Click down to read more
کوئی شوہر اپنی بیوی سے پاگل پن کی حد تک پیار کیسے کر سکتا ہے؟
__________________
(ایک عربی پوسٹ کی اردو ترجمانی)
ایک بوڑھی خاتون کا انٹرویو جنہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ پچاس سال کا عرصہ پرسکون طریقے سےہنسی خوشی گزارا
خاتون سے پوچھا گیا کہ اس پچاس سالہ پرسکون زندگی کا راز کیا ہے؟ کیا وہ کھانا بنانے میں بہت ماہر تھیں؟ یا پھر ان کی خوبصورتی اس کا سبب ہے؟ یا ڈھیر سارے سارے بچوں کا ہونا اس کی وجہ ہے یا پھر کوئی اور بات ہے؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا : پرسکون شادی شدہ زندگی کا دار و مدار اللہ کی توفیق کے بعد عورت کے ہاتھ میں ہے، عورت چاہے تو اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے اور وہ چاہے تو اس کے برعکس یعنی جہنم بھی بنا سکتی ہے.
اس سلسلے میں مال کا نام مت لیجیے، بہت ساری مالدار عورتیں جن کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے، شوہر ان سے بھاگا بھاگا رہتا ہے
خوشحال شادی شدہ زندگی کا سبب اولاد بھی نہیں ہے، بہت ساری عورتیں ہیں جن کے دسیوں بچے ہیں پھر بھی وہ شوہر کی محبت سے محروم ہیں بلکہ طلاق تک کی نوبت آ جاتی ہے
بہت ساری خواتین کھانا پکانے میں ماہر ہوتی ہیں، دن دن بھر کھانا بناتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں شوہر کی بدسلوکی کی شکایت رہتی ہے
انٹرویو لینے والی خاتون صحافی کو بہت حیرت ہوئی، اس نے پوچھا : پھر آخر اس خوشحال زندگی کا راز کیا ہے؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا : جب میرا شوہر انتہائی غصے میں ہوتا ہے تو میں خاموشی کا سہارا لے لیتی ہوں لیکن اس خاموشی میں بھی احترام شامل ہوتا ہے، میں افسوس کے ساتھ سر جھکا لیتی ہوں. ایسے موقع پر بعض خواتین خاموش تو ہو جاتی ہیں لیکن اس میں تمسخر کا عنصر شامل ہوتا ہے اس سے بچنا چاہیے، سمجھدار آدمی اسے فوراً بھانپ لیتا ہے
نامہ نگار خاتون نے پوچھا : ایسے موقعے پر آپ کمرے سے نکل کیوں نہیں جاتیں؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا : نہیں، ایسا کرنے سے شوہر کو یہ لگے گا کہ آپ اس سے بھاگ رہی ہیں، اسے سننا بھی نہیں چاہتی ہیں. ایسے موقعے پر خاموش رہنا چاہیے اور جب تک وہ پرسکون نہ ہو جائے اس کی کسی بات کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے.
جب شوہر کسی حد تک پرسکون ہو جاتا ہے تو میں کہتی ہوں : پوری ہو گئی آپ کی بات؟ پھر میں کمرے سے چلی جاتی ہوں کیونکہ شوہر بول بول کر تھک چکا ہوتا ہے اور چیخنے چلانے کے بعد اب اسے تھوڑے آرام کی ضرورت ہوتی ہے. میں کمرے سے نکل جاتی ہوں اور اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہوں.
خاتون صحافی نے پوچھا : اس کے بعد آپ کیا کرتی ہیں؟ کیا آپ بول چال بند کرنے کا اسلوب اپناتی ہیں؟ ایک آدھ ہفتہ بات چیت نہیں کرتی ہیں؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا : نہیں! اس بری عادت سے ہمیشہ بچنا چاہیے، یہ دودھاری ہتھیار ہے، جب آپ ایک ہفتے تک شوہر سے بات چیت نہیں کریں گی ایسے وقت میں جب کہ اسے آپ کے ساتھ مصالحت کی ضرورت ہے تو وہ اس کیفیت کا عادی ہو جائے گا اور پھر یہ چیز بڑھتے بڑھتے خطرناک قسم کی نفرت کی شکل اختیار کر لے گی.
صحافی نے پوچھا : پھر آپ کیا کرتی ہیں؟
بوڑھی خاتون بولیں : میں دو تین گھنٹے بعد شوہر کے پاس ایک گلاس جوس یا ایک کپ کافی لے کر جاتی ہوں اور محبت بھرے انداز میں کہتی ہوں: پی لیجیے. حقیقت میں شوہر کو اسی کی ضرورت ہوتی ہے. پھر میں اس سے نارمل انداز میں بات کرنے لگتی ہوں. وہ پوچھتا ہے کیا میں اس سے ناراض ہوں؟ میں کہتی ہوں : نہیں. اس کے بعد وہ اپنی سخت کلامی پر معذرت ظاہر کرتا ہے اور خوبصورت قسم کی باتیں کرنے لگتا ہے.
انٹرویو لینے والی خاتون نے پوچھا : اور آپ اس کی یہ باتیں مان لیتی ہیں؟
بوڑھی خاتون بولیں : بالکل، میں کوئی اناڑی تھوڑی ہوں، مجھے اپنے آپ پر پورا بھروسہ ہوتا ہے. کیا آپ چاہتی ہیں کہ میرا شوہر جب غصے میں ہو تو میں اس کی ہر بات کا یقین کر لوں اور جب وہ پرسکون ہو تو تو اس کی کوئی بات نہ مانوں؟
خاتون صحافی نے پوچھا : اور آپ کی عزت نفس(self respect) ؟
بوڑھی خاتون بولیں : پہلی بات تو یہ کہ میری عزت نفس اسی وقت ہے جب میرا شوہر مجھ سے راضی ہو اور ہماری شادی شدہ زندگی پرسکون ہو
دوسری بات یہ کہ شوہر بیوی کے درمیان عزت نفس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی
جب مرد و عورت ایک دوسرے کے لباس ہیں تو پھر کیسی عزت نفس ؟؟