے میں جہاد بھی اِن اعمالِ صالحہ کے برابر نہیں؟آپﷺنے اِرشاد فرمایا:ہاں! اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی ان کے برابر نہیں ،ہاں مگر وہ شخص جو اللہ کے راستے میں اپنی جان و مال لے کر نکلا ہو اور کچھ بھی واپس لے کر نہ آئے(یعنی شہید ہوجائے)۔(ابوداؤد:2438)

4⃣ ــــ چوتھی فضیلت : ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے:
نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے:”يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ“
ترجمہ: ذی الحجہ کے دس دنوں میں (ابتدائی نو دنوں میں سے)ہر دن کے روزے کا ثواب ایک سال کے روزے کے برابر ہے۔(ترمذی:758)

5⃣ ــــ پانچویں فضیلت : ہر رات کی عبادت کا ثواب شبِ قدر کے برابر ہے:
نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے: ”وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ القَدْرِ“
ترجمہ: ذی الحجہ کے دن دنوں میں ہر رات کے قیام(عبادت)کا ثواب لیلۃا لقدر کی عبادت کے برابر ہے۔(ترمذی:758)

🔮عشرۂ ذی الحجہ افضل ہے یا رمضان کا آخری عشرہ ؟
اس بارے میں علماء کی تین آراء ہیں :
1⃣عشرۂ ذی الحجہ افضل ہے۔
2⃣رمضان المبارک کا عشرۂ اخیرہ افضل ہے ۔اِس لئے کہ اس میں روزے اور شبِ قدر ہے۔
3⃣عشرۂ ذی الحجہ کے دن افضل ہیں اور عشرۂ رمضان کی راتیں افضل ہیں ۔
ملّاعلی قاری﷫فرماتے ہیں : عشرۂ ذی الحجہ کے دن اس لئے افضل ہیں کیونکہ اس میں عرفہ کا دن ہے جو سال کے تمام ایام کا سردا ر ہے اور رمضان المبارک کے عشرۂ اخیرہ کی راتیں اس لئے افضل ہیں کیونکہ اس میں شبِ قدرہے جو سال کی تمام راتوں کی سردار ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح : 3/1082)

✳عشرہ ذی الحجہ کے اعمال✳
احادیثِ طیبہ میں ذی الحجہ کے دس مبارک ایّام کے اعمال ذکر کیے گئے ہیں ، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

1⃣ ــــ پہلا عمل : ناخن اور بال کاٹنے سے احتراز:
نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے:”إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ“ترجمہ: جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو اُسے (قربانی کرنے تک )اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے احترازکرنا چاہیئے۔(صحیح مسلم:1977)
ایک اور روایت میں ہے:”مَنْ كَانَ لَهُ ذِبْحٌ يَذْبَحُهُ فَإِذَا أُهِلَّ هِلَالُ ذِي الْحِجَّةِ فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ، وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا حَتَّى يُضَحِّيَ“
ترجمہ: جس کو جانور ذبح کرنا ہو تو وہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کےبعد اپنے بال اور ناخن کو قربانی ہونے تک نہ کاٹے۔(صحیح مسلم:1977)
فائدہ:یہ ناخن اور بال نہ کاٹنے کا استحباب اُن لوگوں کے لئے ہے جن کا قربانی کا ارداہ ہو ، خواہ واجب قربانی کا ارادہ ہو یا نفلی کا ، نیز یہ حکم اُس وقت ہے جبکہ بال اور ناخن کاٹے ہوئے چالیس دن پورے نہ ہوتے ہو ں ، ورنہ بال اور ناخن کاٹنا ضروری ہے اور نہ کاٹنا حرام ہے ۔ (احسن الفتاوی : 7/497) (رد المحتار : 2/181)

🔮بال اور ناخن نہ کاٹنے کی حکمت:
1⃣حجاجِ بیت اللہ کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا ، کیونکہ وہ بھی بحالتِ احرام یہ کام نہیں کرتے ۔
2⃣اضحیہ دراصل قربانی کرنے والے کی جان کا فدیہ ہوتا ہے ، پس ناخن وغیرہ کاٹنے سے روکا گیا تاکہ تمام اجزاء کے ساتھ فدیہ ہو۔(مرقاۃ المفاتیح : 3/1081)(تکملہ فتح الملہم : 3/586)

2⃣ ــــ دوسرا عمل :عبادت کی کثرت:
نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے :”مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ يَعْنِي أَيَّامَ الْعَشْرِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ:وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ“
ترجمہ:کوئی دن ایسے نہیں جن میں کیے جانے والے اعمالِ صالحہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ذی الحجہ کے دس ایام سے زیادہ محبوب ہوں، لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا اللہ کے راستے میں جہاد بھی اِن اعمالِ صالحہ کے برابر نہیں؟آپﷺنے اِرشاد فرمایا:ہاں! اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی ان کے برابر نہیں ،ہاں مگر وہ شخص جو اللہ کے راستے میں اپنی جان و مال لے کر نکلا ہو اور کچھ بھی واپس لے کر نہ آئے(یعنی شہید ہوجائے)۔(ابوداؤد:2438)
ایک روایت میں ہے :”وَالْعَمَلَ فِيهِنَّ يُضَاعَفُ سَبْعمِائَةِ ضِعْفٍ“اِن دس دنوں میں کیے جانے عمل کا بدلہ سات سو گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔(شعب الایمان:3481)
امام اوزاعی ﷫فرماتے ہیں: بنی مخزوم کے ایک قریشی شخص نے مجھ سے یہ حدیث مرفوعاً نقل کی ہے:”انَّ الْعَمَلَ فِي الْيَوْمِ مِنْ أَيَّامِ الْعَشْرِ كَقَدْرِ غَزْوَةٍ فِي سَبِيلِ اللهِ“ترجمہ: اِن ایام میں کیے جانے والے اعمال قدر و منزلت میں ایسے ہیں جیسے اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ۔(شعب الایمان:3477)

3⃣ ــــ تیسرا عمل : روزوں کا اہتمام:
ذی الحجہ کے ابتدائی ایّام میں نبی کریمﷺکا معمول روزے رکھنے کا تھا، چنانچہ ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن فرماتی ہیں :”كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ“ نبی کریم ﷺذی الحجہ کے نو دن روزہ رکھا کرتے تھے ۔(ابوداؤد:2437)
اور عشرہ ذی الحجہ میں روزے رکھنے کی فضیلت پر روایت پہلے بھی گزر چکی ہے کہ ذی الحجہ کے دس دنوں میں (ابتدائی نو دنوں میں سے)ہر دن کے روزے کا ثواب ایک سال کے روزے کے برابر ہے۔(ترمذی:758)

4⃣ ــــ چوتھا عمل : عرفہ کے روزے کا خصوصی اہتمام:
عشرہ ذی الحجہ میں ایک دن ”عرفہ“ یعنی 9 ذی الحجہ کا مبارک دن ہے جس میں روزے کا ثواب اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے ،نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے: ”صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ، إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ“۔ مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ رکھنا ایک سال پہلے اور ایک سال بعدکے(صغیرہ) گناہوں کو مٹادے گا۔(ترمذی:749)

5⃣ ــــ پانچواں عمل :تسبیح ،تحمید ،تہلیل اور تکبیر کی کثرت:
تسبیح سے مراد اللہ تعالی کی پاکی ، تحمید سے مراداُس کی حمد ،تہلیل سے مراد کلمہ طیبہ کا پڑھنا اور تکبیر سے مراد اللہ تعالی کی بڑائی بیان کرنا ہے،اور عشرہ ذی الحجہ میں اِن چاروں چیزوں کی کثرت کی تلقین کی گئی ہے۔روایات ملاحظہ فرمائیں :
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں:”فَأَكْثِرُوا فِيهِنَّ مِنَ التَّهْلِيلِ، وَالتَّحْمِيدِ، وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّسْبِيحِ“۔ترجمہ: اِن دس دنوں میں تہلیل ، تحمید،تکبیر اور تسبیح کی کثرت کیا کرو۔(شعب الایمان:3473)
بخاری شریف میں تعلیقاً نقل کیا گیا ہے:”وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ:يَخْرُجَانِ إِلَى السُّوقِ فِي أَيَّامِ العَشْرِ يُكَبِّرَانِ، وَيُكَبِّرُ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِمَا“۔
ترجمہ :حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ ذی الحجہ کے دس دنوں میں بازار جاکر(لوگوں کو تکبیر کی طرف توجہ دلانے کے لئے ) تکبیر کہا کرتے تھے اور لوگ اُن کی تکبیر سن کر تکبیر کہا کرتے تھے۔(بخاری :باب فضل العمل فی ایام التشریق)

*خصوصاً نویں تاریخ کی صبح سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک ہر نماز کے بعد بآوازِ بلند ایک مرتبہ تکبیر تشریق کہنا واجب ہے۔ فتویٰ اس پر ہے کہ باجماعت اور تنہا نماز پڑھنے والے اس میں برابر ہیں، اس طرح مرد وعورت دونوں پر واجب ہے، البتہ عورت بآوازِ بلند تکبیر نہ کہے، آہستہ سے کہے۔(شامی)*

*تکبیر تشریق*

*’’ﷲ اکبر ﷲ اکبر لا إلٰہ إلا ﷲ وﷲ أکبر ﷲ أکبر ولله الحمد‘‘*
صحابہ کرام ان دس دنوں میں تکبیر کہتے ہوئے بازار نکلتے اورعام لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کردیتے.
(فتح الباری ج٢/٥٣١)

اور یہ تمام چیزیں یعنی تہلیل ، تحمید،تکبیر اور تسبیح تیسرے کلمہ میں موجود ہیں ، چنانچہ اِن دس دنوں میں چلتے پھرتے ، اُٹھتے بیٹھتے تیسرا کلمہ ،چوتھا کلمہ اور تکبیر تشریق وغیرہ کی کثرت کرکے اِس عمل کوبآسانی اختیار کیا جاسکتا ہے۔

6⃣ ــــ چھٹا عمل :شب بیداری :
عشرہ ذی الحجہ کی مبارک راتیں جن کی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر قسم کھائی ہے ، بڑی ہی بابرکت راتیں ہیں ، نبی کریمﷺنے اِن مبارک راتوں کو شبِ قدر کے برابر قرار دیا ہے ، چنانچہ حدیث میں ہے : ذی الحجہ کے دن دنوں میں ہر رات کے قیام(عبادت)کا ثواب لیلۃا لقدر کی عبادت کے برابر ہے۔
لہٰذا اِن راتوں کو غفلت اور کوتاہی کا شکار ہوکر گزارنا بڑی نادانی اور خسارے کا سودا ہے اِس میں زیادہ سے زیادہ عبادت کا اہتمام کرنا چاہیئے خصوصاً عشاء اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھنے کا اہتمام تو لازمی کرنا چاہیئے تاکہ حدیث کے مطابق رات بھر کی عبادت کا ثواب مل سکے۔

7⃣ ــــ ساتواں عمل: شبِ عید کا خصوصی اہتمام :
حضرت ابو امامہ سےنبی کریمﷺکایہ اِرشاد منقول ہے:”مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ“۔ترجمہ:جس نے عیدین(یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ) کی راتوں میں ثواب کی امید رکھتے ہوئے عبادت کی اُس کا دل اُس (قیامت کے ) دن مُردہ نہ ہوگا جس دن سب کے دل مردہ ہوجائیں گے۔(ابن ماجہ:1782)
٭…………..٭…………..٭…………..٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *