Click 👇 to read more
بڑی دوڑ دھوپ کے بعد وہ آفس پہنچ گیا؛ آج اس کا انٹرویو تھا ۔
وہ گھر سے نکلتے ہوئے سوچ رہا تھا ؛ اے کاش آج میں کامیاب ہو گیا تو فوراً اپنے پشتینی مکان کو خیر باد کہہ دونگا اور یہیں شہر میں قیام کروں گا ؛ اممی اور ابو کی روزانہ کی مغزماری سے جان چھڑا لوں گا ۔۔۔۔۔۔۔!
صبح جاگنے سے لےکر رات کو سونے تک ہونے والی مغز ریزی سے اکتا گیا ہوں بیزار ہو گیا ہوں ۔
صبح غسل خانے کی تیاری کرو تو حکم ہوتا ہے پہلے “بستر کی چادر درست کرو پھر غسل خانے جاؤ “!
غسل خانے سے نکلو تو فرمان جاری ہوتا ہے ” نل بند کردیا ”
تولیہ سہی جگہ پر رکھا ہے یا یوں ہی پھینک دیا ؟
ناشتہ کرکے کے گھر سے نکلنے کا سوچو تو ڈانٹ پڑی ؛ پنکھا بند کیا یا چل رہا ہے ؟
کیا کیا سنیں یار نوکری ملے تو گھر چھوڑ دوں گا –
آفس میں بہت سے امیدوار بیٹھے “باس ” کا انتظار کر رہے تھے ؛ دس بج گئے تھے اس نے دیکھا پیسج کی بتی ابھی تک جل رہی ہے ؛ امی یاد آگئی تو بتی بجھا دی ۔آفس کے دروازے پر کوئی نہیں تھا ؛
بازو میں رکھے واٹر کولر سے پانی رس رہاتھا اسکو بند کردیا والد صاحب کی ڈانٹ یاد آگئی
بورڈ لگا تھا انٹرویو دوسرے منزلے پر ہوگا !
سیڑھی کی لائٹ بھی جل رہی تھی اسے بند کرکے آگے بڑھا تو ایک کرسی سر راہ دکھائی دی اسے ہٹاکر اوپر گیا دیکھا پہلے سے موجود امیدوار اندر جاتے اور فوراً واپس آجاتے تھے ؛ معلوم کرنے پر پتا چلا کے وہ اپلیکیشن لے کر کچھ پوچھتے نہیں ہیں واپس بھیج دیتے ہیں ۔
میرا نمبر آنے پر میں نے اپنی فائل مینجر کے سامنے رکھ دی تمام کاغذات دیکھ کر مینجر نے پوچھا کب سے جوائن کر رہے ہو ؟
ان کے سوال پر مجھے یوں لگا جیسے آج یکم اپریل ہو اور یہ مجھے فول بنا رہے ہیں –
مینجر نے محسوس کر لیا اور کہا اپریل فول نہیں حقیقت ہے ۔
آج کے انٹرویو میں کسی سے کچھ پوچھا ہی نہیں ہے صرف CCTV میں تمھارا برتاؤ دیکھا ہے ۔ سبھی امیدوار آئے مگر کسی نے نل یا لائٹ بند نہیں کی ۔
مبارک باد کے مستحق ہیں تمہارے والدین کہ جنہوں نے تمہیں تمیز اور تہذیب سکھائی ہے ۔
جس شخص کے پاس Self Discipline نہیں وہ چاہے جتنا ہوشیار اور چالاک ہو مینجمینٹ اور زندگی کی دوڑ میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتا ۔
یہ سب ہو جانے کے بعد میں نے پوری طرح یہ طے کر لیا کہ گھر پہنچتے ہی امی اور ابو سے معافی مانگ کر انہیں بتاؤں گا کہ آج اپنی زندگی کی پہلی آزمائش میں انکی چھوٹی چھوٹی باتوں پر روکنے اور ٹوکنے کی باتوں نے مجھے جو سبق پڑھایا ہے ان باتوں کے مقابل میری ڈگری کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔
زندگی کے سفر میں تعلیم ہی نہیں تہذیب کا اپنا مقام ہے
*تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ*
*تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی*