Click down to read full story
*کافر چڑیاں——-*
بسنت کمار نے ہٹی کو تالہ لگایا اور باجرے سے بھرا تھیلا اٹھا کر گاوں کے بازار میں لگے آم کے درخت کی جانب روانہ ہوا. اس کے ہر قدم کے ساتھ چڑیوں کے چمبہ کھیتوں کی طرف سے اڑتا ہوا بازار کی فضاؤں میں داخل ہوا. جوں ہی بسنت کمار نے درخت پر چڑھنا شروع کیا سارے گاؤں کی چڑیاں درخت پر آ بیٹھیں. کچھ بے صبر چڑیا اس کے سر اور کندھوں پر پھدکنے لگیں. جیسے جیسے وہ درخت پر چڑھتا گیا ویسے ویسے وہ چڑیوں سے ڈھکتا گیا. سڑک سے گزرتے لوگ ساکت یہ نظارہ دیکھ رہے تھے. بسنت کمار چڑیوں سے باتیں کرتا انہیں خود سے دور رہنے صبر کرنے کو کہتے درخت پر جھولتی کھجور کے پتوں سے بنی ٹوکری تک جا پہنچا. پھر اس نے کندھے سے لٹکے تھیلے سے باجرہ اس ٹوکری میں انڈیل دیا. اک شور برپا ہوا. چڑیاں ٹوکری پر ٹوٹ پڑیں اور بسنت کمار کے سر بازوں اور کندہے ان کی گرفت سے آزاد ہو گے. وہ کچھ دیر وہاں رک ان سے باتیں کرتا رہا.
اس نے چڑیوں کے نام بھی رکھے ہوے تھے. ناموں سے پکار کر انہیں شرارتوں بے صبرے پن اور دوسروں کو چگنے کو جگہ دینے کو کہتا رہا. اس کے چہرے پر ایسی خوشی تھی جیسے کوئی اپنی اولاد کو کھاتے ہوئے دیکھ کر خوش ہو. وہ دھیرے دھیرے درخت سے اترا اور اپنی دوکان کی طرف جانب ہوا. چڑیوں نے جی بھر کر دانا چگا اور دوکان جاتے بسنت کمار کے سر پر اڑ تے ہوے اس کا شکریہ ادا کرنے لگیں. مغرب کی اذان شروع ہو گئی. اندھیرا چھانے لگا تو چڑیوں کے چمبے آم کے درخت سے اڑے اور اپنے اپنے گھونسلوں کی راہ لی.
رحیم گڑھ کا یہ چھوٹا سا گاؤں پہلے “رام گڑھ” کے نام سے جانا جاتا تھا. انڈیا کی سرحد سے قریب ہونے کی وجہ سے یہ ہندو بنیوں کا گڑھ تھا. بنارس کی ساڑھیاں ہوں یا لکھنو کے پان کا پتہ ہر چیز کا خوب کاروبار ہوتا.
گاؤں میں چند مسلمان خاندان بھی آباد تھے جن کی اکثریت ہندو بنیوں کی دوکانوں میں کام کرتی یا وہ ان کی زمینوں پر مزارعے تھے. بیج. ہل ,پانی, سب ہندوں بنیے مہیا کرتے تو مسلمان اپنی محنت سے زمین کا سینہ چیر کر اناج اگاتے. اناج راجستان اور تھر کے صحرائی علاقوں کے بیوپاریوں کو بیچ کر ہندو ہزاروں روپے کماتے تو مسلمانوں کو اس کے بدلے سال بھر کا اناج کپڑا لتا گھی شکر ملتا. یوں گاؤں کےلوگ صبر شکر کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے.
بسنت کمار کا والد پرتیم کمار گاؤں کے واحد مندر کا مہاراج تھا. بالکل اسم با مسمی. وہ ہر انسان سے پریم سے پیش آتا اور نہایت سخی انسان تھا. ہندو مسلم کا فرق کیے بنا ہر غریب کی مدد کرتا. گاؤں میں آیا ہر مسافر اس کا مہمان ہوتا. انسانوں کے ساتھ ساتھ وہ پرندوں کا بھی بے حد خیال رکھتا. یہ اس کی عادت تھی کہ وہ سرشام آم کے پرانے درخت پر چڑیوں کو دانہ ڈالا کرتا. ایک روز شدید بارش ہو رہی تھی. کچھ دیر بارش تھمی تو چڑیاں دوکانوں اور مکانوں کی منڈیروں پر آ بیٹھیں. وہ پرتیم کمار کے آنے کا انتظار کر رہی تھیں مگر صبح سے ہی پریتم کمار کو بخار تھا. جب وہ درخت پر دانہ ڈالنے نہ آیا تو چڑیوں نے اس کے مکان اور مندر پر بیٹھ کر ایسا شور مچایا کہ پرتیم کمار کا دل پسیج گیا. وہ بمشکل اٹھا. تھیلا باجرے سے بھرا اور گھر سے نکل آیا. چڑیوں نے اسے آتا دیکھا تو سارا آسمان چڑیوں سے ڈھک گیا. بیمار پریتم کمار بمشکل درخت پر چڑھا. دانہ ڈالا مگر اترتے ہوے گیلے درخت سے پھسل کر زمین پر آ گرا. طبیب کو جاتے ہوے راستےمیں ہی پریتم کمار نے دم توڑ دیا.
اس رات اندھیرا ہونے کے بعد بھی چڑیاں گاؤں کے آسمان میں اڑتی رہیں. مندر اور مہاراج پریتم کے گھر کے در و دیوار ہر بیٹھی سینہ کوبی کرتی رہیں. اپنے آشیانوں کا رخ نہ کیا.
مہاراج کا کریہ کرم کرتے ہی شام کو اس کے چھوٹے بیٹے بسنت کمار نے اناج کا تھیلا اٹھایا اور درخت پر جا چڑھا. اس کی عمر کوئی دس سال ہو گی. چند دنوں بعد….
پاکستان اور ہندوستان دو الگ الگ ملک بن گے اور “رام گڑھ” کا یہ چھوٹا سا گاؤں پاکستان کے حصے میں آنے سے “رحیم گڑھ” بن گیا. اس رات مندر میں تمام ہندوں کا اجلاس بلوایا گیا اور بحث مباحثے کے بعد امیر ہندو بنیوں نے گاؤں سے چند کلومیڑ دور انڈیا کی سرحد کے اس پار نیا “رام گڑھ” بسانے کا مشورہ دیا. انڈین پنجاب سےلٹے پٹے مسلمان سرحد پار کر کے اس طرف آ رہے تھے. ان پر ہندوں اور سکھوں کی جانب سے روا رکھا جانے والا سلوک دیکھ کر مسلمانوں کی آنکھوں میں خون اتر ہوا تھا. دانش مند ہندؤں نے بدلتے حالات دیکھتے ہوے راتوں رات اپنے کاروبار سمیٹے گھروں کے کواڑوں سے لپٹ لپٹ کر انہیں الوادع کہا اور صبح صادق سے پہلے سرحد پار کر گئے. حکومت نے ان کے گھر مہاجر مسلمانوں کو الاٹ کر نے کا عندیہ دیا تومہاجر مسلمان اپنی اپنی پسند کے مکانوں پر قبصہ کرنے کو ہر گھر میں گھس کر جائزہ لے رہے تھے. جب ہی سارے گاؤں میں شور مچ گیا ” بسنت کمار انڈیا نہیں گیا. بسنت کمار انڈیا نہیں گیا”
لوگوں نے دس سالہ بسنت کمار کو اس کے گھر سے باہر نکالا اور گھیر کر بازار میں لے آے. آم کے پیڑ کے قریب ایک مجمع لگ گیا. مہاجر مسلمان ہاتھوں میں تلواریں لیے اس کی گردن اڑانے کو بے چین ہو رہے تھے. گاوں کے بزرگ نوجوانوں کو ان کے ناپاک ارادوں سے روک رہے تھے.
چاچا بشیر جو بسنت کمار کے والد کی دوکان میں کام کیا کرتا تھا مجمع چیرتا ہوا آگے بڑھا اور ڈرے سہمے بسنت کمار کو سینے سے لگاتے ہوے پوچھا:
” بیٹا… تم کیوں نہیں گئے اپنے بھایوں کے ساتھ؟ ”
“ چاچا… اگر میں چلا جاتا تو چڑیوں کو دانہ کون ڈالتا. ابا کی راکھ اور چڑیوں کو کیا جواب دیتا ”
.بسنت کمار نے روتے ہوے جواب دیا.
بسنت کمار کا جواب سن کر حمیدے بدمعاش نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوے اعلان کیا:
” بسنت کمار کا مکان اس کے بھایوں کی دوکان اور مندر کو کسی نے ہاتھ بھی لگایا تو وہ ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے”
سالوں سال گزر گے.
حمیدا بدمعاش پولیس مقابلے میں مارا گیا. بسنت کمار نے سرحد پار آباد نئے رام گڑھ کی نیلم کماری سے شادی کر لی. اس کا کاروبار خوب چل نکلا کیونکہ ابھی دونوں ملکوں کی سرحدوں سےسامان اور بیوپاری با آسانی آ جا سکتے تھے. کاروبار اچھا ہو گیا. اللہ پاک نے آل اولاد بھی دی تو زندگی مصروف ہو گئی مگر بسنت کمار نے چڑیوں کودانہ ڈالنا نہ چھوڑا.
آج جب بسنت کمار دانہ ڈال کر واپس پلٹا تو کسی نے اطلاع دی کہ ایودیا میں مسلمانوں کی پرانی مسجد کو ہندؤں نے شہید کر دیا ہے. رات ہوتے ہوتے شہر کی طرف آگ کا دھواں پھیلنے لگا. رحیم گڑھ کے نوجوانوں نےبازار بند کروا دیا. ان کی آنکھیوں میں خون اترا ہوا تھا. کچھ لوگ تانگے پر اسپیکر لگاے نوجوانوں کا جوش بڑھاتے ہوے کل بہت بڑی ریلی لے کر شہر میں موجود ہندوں اور مندروں پر حملوں کی کھلے عام دھمکیاں دے رہے تھے. نیلم کماری نے جب یہ سنا تو جلدی جلدی بیٹے کو بھیج کر بسنت کمار کو گھر بلوا لیا. ساری رات گاؤں میں انتقام کی آگ میں جلتے نوجوان دندناتے رہے. نیلم کماری نے بسنت کمار اور اپنے بچوں کو باہر نہ نکلنے دیا. صبح کی نماز کے بعد نوجوانوں کی ٹولیاں شہر جانے کو تیار ہوئیں تو کسی شرپسند نے مندر پر پتھر اچھالا. پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے لوگ مندر پر ٹوٹ پڑے. کھڑیاں دروازے توڑنے کے بعد آگ لگا دی گی. بزرگوں کے لاکھ روکنے کے باوجود لوگ بسنت کمار کی دوکان لوٹنے لگے. اسی دوران چند شر پسند نوجوان اس کے گھر کی طرف بڑھے اور اندر سے کنڈی لگا دروازہ توڑنے کی کوشش کرنےلگے. امام مسجد نوجوانوں کو روکنے کو آگے بڑھے تو انہیں پیٹا گیا مگر وہ اور ان کے دو چار نمازی ساتھی بسنت کمار کے دروازے کے سامنے ڈٹے رہے. ان کے کپڑے پھٹ گئے. پتھر لگنے سے سر خون خون ہوے مگر انہوں نے نوجوان کو دروازہ نہ توڑ دیا. کسی نے مجمع کو وقت ضایع نہ کرنے کا کہتے ہوے جلدی جلدی شہر چلنے کا کہا کیونکہ وہاں بہت سی دوکانیں اور ہندوں کے گھر ان کی تسکین کو موجود تھے. یہ سننے ہی مجمع شہر کی طرف بڑھ گیا. شرپسندوں کے چلے جانے کے بعد مولوی صاحب نے بسنت کمار کو امن کا یقین دلاتے ہوے دروازہ کھولنے کا کہا تاکہ اسے اور اس کے بیوی بچوں کو اپنے گھر لے جا کر شرپسند کی شرارت سے محفوظ رکھ سکیں مگر گھر سے کوئی جواب نہ ملا. ایک بچے نے دیوار پھلانگ کر اندر سے لگی کنٹی کھلولی:
“ بہن پردہ کر لو.. ہم اندر آ رہے ہیں” یہ کہتے ہوے مولوی صاحب اپنے دوستوں کے ہمراہ گھر میں داخل ہوے مگر گھر پر کسی مرگھٹ جیسی خاموشی طاری تھی. ہر کمرہ دیکھ مارا مگر نہ بسنت کمار ملا اور نہ اس کے گھر کا کوئی دوسرا فرد.
“خدا جانے کہاں چلے گئے”
مولوی صاحب نے پریشانی سے بولے.
“کھتیوں میں یا کسی دوست کے گھر پناہ لے لی ہوگی”
ساتھ والے شخص نے جواب دیا.
ادھر مجمع نعرے لگاتا شہر کو بڑھ رہا تھا مولوی صاحب نے عصر کی اذان دی. کچھ ہی دیر بعد گاؤں کی چڑیوں کے غول کے غول آم کے درخت پر منڈلانے لگے. ہر دیوار ہر چھت پر چڑیاں بے صبری سے بسنت کمار کا انتظار کر رہیں تھیں. ان کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی. وہ گاوں کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اڑ رہی تھیں. وہ بسنت کمار کو ڈھونڈ رہی تھیں. مولوی صاحب نماز پڑھا کر مسجد سے نکلے اور شہر پر اڑتی چڑیوں کی پریشانی دیکھ کر آم کے درخت کی طرف چلے آے کہ بسنت کمار دانہ ڈالنے آتا ہی ہو گا کیونکہ پچاس پچپن سال سے کوئی بیماری غمی یا خوشی ایک دن اس سے ناغہ نہ کروا سکی تو وہ کہیں بھی چھپا ہو دانہ ڈالنے ضرور آے گا. چڑیاں مندر کی دیواروں پر بین کر رہیں تھیں. چڑیوں کا شور سن کر سب گاؤں والے بھی درخت کےقریب جمع ہو گئے. مولوی صاحب جوں ہی آم کے پیڑ کے قریب پہنچے تو ایک لڑکا ان کی طرف بڑھا اور ہاتھ میں تھاما رقعہ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا:
“ میں بسنت کمار کے بیٹے کا دوست ہوں وہ کل رات مجھے یہ رقعہ آپ کے لیے دے گیا تھا:
” میں بہت شرمندہ ہوں مولوی صاحب … بات اگر میری زندگی کی ہوتی تو کبھی یوں چڑیوں کو چھوڑ کر نہ جاتا. میری جوان بیٹی ہے نیلم کماری نے میرے پیر پکڑ کر مجھے راتوں رات سرحد پار کر کے رام گڑھ چلنے کو راضی کیا ہے. مجھے معاف کر دینا”
مولوی صاحب نے با آواز بلندرقعہ پڑھا. اک دم سارے گاوں کی چڑیاں اڑیں اور گاؤں پر ایک دو چکر لگاے. آسمان سے بین کرنے کی آوازیں آ رہیں تھیں. جیسے تقسیم کے وقت جاتے ہندوں اپنے گھروں کے کواڑ تھامے بین کر رہے تھے ایسا لگتا جیسے چڑیاں ان درختوں ان کھیتوں سے رخصت مانگ رہی ہیں. پھر چڑیوں کے غول کے غول سرحد کے پار بسے ” رام گڑھ ” گاوں کی طرف اڑ تے چلے گئے.
“ اچھا ہوا کافر بسنت کمار گیا اور اس کے پیچھے یہ کافر چڑیاں بھی ہندوستان چلی گئیں”
مجمعے میں سے کسی نے قہقہہ لگاتے ہوے کہا—–
*عالمی افسانہ میلہ 2018*