لفظ “کہ” کا 19 معانی میں استعمال بمع امثلہ

Click 👇 to read more about the kih “کہ”

*لفظ ” کہ ” کا 19 معانی میں استعمال مع امثلہ*

”کہ” فارسی زبان سے ماخوذحرف ہے۔ اردو میں بطور حرف بیان استعمال ہوتاہے۔

حرف بیانیہ ( واحد )
١ – یہ کسی بات کی وضاحت یا بیان کے لئے جملۂ بیانیہ کے شروع میں آتا ہے۔
“اب منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھ گئی ہو . بولتی کیوں نہیں ہو کہ میں یہ سب کچھ غلط کہہ رہی ہوں” (١٩٨٨ء، تبسم زیر لب، ١٤٠)

٢ – “گویا” “جیسے” کے محل پر۔
 ہوئے ہیں ہر بن موئے مثرہ سے جاری اشک کہ بند کھول دیا، مشک کے دھانے کا (١٨٧٣ء، کلیات قدر، ١٠٥)

٣ – “جو” کے معنی میں۔
“تا ہم جہاں تک وہ خوشی ہے کہ ہمیں حاصل ہوتی ہے۔۔۔۔وہ ایک معین شے ہے” (١٩٢٣ء، اصول اخلاقیات، ٤٨)

٤ – “یا” کی جگہ
 کوئی دیوا جلا کہ آئی صبح کوئی غنیچہ کھلا کہ شام ہوئی (١٩٨٨ء، تارپیراہن، ١٦٤)

٥ – چونکہ کے معنی میں۔
“اب کے ہمارے کام کا یہ جزو ختم وہا ذرا اس نقطہ کا پتہ چلائیں جہاں سے ہم لوگ ادھر مڑے تھے” (١٩٣٣ء، ریاست(ترجمہ) ٤٧٣)

٦ – برائے علت و سبب، کیونکہ، اس لیے کہ،کی جگہ۔
“ہم نے یہ تمام ہدایات نہایت غور سے پڑھیں اور نوٹ کر لیں کہ نہایت اہم تھیں” (١٩٨١ء، دھوپ کنارا، ٢٠)

٧ – “بلکہ” کے معنی میں۔
 ایک میں کیا کہ سب نے جان لیا تیرا آغاز اور تیرا انجام (١٨٦٩ء، دیوان غالب، ١٣٢)

٨ – ربط کے لیے۔
 پوچھا کہ سبب کہا کہ قسمت پوچھا کہ طلب کہا قناعت (١٨٣٨ء، گلزار نسیم، ١٣)

٩ – ناگاہ، اچانک، یکایک، فوراً، اسی دم کے معنوں میں۔
“جہاں ہوا کانوں میں گھسی کہ زکام تمہیں آ لیتاہے” (١٩٥٩ء، وہمی، ٣٤)

١٠ – جملۂ معترضہ کی ابتدا میں
 کس قدر ہرزہ سراہوں کی عیاذًا باللہ یک قلم خارج آداب وقار و تمکیں (١٨٦٩ء، دیوان غالب، ١٣٤)

١١ – کسی بات کا نتیجہ ظاہر کرنے کے لیے۔
“جہاں بد گمانی اور بد خیالی پیدا ہوئی کہ دوستی دشمنی سے بدل گئی” (١٩٤٠ء، حکایات رومی(ترجمہ) ٣١:٢)

١٢ – [ قواعد ] صلہ کے طور پر۔
 حضوری نگاہوں کو دیدار سے تھی کھلا تھا وہ پردہ کہ جو درمیان تھا (١٨٤٦ء، کلیات آتش، ٢٤٣)

١٣ – برائے تقابل( دو چیزوں کی صفات وغیرہ میں)۔
 معلوم ہو چکا ہے دنیا کا راز پھر بھی ہم ہیں کہ ست غفلت، دل ہے کہ بے خبر ہے (١٩١٩ء، انجم کدہ، ١٦)

١٤ – مبادا، کہیں ایسا نہ ہو کے معنی میں۔
“اس بات کا خیال رکھنا کہ سموسے بھاری بھاری کچلوندے نہ ہوں” (١٩٥٦ء، افشان، ٥٥)
١٥ – جب،جس وقت( اب کے بالمقابل)
 ہمیشہ ٹال دیا تم نے حال دل نہ سنا اب آئے سننے کہ طاقت مری زباں میں نہیںحو:١٨٦ء، دیوان سخن، ١٦٢

١٦ – برائے اظہار مقصد، تا کہ کے معنی میں۔
“میں نے ٹوپی اٹھا کر اس طرح سلام کیا کہ. دونوں خوش ہو گئے” (١٩٧٧ء، کرشن چندر، طلسم خیال)
١٧ – برائے تاکید، “پھر بھی”، “بھی” کے معنی میں۔
 بے خبر ہے دلوں سے دور زماں ساز ٹوٹے ہیں رقص ہے کہ رواں (١٩٥٨، دیوان غالب، ٨٨)

١٨ – جس کے سبب، جس کے باعث، جس کی وجہ سے، چنانچہ کی جگہ
 فیض خلق اس کا ہی شامل ہے کہ ہوتا ہے سدا بوئے گل سے نفس باد صبا عطر آ گئیں (١٨٦٩ء، دیوان غالب، ١٣٤)

١٩ – مرکب کلمے میں بطور جزو آخربس، بل، جب، جو، جوں، کیوں وغیرہ کے ساتھ ۔
“ان کو یہ سمجھانا ہو گا کہ دام اقبالہ، چونکہ دم تحریر ہمارا کوئی گواہ یا حمایتی . موجود نہیں تھا” (١٩٨٨ء تبسم زیر لب141۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *