گوشئہ تنہائی میں ایک تجربہ

Click here to read more

*گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر یہ تجربہ ضرور کریں*
“`

(ایک فکر انگیز تحریر۔ رائٹر کا نام مجھے معلوم نہیں۔ جس نے بھی لکھی اللہ اسے جزائے خیر عطا فرمائے۔)
آئیے آج ایک تجربہ کر کے دیکھیں ۔ دس منٹ کے لئے کاغذ قلم لے کر گوشہ تنہائی میں بیٹھ جائیے

سب سے اوپر اس دن کی تاریخ لکھئے اور پھر اس میں ان تمام نعمتوں کا اندراج کرنا شروع کر دیجئے جو آپ کو میسر ہیں۔ یقیناً آپ سب کچھ تو نہیں لیکن بہت کچھ شمار کر سکتے ہیں

اپنی ذات سے آغاز کیجئے : مجھے میرے رب نے اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔ میں دیکھ سکتا ہوں ۔ سن سکتا ہوں ۔بول سکتا ہوں ۔ چل سکتا ہوں ۔لکھ سکتا ہوں ۔ پڑھ سکتاہوں ۔ سانس لے سکتا ہوں ۔ عقل و سمجھ رکھتا ہوں ۔ کھا پی سکتا ہوں۔ وغیرہ

اب اپنے کمرے کا جائزہ لیجئے : پنکھا لگا ہوا ہے جو ہوا دے رہا ہے ۔ ایئر کنڈیشنر لگا ہوا ہے جو گرمی کی شدت محسوس ہی نہیں ہونے دے رہا ۔ لائٹ لگی ہوئی ہے جس سے روشنی نکل رہی ہے ۔ بجلی آ رہی ہے ۔ آرام دہ بستر موجود ہے ۔ اوڑھنے کو نرم ملائم کمبل میسر ہے ۔ الماری میں متعدد بیش قیمت اور آرام دہ ملبوسات موجود ہیں ۔ کئی جوڑی جوتے، چپل ، سینڈل موجود ہیں ۔ ڈریسنگ ٹیبل پر طرح طرح کے پرفیومز اور کریمز کا انبار موجود ہے ۔ لیپ ٹاپ موجود ہے جس پر میں نہ جانے کیا کیا کر سکتا ہوں ۔ ایک کِلک سے دنیا جہان کی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتا ہوں ۔ موبائل فون موجود ہے جس پر لمحوں میں گھر بیٹھے ہی دنیا کے کسی بھی گوشے میں رابطہ کر سکتاہوں

کمرے کے ساتھ ہی واش روم موجود ہے ۔ غسل اور طہارت کے حصول کے تمام اسباب موجود ہیں ۔ صابن ، شیمپو ، کنڈیشنر ، شاور جیل ، تولیہ وغیرہ سب کچھ موجود ہے ۔ نت نئے ڈیزائنز کے چمچماتے ہوئے نلکے لگے ہوئے ہیں ۔ جن میں پانی آ رہا ہے ۔ اس پانی پر ہی غور کیجئے

ایک نلکے سے ٹھنڈا پانی نکل رہا ہے تو دوسرے میں گیزر سے گرم پانی آ رہا ہے ۔یہ پانی کہاں سے آ رہا ہے ؟اوپر ٹنکی سے ۔ اور اوپر ٹنکی میں کیسے جا رہا ہے ؟پانی کی موٹر سے ۔ جو کہ درست کام کر رہی ہے ۔ زیر زمین ٹینک میں بھی پانی بھرا ہوا ہے

کمرے سے باہر دیگر کمرے ہیں ۔ ڈرائنگ روم میں قالین ، میز، صوفے ، پردے اور دیگر اشیاء موجود ہیں ۔ ساتھ ہی آرائش کا بہت سا سامان رکھا ہوا ہے ۔ سب کچھ نگاہوں کو کتنا بھلا لگ رہا ہے

باورچی خانے کا جائزہ لیجئے : چولہا لگا ہوا ہے جس میں گیس آ رہی ہے ۔ یہ گیس کہاں سے آ رہی ہے ۔ سینکڑوں میل دور گیس کا کنواں ہے لیکن میں اپنے گھر پر چولہے کا ناب گھماتاہوں اور گیس آنے لگ جاتی ہے ۔ بے شمار قسم کے برتن موجود ہیں ۔ کھانے کی پلیٹیں ، پیالیاں ،پیالے ، چمچے، چھریاں ، کانٹے ، ڈونگے ، بھگونے وغیرہ ۔ پھر کیبنٹس میں کیا کیا جمع کر کے رکھا ہوا ہے ۔ دالیں ، آٹا ، گھی ، تیل ، چاول ، مصالحہ جات ، چائے کی پتی ، چینی ، دودھ وغیرہ

فریج میں کیا کیا موجود ہے ۔ ٹھنڈا پانی ، کولڈ ڈرنک، مشروبات، مکھن ، پنیر ، کیچپ ، اچار ، چٹنیاں ، گوشت ، چکن ، مچھلی وغیرہ ۔ طرح طرح کے کھانے پکا سکتے ہیں ۔ انواع و اقسام کے ذائقے موجود ہیں۔ بریانی ، قورمہ ، پیزا، برگر ، پلاوَ ، نہاری ، کڑاہی گوشت ، بروسٹ وغیرہ

گھر کے باہر گاڑی یا موٹرسائیکل یا دونوں موجود ہیں ۔ ان کو چلانے کے لئے ایندھن گیس پٹرول وغیرہ دستیاب ہے ۔ جب جہاں جی چاہتا ہے ، چلا جاتا ہوں ۔ بسوں، رکشہ ٹیکسی کے جھنجھٹ سے آزاد۔ پھر گھروالے ، بیوی بچے، اچھی ملازمت، اعلیٰ تعلیم، دوست احباب وغیرہ وغیرہ ۔ کیا کیا کچھ میسر ہے !

کیا یہ سب کچھ ہر کسی کو میسر ہے ؟ صرف دس منٹ کی اس مشق سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آپ کو کون کون سی اور کتنی نعمتیں حاصل ہیں

اتنا سب کچھ میسر ہونے کے باوجود بھی باری تعالیٰ کا شکر ادا نہ کرنا، اس کی عبادت و بندگی اختیار نہ کرنا ، اور کڑوے خربوزے کی مانند اک ذرا سی مصیبت پر بلبلا جانا ، چلّا اٹھنا ، اسے کیا کہا جائے سوائے ناشکری کے ؟یہ دنیا راہگزر ہے ، منزل نہیں۔ ہم بہت مختصر سے وقت کے لئے دنیا میں بھیجے گئے ہیں

ذرا سوچئے ! کیا ہم اس بات کے متحمل ہو سکتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں میسر نہیں ہے اس پر افسوس کرنے میں یہ مختصر سی زندگی گنوا دیں ؟ تو کیوں نہ ایسا کر لیا جائے کہ جو کچھ ہمیں میسر ہے ، اس ہی پراپنے رب کا شکر ادا کریں اور اس کے شکر گزار بندے بن جائیں کہ وہ شکر گزار بندوں کو پسند کرتاہے.“`

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *