Click to read more.
کہتے ہیں کہ ایک امریکی ریاست میں ایک بوڑھے شخص کو ایک روٹی چوری کرنے کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا،
اس نے بجائے انکار کے اعتراف کیا کہ اُس نے چوری کی ہے اور جواز یہ دیا کہ وہ بھوکا تھا اور قریب تھا کہ وہ مر جاتا !
جج کہنے لگا ” تم اعتراف کر رہے ہو کہ تم چور ہو ،میں تمہیں دس ڈالر جرمانے کی سزا سُناتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ تمہارے پاس یہ رقم نہیں اسی لیے تو تم نے روٹی چوری کی ہے ،لہٰذا میں تمہاری طرف سے یہ جرمانہ اپنی جیب سے ادا کرتا ہوں ”مجمع پر سناٹا چھا جاتا ہے،
اور لوگ دیکھتے ہیں کہ جج اپنی جیب سے دس ڈالر نکالتا ہے اور اس بوڑھے شخص کی طرف سے یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرنے کا حکم دیتا ہےپھر جج کھڑا ہوتا ہے اور حاضرین کو مخاطب کر کےکہتا ہے
” میں تمام حاضرین کو دس دس ڈالر جرمانے کی سزا سُناتا ہوں اس لیے کہ تم ایسے ملک میں رہتے ہو جہاں ایک غریب کو پیٹ بھرنے کے لیے روٹی چوری کرنا پڑی ”اُس مجلس میں 480 ڈالر اکھٹے ہوئے اور جج نے وہ رقم بوڑھے ” مجرم ” کو دے دی۔
کہتے ہیں کہ یہ قصہ حقیقت پر مبنی ہے ۔
ترقی یافتہ ممالک میں غریب لوگوں کی مملکت کی طرف سے کفالت اسی واقعے کی مرہون منت ہے.
( سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چودہ سو سال پہلے ہی یہ کام کر گئے کہ پیدا ہوتے ہی بچے کا وظیفہ جاری کرنے کے حکم دےدیا)
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ ہمارے ١٠(دس) روپے ہمارے لئے اتنی اھمیت نہیں رکھتے جتنے کہ اس لاچار کے لئے رکھتے ہیں جو جانے کب سے بھوکا ہے۔۔۔
تبدیلی کے لیئے ہمیں خود کو بدلنا ہے۔۔
آئیے مل کر ہم سب بھی اپنی سوچ بدلیں۔۔
اپنے لئیے اور اپنی اس پاک دھرتی کے لئے۔۔۔
آئیں ہم بھی اپنے مُلک کے لوگوں کا سوچیں۔۔۔
کسی کی خوشی کا موجب بننا ہی سب سے بڑی خوشی ہے۔۔۔