مُلاّں پوُر کا سائیں

Click down to read full story

*مُلاّں پوُر کا سائیں*

اکیسویں شب کا چاند تھک ہار کے غروب ہو چکا تھا- چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا- شیشم ، سفیدے اور کیکر کے طویل قامت درخت بھوتوں کی طرح مجھے گھیرے ہوئے تھے- میں چیچہ وطنی کے تاریک جنگل میں بھٹک رہا تھا-

آس پاس کوئ سڑک یا پگڈنڈی نہ تھی- اس حالت میں نہ تو سمت کا تعیّن ہو رہا تھا نہ ہی کسی منزل کا سراغ ہاتھ آ رہا تھا- پیاس سے میری حالت غیر ہو رہی تھی- پپڑی جمّے ہونٹوں پہ صرف ایک ہی دعا تھی:
“یا رب العالمین- اھدنا الصراط المستقیم”

دُور سے کہیں ریل گاڑی کی کوُک سنائ دی- پرسکوت ویرانے میں اس سے خوبصورت آواز کوئ نہ تھی- حوصلہ ہوا کہ اللہ کی زمین پر تنہا نہیں ہوں- بے شمار مسافر سوئے منزل جا رہے ہیں- میں بھی تو ایک مسافر ہی ہوں- برسوں سے بھٹکتا مسافر- رب تعالی جلد یا بدیر منزل تک ضرور پہنچائے گا-

کچھ ہی دیر میں ریل گاڑی کا شور سنائ دیا- گاڑی کافی دور سے گزری تھی- میں نے آواز کی سمت کان لگا دئے- پھر خوب جانچ کر اسی سمت قدم بڑھا دئے- کانٹے دار جھاڑیوں سے الجھتے الجھتے بالاخر ایک ٹوٹی پھوٹی پگڈنڈی میّسر آ ہی گئ- تاروں کی لو میں گرتا پڑتا اسی پر چلتا رہا-

کوئ نصف گھنٹہ چل چکا تو کسی بس یا ٹرک کا ہارن سنائ دیا- شاید سڑک بھی اسی طرف ہی تھی- درختوں پہ کال کلچھّی نے شور کیا اور گیدڑوں کا ایک غول اچانک ہی سامنے سے نکل کر دوسری طرف جھاڑیوں میں گم ہو گیا- مزید چلنے کی اب مجھ میں سکت نہ تھی- مایوس ہو کر بیٹھنے لگا تو ایک بار پھر ریل گاڑی کی کوک سنائ دی-

اس بار ٹرین زیادہ دور سے نہ گزری تھی- اندازاً نصف کلومیٹر کا فاصلہ تھا- میں نے دوبارہ ہمّت پکڑی – آہستہ آہستہ چلتا رہا- نصف گھنٹہ مزید چلنے کے بعد بالاخر اس ہولناک جنگل کا احتتام ہوا اور میں پٹڑی تک جا پہنچا-

پٹڑی کے ساتھ ساتھ پختہ سڑک چلتی تھی- شاید جی ٹی روڈ تھا- رات کے اس حصّے میں سڑک بھی بالکل سنسان پڑی تھی- میں نے سڑک پار کی تو گھنّے درختوں کے نیچے پانی کی جھلملاہٹ دکھائ دی- یہ نہری پانی کا ایک کھال تھا- میں اس کے کنارے پہ جا بیٹھا- پہلے وضو کیا پھر جی بھر کے گدلا پانی پیا ، اور رب تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا-

کچھ دیر سستانے کے بعد میں اٹھ کھڑا ہوا- جسم کی توّانائ کسی قدر بحال ہو چکی تھی- میں اللہ کا نام لے کر سڑک پر اندازاً مغرب کی سمت چل پڑا- تھوڑا آگے گیا تو بائیں طرف ایک پُلیا نظر آئ- یہاں سے ایک پختہ سولنگ جنوب کی طرف جا رہی تھی- میں نے وہی پکڑ لی اور اللہ کا ذکر کرتے ہوئے چلتا رہا- نجانے کتنی دیر یونہی چلتا رہا بالاخر وہ سولنگ ایک گاؤں میں داخل ہو گئ-

گاؤں میں ہر طرف خاموشی کا راج تھا- شب بھر بھونکنے والے کُتّے بھی تھک ہار کے سو چکے تھے- سولنگ ایک چوک پہ جا کر ختم ہو گئ- قریب ہی ایک مسجد تھی- اس کا مرکزی دروازہ بند پڑا تھا- فجر کی اذان میں شاید ابھی کچھ وقت باقی تھا-

میں نے لکڑی کے گیٹ کو ذرا سا دھکیلا تو وہ کھُلتا ہی چلا گیا- دل کو تسلّی ہوئ کہ ٹھکانہ تو میّسر آیا- صحن کا بلب روشن تھا اور ایک ضعیف العمر بابا وہاں تہجّد پڑھنے میں مشغول تھا-

میں قرانِ پاک رکھنے کو کوئ رحل وغیرہ تلاش کرنے لگا- جب کچھ میّسر نہ ہوا تو مصحف کو گود میں رکھ کے بیٹھ گیا- تھکاوٹ سے بدن چُور ہو رہا تھا- وہیں بیٹھے بیٹھے اشاروں سے دو نفل ادا کئے- پھر آنکھیں بند کر کے رب سائیں کو چٹّھی لکھنے لگا :

” تجھے چٹھیاں تو بوہت لکھیں رب سائیں … آج پہلی بار ایک پارسل بھیجنے کی جسارت کی ہے … اس پارسل میں ایک شاہ ہے … اور تو جانتا ہے یہ کتنا ظالم شاہ ہے … تو یہ بھی جانتا ہے کہ میرا اسے مارنے کا کوئ ارادہ نہ تھا … میں نے تو بس اپنی جان بچائ ہے … تیری حکمت ہے … کبھی چڑیوں کے پیچھے باز لگا دیتا ہے … کبھی چڑیوں کے ہاتھ باز مروا دیتا ہے … تیرا لاکھ لاکھ شکر کہ تو نے میری جان بچائ …. اور اس ظالم کو نیست و نابود کیا … جو یقیناً تیری زمین پر ایک بہت بڑا بوجھ تھا … میں پھر بھی استغفار کرتا ہوں اور اپنی تمام بری خواہشات اور شرور سے تیری پناہ چاھتا ہوں … اور ہر اس خیر کا طالب ہوں جو تو مجھے عطاء کرے … ربّ اِنّی لِما اَنزَلتَ علیَّ مِن خیراً فقیرا …!!”

اس کے بعد میں پرسکون ہو کر بیٹھ گیا اور آنکھیں موند لیں- ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ کندھے پر کسی نے دستِ شفقت آن رکھّا- سر اٹھا کے دیکھا تو وہی تہجد گزار بابا میرے سر پہ کھڑا تھا-
کہنے لگا:

” چڑیوں کے ہاتھ صرف باز نئیں مرواتا … کبھی کبھی ہاتھی بھی مروا دیتا ہے”

میں نے چونک کر اسے دیکھا- اس کی عمر ستّر اسی برس کے قریب تھی- سفید براق داڑھی – سر پہ پرانا سا پٹکا- صاف ستھرا سفید کُرتا اور نیچے نیلے رنگ کی تہمند-

مجھ پہ خوف طاری ہو گیا- میں نے سہم کر کہا :
” آپ نے میری دعا سُن لی ؟”

وہ ہنس کر بولا :

” دعائیں تو رب تعالی ہی سنتا ہے … ہاں جب تیری چٹّھی وہاں پہنچی تو ہم بھی اس کی بارگاہ میں کھڑے تھے … !!”

میں نے کہا:
” پھر تو یقیناً آپ اللہ کے ولی ہیں …!!”

وہ میرے پاس بیٹھتے ہوئے بولا:

” میں تو نوکر ہوں اس کا … اگر تو راوی پار سے آیا ہے تو تیرے لئے بھی ایک نوکری ہے … !!”

میں نے حیرت سے پوچھا:
“نوکری ؟ کیسی نوکری …؟؟”

وہ ہنس کر بولا:
“اسی کی نوکری … جسے تو چٹھیاں لکھتا ہے…. پہلا عاشق دیکھا ہے ، محبوب پاس ہے اور پھر بھی چٹّھیاں لکھتا جا رہا ہے ….. !!”

میں نے کہا ” کیا کروں بابا … جب بہت ہی مایوس ہو جاتا ہوں تو لکھ بیٹھتا ہوں چٹّھی ..اس کی مرضی جواب دے یا نہ دے !!”

وہ میری پیٹھ تھپتھپا کر بولا:

” تیری تمام چٹھیوں کے جواب آئے ہوئے ہیں پُتّر … دیکھ تیری گود میں پڑے ہیں …. !!”

میں نے بے یقینی سے اپنی گود میں رکھّے قران پاک کو دیکھا اور نا سمجھی میں سر ہلا دیا- اس نے میری گود سے قران پاک اٹھایا اور بولا :

” یہ صرف دم درود اور جنّ بھوت بھگانے والی کتاب نئیں … رب تعالی کی لکھی ہوئ چِٹّھی ہے … انسان کے نام …. لوگ اسے کپڑے میں لپیٹ کے طاق پہ دھر دیتے ہیں … پھر جب کوئ تکلیف آتی ہے … تو اس کے سامنے شکوے کھول کے بیٹھ جاتے ہیں … اسے ترجمے سے پڑھا کر … جوں جوں سمجھ آئے گا … تیرے ہر خط کا جواب ملتا جائے گا …!! “

میں نے کہا ” میں ضرور پڑھوں گا بابا جی … ترجمے سے پڑھوں گا … کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کا رتبہ کیا ہے؟ آپ غوث ہیں ، خواجہ یا قطب … ؟؟”

وہ ہنس کر بولا:
” عہدہ پوچھ کے کیا کرے گا- یہ عہدے تو دنیا والوں نے گھڑ رکھّے ہیں- فلاں غوث ہے فلاں قطب- اصل میں سب نوکر ہی ہیں اس ذات کے- کوئ وڈّا نوکر کوئ نِکّا نوکر- غلام رسول نام ہے میرا … لوگ بابا ڈاکیا کہتے ہیں …!!”

پھر وہ بزرگ چوکڑی مار کے میرے سامنے بیٹھ گئے اور بولے:

” 30 سال تک اسی گاؤں میں ڈاک تقسیم کرتا رہا ہوں … خط … منی آرڈر رجسٹریاں … گرمی سردی دھوپ بارش ہر آن ڈیوٹی نبھائ … یہاں ایک غریب بڑھیا تھی … ست جوائ نام تھا اس کا … ایک ہی بیٹا تھا اس کا جو شہر میں نوکری کرتا تھا … اسے ہر مہینے منی آرڈر بھیجتا تھا … وہ لڑکا باغی ہو گیا … وہیں شہر میں کہیں شادی کر لی اور ماں کو بھول گیا … ست جوائ وِچاری رُل گئ … ہر مہینے مجھ سے پوچھتی …. نورمحمّد کا کوئ منی آرڈر آیا ؟… میں جُھوٹ مُوٹ کہتا … ہاں بی بی آیا ہے … پھر اپنی تنخواہ سے کچھ نہ کچھ پیسے اسے پکڑا دیتا اور جھوٹ موٹ اس کا انگوٹھا لگواتا … جب تک وہ زندہ رہی …. اس کی مدد کرتا رہا … بس اتنی سی بات پہ رب سائیں نے نوکر رکھ لیا … اچھی بھلی تنخواہ دیتا ہے … ضرورت سے کہیں زیادہ … واپس اسی کے بینک میں ڈال دیتا ہوں … تو کرے گا اس کی نوکری ؟ … ایک سیٹ آج ہی خالی ہو رہی ہے؟؟ “

میں نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا ” کیا نوکری ہے بابا جی؟”

وہ بولا ” مخلوق کی خدمت- اس کے کنبے کا خیال رکھنا- بس یہی نوکری ہے اس کی … بہت کم لوگ یہ نوکری کرتے ہیں … اور جو کرتے ہیں … ہمیشہ بھلے میں رہتے ہیں … یہاں سے بہت اوپر … آسمانوں پہ اس کا بینک ہے … بے شمار لوگوں نے وہاں اکاؤنٹ کھول رکھّے ہیں … ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائ سب کے اکاؤنٹ ہیں وہاں … ان کے بھی جو اسے مانتے تک نہیں … سب کو برابر نفع دیتا ہے وہ لیکن … ایمان والوں کو سب سے زیادہ دیتا ہے … ستّر گُنا …. دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی !!”

میں نے مایوسی سے کہا:

” میرا اکاؤنٹ کیسے کھل سکتا ہے بابا … میرے پاس تو پھوٹی کوڑی نہیں …؟”

وہ بولا ” جو شخص دوسروں کا دکھ درد محسوس کرتا ہے … اس کا اکاؤنٹ آپو آپ ہی کھل جاتا ہے … تم اس کی مخلوق کا درد رکھتے ہو … بس ٹوٹے دلوں کو ڈھارس دو … وہ رزق بڑھا دے گا … پھر جو منافع ملے … اسی کے نام پہ لٹا دو … وہ اور زیادہ دے گا … یوں منافع کا یہ چکر چلتا رہے گا … باقی یہ کلمہ … نماز … روزہ … زکواة … حج … یہ صرف اشٹام ہے … تیری مسلمانی کا … لوگ اشٹام تو لئے پھرتے ہیں … اکاؤنٹ خالی ہے … اصل زر تو انسانیت کی خدمت ہے …. !!”

اسی دوران مؤذن نے فجر کی اذان دے دی- بابا نے مجھ سے ہاتھ ملایا پھر خاموشی سے اٹھا اور اگلی صف پہ جا کے سنتیں پڑھنے لگا-

نماز کے بعد میں کافی دیر مسجد میں بیٹھا رہا کہ شاید بابا سے دوبارہ ملاقات ہو- لیکن وہ نہ آیا- شاید خاموشی سے کھسک گیا تھا- آہستہ آہستہ نمازی اٹھتے گئے اور مسجد خالی ہو گئ-

میں ستون سے ٹیک لگا کے بیٹھ گیا- شب بھر کا جاگا ہوا تھا بہت جلد آنکھ لگ گئ- نجانے کتنی دیر سویا رہا- پھر اچانک محسوس ہوا جیسے کسی نے مدد کےلئے پکارا ہو-

میری آنکھ کھل گئ- آواز باھر سے آئ تھی- بھاگ کے صحن میں پہنچا تو ایک نوجوان وضوخانے کے پاس گرا پڑا تھا- میں اس کی مدد کو آگے بڑھا-
وہ بولا ” مجھے بس میری بیساکھیاں پکڑا دو …. وضو کرتے ہوئے گر گیا ہوں … ”
میں نے اسے بیساکھیاں پکڑائیں اور پوچھا “کیا ہوا ہے تمہیں”
وہ بولا ” گینٹھیا کا مریض ہوں … نماز کو دیر ہو رہی تھی … وضو کرنے لگا تو پاؤں پھسل گیا …. خدا کا شکر کہ کوئ چوٹ نہیں آئ …!!”

میں نے اسے سہارا دیا اور مسجد کے اندر لے آیا- پھر اسے نماز والی کرسی پہ بٹھا کر کہا ” سورج نکلنے میں دس پندرہ منٹ باقی ہیں .. آرام سے پڑھ لو .. میں رب تعالی سے تمہاری صحت یابی کی دعا کرتا ہوں …”

وہ نوجوان نماز پڑھ چکا تو میں اس کے قریب ہوا اور کہا:
” تم آنکھیں بند کر کے درود شریف پڑھو … میں تمہیں دم کرتا ہوں “

اس نے میری ھدایت پہ عمل کیا اور آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا- میں اس کے گھٹنوں پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے سورہ فاتحہ کا دم کرنے لگا-

تھوڑی دیر بعد میں نے کہا:
” آنکھیں کھول لو … اب تم بالکل ٹھیک ہو … گھٹنوں پہ آہستہ آہستہ وزن ڈالو …کھڑے ہونے کی کوشش کرو … !!”
وہ بولا ” میں گر جاؤں گا”
میں نے کہا ” ان شاءاللہ بالکل نہیں گرو گے … یقین رکھو”

اس نے کوشش کی اور آہستہ آہستہ اٹھ کھڑا ہوا- پھر حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا:
” درد تو واقعی نہیں ہو رہا … آپ ہاتھ پکڑو …. میں چلنے کی کوشش کرتا ہوں”
میں نے کہا ” ہاتھ پکڑنے کی اجازت نہیں … تم بالکل ٹھیک ہو … بیساکھیاں ادھر ہی چھوڑو … اور گھر چلے جاؤ”

وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے ڈر ڈر کے چلنے لگا- میں نے اس کی کمر تھپتھپائ اور کہا ” چلو چلو … شاباش … جلدی چلو”
اس نے قدم اٹھائے اور قدرے بہتر چلنے لگا- پھر مڑ کر مجھے حیرت سے دیکھا اور مسجد سے باہر نکل گیا-

سورج نکل آیا تھا- میں نے وضو کر کے اشراق پڑھی اور وہیں مسجد کی صف پہ لیٹ گیا- ابھی آنکھ ہی لگی تھی کہ اسپیکر کی ٹھک ٹھک سے پھر کھل گئ- خادم مسجد مائک تھامے “ایک ضروری اعلان” کر رہا تھا …..

” غُلام رسول ڈاکیا … رضائے الہی سے فوت ہو گیا ہے … جنازے کا اعلان بعد میں کیا جائیگا …!! “

اب سونا فضول تھا- بابا ڈاکیا اپنی سیٹ چھوڑ کر رب کی جنّتوں میں جا چکا تھا- اب اس سیٹ پر مجھے بیٹھنا تھا- یہ نوکری مجھے ہی کرنا تھی- ایک ایسی نوکری جسے موت تک مجھے بخوشی نبھانا تھا-

نقل و چسپاں
————————————————————-

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *