Click down to read full story
🌷🌷🌷🌷 لاہور جو ایک شہر تھا۔۔۔۔۔
لاہور ناشپاتیوں، سنگتروں، مٹھوں، آڑوؤں، اناروں اور امرودوںکے باغات میں گھرا ہوتا تھا۔ موتیے اور گلاب کے کھیت عام تھے۔ حتیٰ کہ سڑکوں کے اطراف بھی گلاب اُگے ہوتے، جنہیں لاہور کے گردا گرد چلنے والی نہر سیراب کرتی۔ گلاب کے پھول لاہور سے دہلی تک جاتے۔ صحت بخش کھیلوں اور سرگرمیوں کا رواج تھا۔ نوجوان رات دس گیارہ بجے تک گتکا سیکھتے۔ اسکولوں میں گتکے کا باقاعدہ ایک پیریڈ ہوتا۔ تب شیرانوالا کے حاجی کریم بخش لاہور کے مشہور گتکاباز تھے، اور گورنمنٹ کنٹریکٹر موچی دروازہ کے میاں فضل دین مشہور بٹیرباز۔ تقریبات کو روشن کرنے کے لیے حسّا گیساں والا بھی لاہور کی معروف شخصیت تھے۔ خوشی، غمی، جلسوں، جلوسوں، میلوں ٹھیلوں اور شادی بیاہ کی تقریبات حسّا گیساں والے کے گیسوں سے جگمگ کرتیں۔ شادی کی رونق سات سات دن جاری رہتی۔ لاہور میں بناسپتی گھی رائج ہوا تو بہت کم لوگ اسے استعمال کرتے، وہ بھی چھپ کر۔ کوئی شادی پر بناسپتی گھی استعمال کرتا تو برادری روٹھ جاتی۔ جب چائے کا عادی بنانے کے لیے لپٹن والوں نے لاہور میں گھر گھر پکی ہوئی چائے مفت بانٹنا شروع کی تو ساندہ کی عورتوں نے چائے بانٹنے والے سکھ انسپکٹر کی پٹائی کردی۔ تعلیم کی طرف رجحان کا یہ عالم تھا کہ ماسٹر گھر گھر جاکر منتیں کرتے کہ اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کرائو۔ صدی پون صدی قبل کے لاہور کا یہ ماحول تین بزرگ لاہوریوں موچی دروازہ کے حافظ معراج دین، شیرانوالا اور فاروق گنج کے مستری محمد شریف اور ساندہ کے کرنل(ر) محمد سلیم ملک نے ماہنامہ آتش فشاں کے ایڈیٹر منیر احمد منیر کے ساتھ اپنے ان انٹرویوز میں بیان کیا ہے جو کتاب ’’مٹتا ہوا لاہور‘‘ میں شائع ہوئے ہیں۔
ایک سو سات برس قبل 24 فروری1911ء کے روز سرآغاخاں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے جلسۂ تقسیم انعامات کے لیے لاہور ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو لاہوریے ایک پُرجوش اور پُرہجوم جلوس کی صورت میں انہیں ایمپریس روڈ پر نواب پیلس میں لائے۔ ان کی آمد سے پہلے ان پر برسانے کے لیے پھول اکٹھا کیے گئے تو لاہور کے کھیت ویران ہوگئے اور پھول دوسرے شہروں سے منگوانا پڑے۔ یہی صورت 21 مارچ 1940ء کو پیش آئی جب قائداعظمؒ لاہور سیشن میں شرکت کے لیے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو دوسرے شہروں سے بھی پھول منگوائے گئے۔ تب لاہور اگرچہ سیاسی، سماجی اور روایتی جلسوں جلوسوں سے زبردست رونق دار تھا، پھر بھی اس کا سکون، خاموشی اور ٹھیرائو مثالی تھا۔ ’’مٹتا ہوا لاہور‘‘ کے ان انٹرویوز کے مطابق شیر چڑیا گھر میں دھاڑتا تو اس کی گرج لاہور میں گونجتی۔ شہر اس قدر کھلا کھلا تھا کہ موچی دروازہ سے مزار داتا صاحبؒ اور مزار شاہ ابوالمعالی ؒ صاف نظر آتے اور لوگ موچی دروازہ کے باہر کھڑے ہوکر ہی دعا مانگ لیا کرتے۔
بعض جگہوں اور تقریبات کے ناموں میں بھی تبدیلی آچکی ہے۔ چڑیا گھر کو چڑی گھر کہتے تھے۔ کوٹ خواجہ سعید کا نام کوٹ خوجے سعید تھا۔ دسویں محرم یا یومِ عاشور کو گھوڑے والا دن کہتے تھے۔ عید میلاد النبیؐ بارہ وفات کہلاتی۔ حافظ معراج دین کہتے ہیں کہ اس روز جلوس نکالنے کا فیصلہ میں نے، نعمت کدہ کے مہر بِسّا اور مولانا محمد بخش مسلم نے کیا تھا۔ پہلا جلوس 1933ء میں نکلا۔ اس سے پہلے لاہور کی مساجد میں چنوں پر ختم ہوتا۔ باہر بچے کھڑے ہوتے جو نمازیوں کے باہر آنے پر آوازیں لگاتے:’’میاں جی چھولے، میاں جی چھولے‘‘۔ وہ چنے ان میں بانٹ دیے جاتے۔ مستری محمد شریف کہتے ہیں کہ جلوسِ عید میلادالنبیؐ میں لوگ گڈوں پر ہوتے یا پیدل۔ پچاس ساٹھ نوجوان گھڑ سوار برجسیں اور سبز پگڑیاں پہنے آگے ہوتے۔ ان کے پیچھے گتکا کھیلنے والے۔ پھر نعت خواں۔ آخر میں بینڈ والے۔ مستری صاحب کہتے ہیں کہ لاہور میں مسلمانوں کے صرف تین مذہبی جلوس نکلتے تھے۔ عید میلادالنبیؐ، بڑی گیارہویں شریف اور دسویں محرم کے روز، جسے گھوڑے والا دن کہتے تھے۔ اُس وقت کسی کو پتا نہیں تھا شیعہ سنی کا۔ خلقت امڈ کے آتی تھی۔ سنی گھوڑا تیار کرتے، سبیلیں لگاتے، کھانے پکاتے، روشنی کا انتظام کرتے، شیرانوالا اسکول کے ڈرل ماسٹر اور لاہور کی پہلی مگر خاموش فلم ’’ڈاٹرز آف ٹوڈے‘‘ عرف آج کی بیٹیاں کے ہیرو ماسٹر غلام قادر سنی تھے، لیکن گھوڑے کے جلوس کے ساتھ فرسٹ ایڈ کا سامان لے کے چلتے۔ تب لاہور میں بھائی چارہ اور محبت بھرے رویّے عام تھے۔ ایک کی بیٹی سب کی بیٹی، ایک کا داماد سارے محلے کا داماد۔ دکھ اور خوشیاں سانجھی۔ مستری شریف نے گلوگیر لہجے میں کہا: اب وہ وقت نہیں آئیں گے جب کالیے دے کھو پر سویرے سویرے وارثی دیوانہ گاتا’’میرے اللہ کریو کرم دا پھیرا‘‘ تو لوگوں کے آنسو نکل آتے۔ اس کی آواز دور دور تک جاتی۔ لال آندھی چلتی تو مشہور ہوجاتا کہ کہیں کوئی قتل ہوا ہے۔ مستری صاحب لاہور میں نورجہاں جب وہ بے بی نورجہاں تھی، کے ذکر میں کہتے ہیں کہ وہ کالے کپڑے پہن کر نگار سنیما کے اسٹیج پر نعت گاتی تو فوٹوگرافر محمد بخش اس پر لال، نیلی، پیلی لائٹیں مارتا۔ محمد بخش کی شکل جارج پنجم پر تھی۔ جب جارج پنجم کی سلور جوبلی منائی گئی تو اسکول کے ہر بچے کو دیسی گھی کے سواسواسیر لڈو دیے گئے۔
لاہور کی ثقافتی اور روایتی صورت اس قدر بدل چکی ہے کہ برانڈ رتھ روڈ کیلیاں والی سڑک کہلاتی تھی۔ بہ قول محمد دین فوق ’’ یہ کیلے کے درختوں سے ڈھکی رہتی تھی۔ رات تو رات دن میں بھی کسی اکیلے دُکیلے آدمی کا یہاں سے گزرنا خطرے سے خالی نہ ہوتا‘‘۔ شیخ عبدالشکور کہتے ہیں: ’’انارکلی بازار میں نیچے دکانیں تھیں، اوپر طوائفوں کے بالا خانے تھے۔ بعد میں وہاں سے انہیں نکال دیا گیا۔ شاہ محمد غوث کے سامنے جہاں اب وطن بلڈنگ ہے، وہاں عمدہ ناشپاتیوں کا باغ تھا‘‘۔ اخبار وطن کے ایڈیٹر مولوی انشاء اللہ خاں چندے کھولنے میں مشہور تھے۔ اخبار وطن میں 1902ء میں انہوں نے حجاز ریلوے کے لیے چندہ کھولا کہ لاہور سے مدینہ منورہ تک ٹرین چلائی جائے گی۔ ٹرین تو نہ چلی، وطن بلڈنگ بننا شروع ہوگئی۔ لاہوریے پوچھتے تو انہیں جواب ملتا: پہلے ریلوے اسٹیشن تو بن جائے، پھر ٹرین بھی چل جائے گی۔ جو آج تک نہیں چلی۔ حافظ معراج دین کہتے ہیں: ’’جو دو روپے چندہ دیتا، رئیس سمجھا جاتا‘‘۔
دہلی دروازے کے باہر ہر اتوار کو گھوڑوں اور گدھوں کی منڈی لگتی۔ نیلامی ہوتی۔ اندھا گدھا کم قیمت پر بکتا۔ یہیں لاہور کی ککے زئی برادری کے ایک بڑے خان بہادر ملک نذر محمد کا گھوڑوں کا اصطبل تھا۔ خاں بہادر نذرمحمد انسانی حقوق کی معروف علَم بردار عاصمہ جہانگیر کے دادا تھے۔ وہ اپنے دور میں لاہور کی ایک خوشحال اور بڑی معزز و معتبر شخصیت تھے۔ انہیں انگریز نے منٹگمری (اب ساہی وال) میں گھوڑی پال مربعے دیے تھے۔ وصیت کے مطابق انہیں قبرستان شاہ محمد غوثؒ میں دفن کیا گیا۔ یہاں پنجاب کے سرسید ڈپٹی برکت علی، خواجہ عبدالعزیز ککڑو، ہندو بیرسٹر دیناتھ سمیت بڑی نامور شخصیات بھی دفن ہیں یہ تاریخی قبرستان دن دہاڑے اس طرح ختم کردیا گیا ہے کہ اس کے اوپر لینٹل ڈال کر مسجد وہاں تک پھیلا دی گئی ہے۔ قبرستان تک جانے کا کوئی راستہ نہیں رکھا گیا۔
ان کئی جگہوں کا ذکر بھی ہے جو عدم توجہی سے برباد ہوگئیں یا ہورہی ہیں۔ مثلاً شادی لال بلڈنگ، برکت علی محمڈن ہال، لاہور کا پہلا سنیما پاکستان ٹاکیز، علامہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اورپاکستان کی نسبت سے صنوبر سنیما اور یونیورسٹی گرائونڈ وغیرہ وغیرہ۔ تاریخی یونیورسٹی گرائونڈ جہاں قائداعظمؒ نے لاہور کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسۂ عام سے خطاب کیا تھا، اسپورٹس کے حوالے سے بھی ایک یادگار جگہ ہے، جو اورنج لائن میٹرو پراجیکٹ کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ اسی طرح موج دریا روڈ پر جہاں انکم ٹیکس ہائوس ہے وہاں مہاراجا کپورتھلہ کا پُرشکوہ محل تھا۔ 30جنوری1884ء کو سرسید احمد خاںؒ لاہور آئے تو اسی مکان میں ٹھیرے۔ لاہوریوں کو ’’زندہ دلانِ لاہور‘‘ کا لازوال خطاب سرسیدؒ ہی نے اپنے دورۂ لاہور کے دوران میں دیا تھا۔
1926ء میں علامہ اقبالؒ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے لیے کھڑے ہوئے تو لاہور ’’پتلون پوش ولی کو ووٹ دو‘‘ کے نعروں سے گونجتا رہا۔ جیت کے بعد لاہوریوں نے علامہ کے اعزاز میں موچی دروازہ کی تاریخی جلسہ گاہ میں جلسۂ عام کیا۔ اگلی صف میں رستم زماں گاماں پہلوان کو بیٹھا دیکھ کر علامہ نے اسے بھی تقریر کی دعوت دے دی۔ موچی دروازے کی اجڑی اور مٹتی ہوئی اس جلسہ گاہ کے ذکر میں جنرل ایوب کے مقابلے میں مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ صدارتی امیدوار تھیں۔ موچی دروازے کی اسی جلسہ گاہ میں مادرملتؒ کے مقابلے میں اتنا بڑاجلسہ آج تک نہیں ہوا۔ جلسہ گاہ میں ان کی آمد پر لاہوریوں نے پُرزور اور پُرجوش آتش بازی بھی کی۔ کتاب کے مؤلف منیر احمد منیر نے موچی دروازے کے ایک ایسے جلسۂ عام کا بھی چشم دید احوال بیان کیاہے جس میں ایک بھی سامع نہ تھا۔
لاہور کے تاریخی دنگلوں، پہلوانوں، غنڈوں، سیاسی و سماجی تحریکوں اور ان کے نمایاں کرداروں کے علاوہ لاہور کی کئی قدیمی ہندو شخصیات کے ذکر میں بیلی رام تیل والا کی غنڈہ گردی اور ساہوکاربلاقی شاہ کی سودخوری کے واقعات بھی دیے گئے ہیںکہ ممتاز دولتانہ کے والد احمد یار خاں دولتانہ اور مالیرکوٹلہ کے وزیراعظم نواب ذوالفقار علی خاں تک اس کے مقروض تھے۔ اور اس ہندو سرمایہ دار لچھے شاہ کے اعلانِ پاکستان کے بعد دیے گئے اس چیلنج کی تفصیل بھی درج ہے کہ ’’جو شاہ عالمی کو آگ لگائے گا میں اسے بیٹی کا ڈولا دوں گا‘‘۔ حافظ معراج دین کہتے ہیں:مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے جواب میں موچی دروازے والوں نے شاہ عالمی جلادیا لیکن ہم نے اس کی بیٹیوں کی پوری حفاظت کی۔ مستری محمدشریف کہتے ہیں: ہندو عورتیں ساڑی پہنتی تھیں۔ مسلمان عورت کی شناخت برقع تھی۔ لاہور حیاداری سے اس قدر اٹااٹ تھا کہ رات تک نوجوان لڑکے لڑکیاں لاہور کے سرکلر گارڈن میں کھیلتے۔ کوئی لڑکا لڑکی کی طرف بری نظر سے نہ دیکھتا۔ پھل دار درختوں اور پھول دار پودوں سے بھرے ہوئے اس تاریخی باغ میں رات دس گیارہ بجے تک میں نوجوانوں کو گتکا سکھاتا۔ ہریالی اس قدر تھی کہ شیرانوالہ سے ہم داتا صاحبؒ حاضری کے لیے جاتے تو سڑک کو شیشم کے درختوں نے ڈھانپ رکھا ہوتا۔ ہم راستہ چھائوں ہی میں طے کرتے۔ اب وہ دور نہیں آئے گا۔ جب کھوٹ ملاوٹ کا کسی کو پتا ہی نہ تھا۔ جان و مال محفوظ تھی۔ زیورات سے لدی عورت کلکتے سے پشاور تک اکیلی جاتی، کوئی اس کی طرف نظر بھر کے دیکھتا نہ تھا۔
“مٹتا ہوا لاہور” سے کچھ یادیں