شہری زندگی
عام طور پر شہر میں رہنے کو شہری زندگی کہا جاتا ہے مگر فنی اصطلاح کی رو سے اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اصطلاحی اعتبار سے اس کی تعریف حسب ذیل الفاظ میں کی جائے گی۔
شہری زندگی کی تعریف
کسی ملک کے معاشرے اور اس کی شہریت کو قبول کر کے اس کے تحفظ و بقا اور اسے ترقی دینے کے لئے نظم و ضبط کے ماتحت باہمی تعاون کے ساتھ مل جل کر زندگی بسر کرنا شہری زندگی کہلاتا ہے۔
شہری زندگی کی بنیاد چونکہ معاشرہ اور شہریت پر ہے اس لئے ان دونوں کا مفہوم سمجھ لینا ضروری ہے۔
معاشرہ
کسی خاص مقصد کی تکمیل کے لئے انسانی گروہ کا مل جل کر زندگی بسر کرنا معاشرہ کہلاتا ہے۔
معاشرے کی بنیادی اچھائی اور برائی مقصد پر موقوف ہے۔ اچھے مقصد کے لئے مل جل کر زندگی بسر کرنا اچھا معاشرہ ہے اور برے مقصد کے لئے مجتمع ہونا بنیادی طور پر بدترین معاشرہ ہے۔
معاشرہ کے بعد شہریت ہے اس کی تعریف اس طرح کی جائے گی۔
شہریت
کسی ملک کا بنیادی مقصد اس کا معاشرہ اور نظام اس ملک کی شہریت ہے اور اسے قبول کر کے اس میں شامل ہونے والے اس ملک کے شہری کہلاتے ہیں۔ اس تعریف کی رو سے ہر ملک کا باشندہ اس کا شہری کہلائے گا یہاں تک کہ اگر وہ کسی دوسرے ملک میں بھی چلا جائے تو وہ اپنے ہی ملک کا شہری کہلائے گا۔ اسی لئے ہر حکومت غیر ممالک میں سفیروں کے ذریعے اپنے شہریوں کی حفاظت کا انتظام کرتی ہے۔
اجتماعیت
شہری زندگی، معاشرہ اور شہریت تینوں کا بنیادی نقطہ اجتماعی زندگی ہے۔ اس لئے اس کا مختصر خاکہ اور اس کی ضرورت کا ذہن نشین ہونا مناسب ہے۔
اجتماعی زندگی اور اس کی ضرورت
مل جل کر رہنا انسانی فطرت کا طبعی تقاضا ہے۔ کسی انسان کے لئے لاکھوں اسباب راحت اور آسائش مہیا کر دئیے جائیں اور اسے بے شمار نعمتیں حاصل ہوں مگر اسے اس کے ہم جنسوں سے علیحدہ کر دیا جائے وہ نہ کسی سے مل سکے محض تنہائی کے عالم میں رہے تو یقینا یہ تنہائی اس کے لئے سخت اذیت اور تکلیف کا موجب ہو گی اور وہ یہ چاہے گا کہ جملہ اسباب راحت و آسائش باقی رہیں نہ رہیں لیکن تنہائی کی اس قید سے مجھے نجات مل جائے اور میں آزاد ہو کر اپنے ہم جنسوں کے ساتھ مل کر زندگی بسر کروں۔
اس طبعی تقاضے سے معلوم ہوا کہ اجتماعی زندگی انسان کی قلبی راحت اور ذہنی سکون کے لئے کس قدر اہم اور ضروری ہے۔
علاوہ ازیں اجتماعی زندگی کے بغیر کسی صاحب کمال کی خوبیاں قوت سے فعل میں نہیں آ سکتیں۔ کوئی کاریگر اجتماعی زندگی کے بغیر اپنی صناعی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔ نہ کوئی عالم و فاضل اپنے علم و فن کے جوہر دکھا سکتا ہے۔ نہ طبیب حاذق اپنی فنی حذاقت و مہارت کو کام میں لا سکتا ہے۔ غرض کوئی انسان اجتماعیت کے بغیر کسی قسم کی ترقی نہیں کر سکتا اور دنیا کا کوئی ارتقائی نظریہ پورا نہیں ہو سکتا۔
صرف یہی نہیں بلکہ کسی شخص کی مادی ضرورتیں بھی اجتماعی زندگی کے بغیر پوری نہیں ہو سکتیں۔ بڑی ضرورتوں کو چھوڑ کر ایک چھوٹی سی ضرورت اپنے سامنے رکھ لیجئے اور اس کے پورے ماحول پر ایک نظر ڈالیے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اجتماعی زندگی کو ہماری ضروریات میں کتنا دخل ہے۔ مثلاً آپ کسی کو خط لکھنا چاہیں تو آپ کو قلم، روشنائی اور پوسٹ کارڈ کی ضرورت ہو گی۔ خط لکھنا ایک ضرورت ہے مگر اس ایک ضرورت کے ساتھ تین ضرورتیں آپ کو اور لاحق ہو گئیں۔ ان تینوں میں سے ہر ایک ضرورت کے ساتھ آگے کتنی ضروریات متعلق ہیں اور ان کا پورا ہونا افرادِ انسانی کی کس قدر عظیم تعداد سے وابستہ ہے اس کو سمجھنے کے لئے ذرا اس تفصیل کو ملاحظہ فرمایئے۔
قلم
اگر آپ چوبی قلم بھی استعمال کریں تاہم تسلیم کریں گے کہ اس قلم کی لکڑی کو درخت سے کاٹ کر لانے کا کام کسی نے انجام دیا ہے پھر اس قلم کو بنانے اور ہموار کرنے کے لے چاقو بھی استعمال کرنا پڑے گا۔ اس کا لوہا کسی کان سے نکالا گیا تھا۔ اس لوہے کو کان سے حاصل کرنے میں کتنے مزدوروں نے کام کیا؟ پھر وہ لوہا جو کان سے نکالا گیا تھا، اسے ایک خاص طریقے سے صاف کیا گیا اس کام میں بھی بہت سے ہاتھ لگے ہیں پھر اس کی باربرداری میں کتنے مزدوروں نے محنت کی۔ اس کے بعد وہ تاجروں کے پاس آ کر فروخت ہوا اور رفتہ رفتہ کسی لوہار کے پاس پہنچا۔ اس نے اسے چاقو کی شکل میں تیار کیا پھر اسے دستہ لگا دیا اور چاقو بن کر آپ کے ہاتھ میں آیا ان تمام مراحل میں کتنے ہاتھوں کا دخل ہے۔ آپ ان کی تعداد نہیں بتا سکتے لیکن اتنا تو سمجھ سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک آدمی کا کام نہیں بلکہ بہت سے آدمیوں کی کارکردگی کا نتیجہ ہے۔
روشنائی
اب روشنائی کی طرف آیئے۔ اس کا بھی یہی حال ہے کہ ہر مرحلے پر اس کی تیاری میں کثیر انسانوں کی کارکردگی شامل رہی ہے۔
پوسٹ کارڈ
اس کے بعد پوسٹ کارڈ کو دیکھئے۔ مثلاً وہ روئی سے بنایا گیا۔ روئی کھیت میں کاشت کی گئی۔ کاشت کاری کے آلات استعمال ہوئے۔ ان آلات کو بنانے میں کتنے کاریگروں نے کام کیا پھر کاشت کے سلسلے میں کتنے آدمیوں کے ہاتھ شامل رہے۔ کپاس چننے اس کے بنولے نکالنے میں کتنے مرحلے پیش آئے۔ پھر وہ روئی کارخانے میں لائی گئی جہاں تیار ہو کر کاغذ کے کارخانے میں پہنچی۔ کاغذ بننے میں کتنے کاریگروں اور مزدوروں کی ضرورت ہوئی اور اس کے بعد اس نے کارڈ کی صورت اختیار کی۔ پھر وہ کارڈ پریس میں پہنچا جہاں اسے حکومت کے قانون کے مطابق چھاپا گیا اور وہ پوسٹ کارڈ بن کر ڈاکخانہ میں آیا اور آپ نے خریدا۔ اتنے مرحلوں کے بعد وہ کارڈ آپ کے ہاتھ میں پہنچا اور آپ نے اسے لکھ کر لیٹر بکس میں ڈالا۔ لیٹر بکس سے آپ کا وہ کارڈ ڈاک خانہ کے ملازموں نے نکالا اور اسے ڈاک خانے پہنچایا۔ وہاں پہنچ کر مہر لگانے والوں کے ہاتھ میں آیا۔ الغرض اسی طرح ہاتھوں ہاتھ آپ کا وہ خط آپ کے مکتوب الیہ کے ہاتھ میں پہنچا اور آپ کی ضرورت پوری ہوئی۔ باقی تمام ضروریاتِ زندگی کا بھی یہی حال ہے۔ معلوم ہوا کہ اجتماعی زندگی کے بغیر ہماری کوئی ضرورت پوری نہیں ہو سکتی۔
نظم و ضبط
کوئی اجتماعی زندگی اور معاشرہ کسی باقاعدہ طور طریقے اور قانون و ضابطے کے بغیر نہیں چل سکتا۔
ہر معاشرے کے لئے اس کا نظام قواعد و ضوابط مجلسی آداب نظم و ضبط کہلاتے ہیں لیکن شہری زندگی کا تعلق چونکہ ملکی معاشرے سے ہے اس لئے ہر ملک کا ملکی قانون اور حاکمانہ نظام ہی اس کی شہری زندگی کا بنیادی نظم و ضبط ہے۔
نظم و ضبط کی ضرورت
انسان میں جس طرح مل جل کر رہنے کی طبعی خواہش پائی جاتی ہے اسی طرح اس میں یہ تقاضا بھی بالکل فطری طور پر موجود ہے کہ اس کی ہر خواہش بلا روک ٹوک پوری ہوتی رہے۔ ظاہر ہے کہ تمام انسانوں کی جملہ خواہشات یکساں نہیں ہوتیں۔ اس لئے اگر ہر شخص اپنی ہر خواہش بلا روک ٹوک پوری کرنا چاہے تو یہ ممکن نہیں بلکہ ایسی صورت میں مخالف خواہشات باہم متصادم ہوں گی جس کا لازمی نتیجہ فتنہ فساد اور تباہی کی صورت میں نکلے گا۔ اس طرح اجتماعیت باقی نہ رہ سکے گی اور معاشرہ برباد ہو کر ختم ہو جائے گا چونکہ معاشرہ کا باقی رہنا بھی انسان کا فطری مقتضا ہے اس لئے اس کو بحال رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ باہم مخالف خواہشات کو متصادم ہونے سے روکا جائے اسی تصادم کو روکنے کا نام نظم و ضبط ہے۔
ہمہ گیر تصادم کا روکنا ہمہ گیر طاقت کے بغیر ناممکن ہے اس لئے ضروری ہے کہ پورا معاشرہ ایک مستحکم نظام اور حاکمانہ قوت کے ماتحت ہو۔ اسی قوت اور نظام کا نام ملکی قانون ہے جس کے بغیر شہری زندگی کا قوام متصور نہیں ہو سکتا۔
باہمی تعاون
نظم و ضبط کے بعد باہمی تعاون اور ہمدردی کا مقام ہے۔ شہری زندگی میں جس تعاون کو دخل ہے اس کی تعریف اس طرح کی جا سکتی ہے کہ کسی معاشرے کو قبول کر لینے کے بعد افرادِمعاشرہ پر جو فرائض اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کے احساس تام اور عزم محکم کے ساتھ ان کی مکمل بجا آوری کا نام تعاون ہے۔
باہمی تعاون کی ضرورت
کسی ملک کے باشندوں کے دل میں جب تک اخلاص، ہمدردی، ایثار اور باہمی تعاون کا جذبہ نہ ہو اس وقت تک نظم و ضبط کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے چہ جائیکہ کامیاب شہری زندگی بسر کی جا سکے۔
شہری زندگی اور معاشرہ میں ایسے بے شمار مراحل ملیں گے جن پر ملکی حکومت کا کوئی قانون لاگو نہیں ہو سکتا۔ مثلاً غریبوں، بے کسوں اور ضرورت مندوں کی بعض ضرورتوں کے پورا نہ ہونے کی صورت میں ان کی زندگی ان کے لئے وبال جان بن جاتی ہے اور قانوناً ان کا پورا کرنا کسی کے ذمے نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں اگر معاشرہ کے وہ افراد جن کے ساتھ ان ضرورتوں کے پورا ہونے کا تعلق ہے قانون کی آڑ لے کر خاموش بیٹھے رہیں اور کسی غریب، بے کس، حاجت مند کے ساتھ کوئی ہمدردی اور کسی قسم کا تعاون نہ کریں تو یقینا معاشرہ کو سخت نقصان پہنچے گا اور اس کے نتائج نظم و ضبط کے لئے بھی بے حد مضر ثابت ہوں گے۔ اس لئے نظم و ضبط کے ساتھ باہمی تعاون بھی شہری زندگی کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
شہری زندگی کا تجزیہ
اب تک جو کچھ کہا گیا ہے اس کو ذہن نشین کر لینے کے بعد شہری زندگی کا تجزیہ واضح طور پر سامنے آ جاتا ہے یعنی اجتماعیت، معاشرہ اور شہریت اجتماعیت معاشرہ کا سنگ بنیاد ہے اور معاشرہ شریعت کی اصل ہے۔
اور شہریت سے شہری زندگی وجود میں آتی ہے۔ ان تمام اجزاء اور ان کے مجموعے کے لئے نظم و ضبط اور باہمی تعاون رگ جان کی حیثیت رکھتا ہے اور رگ جان پورے جسم میں سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس لئے اس کا تحفظ بھی سب سے زیادہ ضروری ہو گا۔ باہمی تعاون میں عوام اور نظم و ضبط میں حکومت کی حیثیت بنیادی حیثیت ہے اس لئے شہری زندگی کی گاڑی ان دو پہیوں کے بغیر کسی طرح نہ چل سکے گی۔
نظم و ضبط اور باہمی تعاون کی قدریں
جب تک اقدار کا تعین نہ ہو ان کا تحفظ ناممکن ہے۔ نظم و ضبط اور باہمی تعاون کی قدریں باہمی معاشرہ پر ابھرتی ہیں اس لئے سب سے پہلے معاشرہ کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اجتماعی تقاضوں کی بنا پر معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے چونکہ وہ تقاضے مختلف معاشرے اجتماعی زندگی میں جنم لیتے ہیں مثلاً گھریلو زندگی سے معاشرہ کی ابتدا ہوتی ہے اور اس کے تقاضوں کا لازمی نتیجہ تعلیمی، تجارتی، زراعتی اور صنعتی و دیگر مختلف معاشروں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ان تمام معاشروں میں انہی کے مطابق جو قواعد و ضوابط طور طریقے اور قاعدے و قرینے وضع کئے جائیں گے وہ ان کے لئے ابتدائی اور جزوی نظم و ضبط قرار پائیں گے۔ اسی طرح ہر معاشرے میں اس کے ماحول کے موافق افراد معاشرہ کا باہمی تعاون جزوی تعاون ہو گا۔ تمام جزوی معاشروں میں جزوی نظم و ضبط اور جزوی تعاون نہ پایا گیا تو ہر معاشرہ اپنی جگہ تباہی کی نذر ہو جائے گا۔ علیٰ ہٰذا اگر تمام مختلف معاشروں کے کل افراد میں شہری زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے مجموعی تعاون نہ پایا جائے اور اسی طرح ان سب معاشروں پر حکومت کا ہمہ گیر نظام قائم نہ رہے تو شہری زندگی کسی صورت میں بر قرار نہ رہ سکے گی۔ اس لئے نہایت ضروری ہے کہ کلی اور جزوی تعاون اور نظم و ضبط کی تمام اقدار کا ان کے مرحلوں پر پوری قوت کے ساتھ تحفظ کیا جائے۔
اس اجمال کی تفصیلات بہت طویل ہیں۔ اختصار کے ساتھ اتنا عرض کر دینا کافی ہو گا کہ باہمی تعاون اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ ہر فرد اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس نہ کرے اور ان کی انجام دہی میں پوری سرگرمی سے کام نہ لے۔ ہر معاشرے کے افراد کے لئے فرائض اور ذمہ داریاں مختلف قسم کی ہیں۔ اس لئے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ اپنے معاشرے میں اس کے ماحول کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرے اور اپنے فرائض کو انجام دے۔ مثلاً گھریلو زندگی میں ہر ایک کی حق شناسی اور حق رسی لازمی سمجھی جائے اور اس پر پابندی کے ساتھ عمل کیا جائے اور ہمسائیگی کے حقوق صحیح معنی میں ادا کئے جائیں۔
تعلیمی معاشرے میں طلباء آپس میں ہمدردی سے کام لیں۔ اساتذہ کے ساتھ ان کے شایانِ شان برتاؤ کریں اور اساتذہ طلباء کے ساتھ شفقت و عنایت برتیں اور ان کے اخلاق و عادات اور تعلیم و تربیت کا پورا خیال رکھیں اور عملی طور پر کوئی فرو گزاشت نہ کریں۔
تجارتی معاشرے میں ایمانداری سے کام لیا جائے۔ عوام کی ضروریات زندگی کی اشیاء چھپا کر نہ رکھی جائیں اور ناجائز نفع اندوزی سے اجتناب کیا جائے۔
زراعتی معاشرے میں اس بات کو اچھی طرح ملحوظ رکھا جائے کہ خوارک کی ذخیرہ اندوزی نہ ہونے پائے جس سے عوام کو تکلیف ہو۔ ایسا نہ ہو کہ خوراک مہیا نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں جو خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں وہ پیدا ہونے لگیں۔
طبی معاشرے میں ڈاکٹروں، معالجوں، دوا فروشوں کو دولت کمانے کی حرص دل سے نکال دینی چاہئے اور مریضوں کے ساتھ ہمدردی اور ایثار کے جذبات سے کام لینا چاہئے۔
صنعتی معاشرے میں صرف اپنے ذاتی مفاد کو پیش نظر نہ رکھا جائے بلکہ عوام کی بہبود اور ملکی صنعت کو ترقی دینے کا جذبہ کارفرما رہے۔
مذہبی معاشرے میں علماء و مشائخ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کو بالائے طاق رکھ کر خالص دینی اور مذہبی نقطہ نظر سے عوام کی رہنمائی کی خدمت انجام دیں اور مذہب کو اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کا آلہ نہ بنائیں۔
اسی طرح باقی تمام معاشروں میں ہر قسم کی خرابیوں سے بچنے کی پوری کوشش کی جائے اور معاشرے کو کامیاب بنانے کے لئے تنظیم، اتحاد اور باہمی اعتماد کے اصولوں پر عمل کیا جائے اور ہر مرحلے پر عوام کی بہبود اور خدمت خلق پیش نظر رہے۔
پھر ان سب معاشروں کو مل کر حکومت کے ساتھ پورا تعاون کرنا بھی ضروری ہے۔ اس لئے کہ عوامی تعاون کے بغیر حکومت اپنے کاموں کو صحیح معنی میں انجام نہیں دے سکتی۔
حکومت کے ساتھ بہترین تعاون کی صورت یہ ہے کہ ملکی قانون کا پورا پورا احترام کیا جائے اور کسی وقت بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی مذموم کوشش نہ کی جائے۔ قانون کی خلاف ورزی ملک و ملت کے ساتھ غداری ہے جو لوگ نڈر ہو کر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں وہ معاشرے کے بدترین دشمن ہیں۔
حکومت اور عوام
جس طرح عوام کے لئے حکومت کے ساتھ تعاون کرنا شہری زندگی کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہے اسی طرح حکومت کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ عوام کے ساتھ ہمدردی کا سلوک کرے۔ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا حکومت کے اولین فرائض سے ہے۔ عوام کی ضروریات زندگی کا انتظام، ان کی جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت، ظلم و جور کی روک تھام، رشوت ستانی کا انسداد، جرائم کا استیصال شہری زندگی کو کامیاب بنانے کے لئے نہایت اہم اور ضروری ہے۔
شہری زندگی مستحکم نظام حکومت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی اور یہ استحکام اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک کہ عوام کا اعتماد حاصل نہ کیا جائے اور یہ اعتماد عوام کی خوشحالی میں مضمر ہے۔ لہٰذا عوام کی خوشحالی کے لئے حکومت کو پوری کوشش کرنی چاہئے تاکہ عوام اور عوام کے باہمی اعتماد اور تعاون کے ذریعے شہری زندگی کامیاب ہو سکے۔
باہمی تعاون کا اعلیٰ مقام
معاشرے میں ہمدردی اور تعاون کا بلند مقام یہ ہے کہ ہر فرد اپنی زندگی گزارنے میں یہ سمجھے کہ میں اپنے لئے زندہ نہیں ہوں بلکہ میرا زندہ رہنا دوسروں کے لئے ہے۔ جب معاشرے میں یہ جذبہ پھیل جائے تو نہایت کامیاب معاشرہ قرار پائے گا اور جو شخص یہ سمجھے کہ میری زندگی میرے اپنے ہی لئے ہے وہ خود غرضی کا شکار ہو کر رہ جائے گا اور معاشرہ کو اس سے کوئی معتدبہ فائدہ نہیں پہنچے گا۔
عمدہ معاشرہ اور کامیاب شہری زندگی
جس معاشرہ میں اپنی صلاحیتوں سے کام لینے والے افراد پائے جائیں گے وہ نہایت عمدہ معاشرہ ہو گا اور جہاں ایسے لوگ ہوں کہ اپنی ذہنی صلاحیتوں سے کام نہ لیں اور اپنی علمی و عملی قوتوں کو بروئے کار نہ لائیں وہ اپنے معاشرے اور شہری زندگی کے لئے اچھے افراد نہیں۔ خواہ وہ جرائم کا ارتکاب نہ کریں اور ان سے کوئی حرکت خلافِ قانون سرزد نہ ہو لیکن جب وہ جمود و خمود کا مجسمہ بن گئے تو شہری زندگی اور معاشرہ پر ان کا وجود ایک بوجھ بن کر رہ گیا۔ اس لئے وہ لوگ شہری زندگی کے لئے مفید ہونے کے بجائے مضر ہیں۔
چونکہ شہری زندگی کا تعلق اولین ایک ہمہ گیر مقصد سے ہوتا ہے۔ اس لئے جس شہری زندگی میں اس بنیادی مقصد کے حصول کو نظر انداز کر دیا جائے وہ کامیاب شہری زندگی قرار نہیں پا سکتی۔ اسے کامیاب اسی صورت میں کہا جائے گا کہ اس کا مطمح نظر بنیادی مقصد کا حصول ہو۔ مثلاً ہمارے ملک کی شہری زندگی ’’پاکستانی شہری زندگی‘‘ ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آزاد وطن پاکستان میں اسلامی طرزکی زندگی بسر کی جائے۔ اس بنیادی مقصد کی روحِ رواں اسلامی طرز کی زندگی بسر کرنا ہے۔ جب تک یہ روح اصل مقصد میں کارفرما نہ ہو مقصد متصور ہی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ اسلامی طرزِ زندگی بسر کرنے کی طرف پوری توجہ مبذول کی جائے اور پاکستان کی شہریت کے تمام شعبوں میں یہی روح کارفرما نظر آئے۔ اجتماعی زندگی کے تمام اصول، معاشرے کا نظم و ضبط، باہمی تعاون کی جو واضح اور روشن تعلیمات کتاب و سنت میں پائی جاتی ہیں کسی دوسری جگہ متصور نہیں۔ مختصر طور پر چند اقتباسات پیش کرتا ہوں
(۱) قرآن کریم اور اجتماعیت
یٰاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰـکُمْ۔ (الحجرات : ۱۳)
لوگو! ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور (پھر) تمہاری ذاتیں اور برادریاں ٹھہرائیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک تم سب میں زیادہ اللہ کے نزدیک عزت والا وہی ہے جو تم سب میں بڑا پرہیز گار ہو۔
اس آیت کریمہ میں گھریلو زندگی خاندانی اور قبائلی اجتماعیت اور اس کے معاشرے کا نہایت جامع اور مختصر بیان ہے اور اچھے معاشرے کے لئے اعلیٰ کردار تقویٰ اور پرہیز گاری کا ضروری ہونا مذکور ہے۔
(۲) قرآن اور شہریت کا بنیادی مقصد
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (انعام: ۱۶۲،۱۶۳)
کہہ دیجئے کہ میری نماز اور میری تمام عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لئے ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور مجھ کو ایسا ہی حکم دیا گیا ہے اور میں اس کے فرمانبرداروں میں سے پہلا فرمانبردار ہوں۔
اس آیت کریمہ میں جماعت مسلمین کی زندگی اور موت کا بنیادی مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی فرمانبرداری کو قرار دیا گیا ہے۔
(۳) باہمی تعاون اور قرآن مجید
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۔ (پ: ۶، س: مائدۃ)
اور نیکی اور پرہیز گاری (کے کاموں میں) ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں میں) ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرو۔ بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔
اس آیت میں معاشرہ اور تعاون کے بنیادی مقصد کو بیان کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ معاشرہ میں نیکی اور تقویٰ تعاون کی بنیاد ہے اور گناہ پر تعاون سزا اور عذاب کا موجب ہے۔
(۴) نظم و ضبط اور قرآن
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ (آل عمران : ۱۱۰)
تم بہترین امت ہو جو پیدا کئے گئے ہو لوگوں کے لئے حکم کرتے ہو نیکی کا اور برائی سے روکتے ہو۔
اس آیت کریمہ میں برائی سے روکنے کو پسندیدگی اور بہتری کا معیار بتایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ روک ٹوک اور برائی سے منع کرنا ہی نظم و ضبط ہے۔
(۵) اطاعت امیر اور قرآن کریم
یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ط (نساء : ۵۹)
اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے میں سے حکم والوں کی۔
یہ آیت کریمہ خدا اور رسول کی اطاعت کے بعد صاحب امر لوگوں کی اطاعت کا فرض ہونا بتا رہی ہے۔
(۶) ضبط معاشرہ اور قرآن کریم
وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلاَ تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْاط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ۔ (انفال : ۴۶)
اور اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور آپس میں نہ جھگڑو کہ (آپس میں جھگڑا کرنے سے) تم ہمت ہار دو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اس آیت کریمہ میں بھی اجتماعی زندگی اور معاشرہ کے اصول اور اس کی برائیوں سے بچنے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔
اس طرح حدیث شریف سے ان مسائل پر بہترین روشنی ملتی ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا
(۱) المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہٖ (بخاری شریف)
مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کی اذیت) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ یہ حدیث اجتماعیت، معاشرہ اور شہری زندگی کو کامیاب بنانے کے لئے ایک نہایت جامع اور زریں اصول پیش کر رہی ہے۔ مسلمان کا مسلمان کی اذیت سے محفوظ رہنا اس کی اجتماعیت، معاشرہ اور شہریت سب کو کامیاب و خوش گوار بنا کر تکمیل مقصد و حصول مدعا کی طرف رہبری کرنا ہے۔
(۲) کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہٖ۔ (بخاری شریف)
تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ اس حدیث میں ہر شخص کی ذمہ داریوں اور فرائض کا ذکر ہے اور اس بات کا بیان ہے کہ انسان اجتماعی زندگی کے ہر مرحلہ پر اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی بجا آوری کا پورا پورا لحاظ رکھے جو ضبط و تعاون کی اصل بنیاد ہے۔
(۳) ان تحب للناس ما تحب لنفسک وتکرہ لہم ما تکرہ لنفسک۔ (رواہ احمد۔ مشکٰوۃ)
(افضل ایمان یہ ہے کہ) تو پسند کرے لوگوں کے لئے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور ناپسند کرے لوگوں کے لئے جو اپنے لئے ناپسند کرتا ہے۔
اس حدیث میں کامیاب شہریت کا ایک سنہری اصول بیان فرمایا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ کتاب و سنت کی ہدایات کو سامنے رکھ کر اسلامی طرزِ زندگی بسر کرنا پاکستانی شہریت کا بنیادی مقصد ہے اور اس کو نظر انداز کر دینا پاکستانی شہری زندگی کی تعمیر نو کو اس کی اصل بنیاد سے منہدم کر دینے کے مترادف ہو گا۔
بنیادی نکات
معاشرہ، اجتماعیت، شہریت، بنیادی مقصد، نظم و ضبط، باہمی تعاون عوام اور حکومت، اسلامی طرزِ زندگی، کتاب و سنت۔