Click down to read more
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
*صلاح الدین ایوبی*
🍀🍀🍀🍀🍀🍀۔
*قسط نمبر/1*
مرتب؛ *محمدساجداشرفی*
🌴🌴🌴🌴🌴🌴۔
قلعہ جعبر کے محاذ پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔
موصل کے مرد آہن امیر عمادالدین زنگی کو رات خیمے میں سوتے ہوئے اس کے دو غلاموں نے قتل کر دیا تھا ،ایک کا نام یار کتش تھا، اور دوسرا جبار تھا ،یار کتش امیر جنگی کا خواجہ سرا غلام تھا ،یہ امیر کا بہت منہ چڑھا تھا ،پھر اسی نے امیر کے قتل کی سازش میں نمایاں حصہ لیا ۔
دوسرا غلام جبار ایک عیسائی لڑکی امروزیہ پر عاشق تھا، امروزیہ کے بھائی اور باپ جنگ الرہا میں امیر الدین زنگی کے ہاتھوں مارے گئے تھے ،اس نے جبار سے یہ کہا تھا کہ میں تجھ سے اس وقت شادی کرونگی جب تو امیر عماد الدین زنگی کو قتل کرکے میرے باپ بھائی کا بدلہ لے گا ،اور وہ نادان اپنے نادان عشق کی بھینٹ چڑھ گیا، یار کتش جبار اور امروزیہ نے سازش کی اور ایک رات امیر کے خیمے میں داخل ہوکر اسے سوتے میں قتل کردیا، مگر یار کتش اور جبار کو فوراً ہی اس کی سزا مل گئی، وہ قتل کے بعد خیمے سے نکل رہے تھے کہ عماد الدین زنگی کے وزیر امیر اسد الدین زنگی کے ہاتھوں مارے گئے، امروزیہ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر کسی طرف نکل گئی ۔
امیر عماد الدین زنگی کے قتل کا متضاد رد عمل ہوا۔
شام کی تمام عیسائی ریاستوں یعنی انطاکیہ، طرابلس اور یروشلم میں چراغاں ہوا، لاطینی زبان میں امیر موصل کے خلاف لمبی چوڑی نظمیں لکھی گئیں ،جن میں امیر کو دھوکا باز داغا باز احسان فراموش اور ظالم وحشی کہا گیا ،حالانکہ امیر نے نہ کسی کو دھوکا دیا تھا نہ احسان فراموشی کی تھی، اچانک حملہ آور ہونا امیر کی ایک اہم جنگی چال تھی جس سے وہ اکثر کام لیا کرتا تھا، جعبر کے قلعے پر اس نے بھلاوا دے کر حملہ کیا تھا ،لیکن کاتب تقدیر نے اس کی زندگی کی گھڑیاں مختصر کر دی تھیں اس لیے وہ قلعہ جعبر اور اس کے بعد دمشق پر قبضہ نہ کرسکا۔
امیر موصل عمادالدین زنگی کو احسان فراموش بھی نہیں کہا جاسکتا ،اس لیے کہ وہ کسی کا احسان ادھار نہیں رکھتا تھا ،صلاح الدین کے والد نجم الدین ایوب نے اس پر ایک ایسے وقت میں احسان کیا تھا جب امیر موصل اپنے شکشت خوردہ لشکر کے ساتھ دریائے دجلہ کے کنارے پہنچا تھا، اس گھڑی اگر نجم الدین ایوب اس کی بے لوث خدمت پر آمادہ ہو کر اسے اور اس کے لشکر کو اپنے قلعہ تکریت میں پناہ نہ دیتا تو پتہ نہیں امیر زنگی پر کیا گذر جاتی، حالات درست ہونے پر جب امیر زنگی وہاں سے واپس ہوا تو اس نے کھلے دل سے نجم الدین ایوب کو موصل آنے کی دعوت دی تھی، نجم الدین اس پیشکش سے فوری فائدہ تو نہیں اٹھا سکا لیکن جب اسے امیر زنگی کی مدد کرنے کی پاداش میں تکریت سے صرف بارہ گھنٹے کے اندر اندر نکل جانے کا حکم دیا گیا تو اس کی نظریں فوراً موصل کی طرف اٹھیں، نجم الدین ایوب بمعہ اپنے بھائی اسد الدین شیر کوہ اور صرف چند گھنٹے کے پیدا ہونے والے بیٹے صلاح الدین کے ساتھ تکریت سے نکل کر سیدھا موصل پہنچا اور امیر موصل عماد الدین زنگی نے اس پرانے احسان کا بدلہ یوں اتارا کے شیر کوہ کو اپنے امراء خاص میں جگہ دی اور بعلبک کی فتح پر نجم الدین ایوب کو وہاں کا گورنر بنا دیا ،اس احسان کا شاید اس سے بڑا اور کوئی بدلہ نہ ہو سکتا تھا۔
عیسائی ریاستوں میں چراگاہ ہونا اور لاطینی زبان میں امیر موصل کے خلاف نظمیں لکھی جانے والی بات سمجھ میں آتی ہے، اس لئے کہ قوم عیسائی کا سب سے بڑا اور مضبوط دشمن امیر موصل ہی تھا، امیر زنگی نے الرہا جومسلمانوں میں “فتح الفتوح” کے نام سے مشہور ہے، پر قبضہ کرکے عیسائی ریاستوں کی پشت میں چھرا بھونکا تھا ، شاہ الرہا جو سین دوم اب تک تل ت باشر میں چھپا بیٹھا اپنے زخم چاٹ رہا تھا، اب اگر لاطینی زبان میں امیر کی موت پر عیسائیوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی تھی تو یہ ایک فطری بات تھی، لیکن انہوں نے اس بہادر پر جو الزام تراشی کی تھی اس کا کوئی جواز نہ تھا۔
عیسائیوں کے برخلاف مسلمانوں نے امیر زنگی کے قتل پر بہت آنسو بہائے ،شام کی عیسائی ریاستوں کو امیر زندگی ہی دبائے ہوئے تھا، اس نے الرہا کے عیسائی مرکز پر قبضہ کر کے نصف صدی کے کچلے ہوئے مسلمانوں کو سر اٹھا کر چلنا سکھایا تھا ،یہ وہی امیر موصل تھا جس سے مرعوب ہوکر قسطنطنیہ کا شہنشاہ ایسا کامنی نس بے نیل و مرام محاذ جنگ کو رات کے اندھیرے میں چھوڑ کر بھاگ گیا تھا ،مسلمان امیر موصل عمادالدین کو حامی دین اور شاہ شاہان کے نام سے پکارتے تھے۔
ان کا خیال تھا کہ امیر زنگی کے ہٹ جانے سے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کی رفتار سست پڑ جائے گی اور عیسائیوں کی دو بزدل طاقتیں پھر سے بھالا لے کر کھڑی ہو جائیں گی، کسی کو یہ نہ معلوم تھا کہ امیر زنگی کے قتل اور مسلمانوں کی زبان میں اس کی شہادت میں قدرت کا کیا راز پوشیدہ تھا ایسی ہی موقعوں کے لیے شاعر نے کہا ہے۔
🌹🌹🌹🌹۔
وداع غنچہ میں ہے راز آفر ینش گل
عدم، عدم ہے کہ آئینہ دار ہستی ہے
🌹🌹🌹🌹۔
یعنی غنچہ بظاہر رخصت ہوجاتا ہے مگر اس کے پردے سے پھول نمودار ہوتا ہے ،یعنی جب ایک جاتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا آتا ہے اور یہ نیا آنے والا پہلے والے سے زیادہ بہتر ہے، اس لیے ہمیں جانے والوں پر آنسو بہانے کی بجائے آنے والوں کا خیرمقدم کرنا چاہیے کہ کیا عجب نیا آنے والا ان کاموں کو مکمل کر ڈالے جو جانے والا اپنی موت کی وجہ سے مکمل نہ کر سکا۔
امیر زنگی کی اچانک شہادت پر عیسائی عوام ہی نہیں بلکہ خواص اور متعصب مغربی مورخوں نے بھی خوب بغلیں بجائیں، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مغربی مورخین نے مسلم بادشاہوں اور مشہور حکمرانوں کے حالات کی تالاش میں بڑی عرق ریزی کی ہے، لیکن وہ اپنا تعصب نہیں چھپا سکے اور انہیں جس جگہ بھی موقع ملا انہوں نے صرف مسلمانوں کے معاملات میں حقائق کو توڑنے مروڑنے اور غلط تاثر دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
مغربی داستان گو لین پول جو مؤرخ کم اور سحرطراز افسانہ نگار زیادہ ہے ،وہ امیر موصل عماد الدین زنگی کی شہادت کے سلسلے میں کہتا ہے۔
عماد الدین زنگی دریائے فرات کے نزدیک جعبر کا محاصرہ کیے ہوئے تھا ،ایک رات شراب پئے وہ غافل سو رہا تھا کہ اس کے چند غلام خیمے میں گھس آئے، اور بچی ہوئی شراب پینی شروع کردی، ان کے شور سے زنگی (امیر زنگی) کی آنکھ کھل گئی اور وہ غلاموں کو ڈانٹ ڈپٹ کے پھر سو گیا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نا معقول حرکت کی پاداش میں متوقع سزا کے ڈر سے غلام بیحد خوفزدہ ہو گئے، اکثر اوقات انا بیگ (امیر زنگی) اتنا ظلم روا رکھتا کہ اس کے خدام عالم مایوسی میں ہر فعل کے ارتکاب کرنے پر آمادہ ہوجاتے تھے، یہی مایوسی اس وقت بھی ان پر طاری ہوئی انہوں نے نیت کی اور سوتے میں زنگی کو چھرا گھونپ دیا۔
اس مورخ نے اپنے اس بیان میں اس قدر تعصب اور جھوٹ سے کام لیا ہے امیر پر شراب نوشی کا الزام لگایا گیا ہے، جس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ،پھر شور سے امیر زنگی کی آنکھ کھل جانا اور خدام کو ڈانٹ کے پھر سو جانا، اسے مؤرخ میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ امیر زنگی میں فیصلہ کرنے کی طاقت نہیں تھی، اس کے ذہن میں یہ خیال قطعی نہیں آیا کہ جو خدام شراب کے لیے جھگڑا کر سکتے ہیں وہ اسے قتل بھی کر سکتے ہیں، گویا امیر عقل و فراست سے بالکل خالی تھا اور اس نے غلاموں کو موقع فراہم کیا کہ وہ اسے قتل کر دیں۔
اس قسم کی تحریر ایک اچھے ادیب کے لئے جو خود مؤرخ کہلوانے کا دعویدار ہے زیب نہیں دیتی، خواجہ سرا یار کتش کا اس سازش میں شریک ہونا اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ وفادار سے وفادار غلام پر بھی اعتماد نہیں کرنا چاہیے، ورنہ وہ غلام جن سے امیر زنگی کی مخالفت کا اعزاز حاصل ہو اسے کیا کچھ اختیار حاصل نہ ہوں گے، مگر غلام تو پھر غلام ہے وہ کسی وقت بھی دھوکا دے سکتا ہے۔
شخصی حکومت میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ کوئی اپنی زندگی میں کتنا ہی جلیل القدر اور صاحب اقتدار کیوں نہ رہا ہو اس کی آنکھ بند ہوتے ہی عزیزواقارب کے علاوہ اس کے خاص وفادار اور جانثار اس سے اس طرح آنکھ پھیر لیتے ہیں جیسے ان کا کوئی تعلق ہی نہ ہو، امیر زنگی نے اپنی زندگی میں اپنے اور غیروں کے لیے کیا کچھ نہ کیا ،ملک ملک کے غلاموں کو اس نے سر پر بٹھایا ،اس ان کی وفاداری سے زیادہ انہیں دیا، مگر ان کے ہی ایک وفادار کا خنجر ان کے سینے میں اتر گیا، امیر کے تین نوجوان بیٹے تھے، بڑا بیٹا سیف الدین غازی موصل میں تھا، چھوٹا بیٹا قطب الدین مودود بھی بڑے بھائی کے ساتھ تھا، منجھلا بیٹا نورالدین زنگی اس مہم میں امیر زنگی کے ساتھ تھا ،مگر جب اسے اپنے باپ کی شہادت کی خبر ملی تو اس کی میت اٹھانے کے بجائے اس نے نئے جانشین کے انتخاب کے لیے مشورت کی محفل منعقد کرلی، اور اس محفل نے اتنی طوالت اختیار کی کے امیر زنگی کے عزیزوں اور لشکریوں کے بجائے رقہ سے آنے والے ایک تجارتی قافلہ کے لوگوں نے امیر موصل کا کفن دفن کیا، کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ جس امیر کے چشم و آبرو کے اشارے سے سلطنتوں کے فیصلے ہو جاتے تھے اس کے جنازے کو غیر ملکیوں کا کاندھا نصیب ہوا۔
اسد الدین شیرکوہ نے صرف امیر موصل عماد الدین زنگی کا چہرہ دیکھا تھا ،وہی اس کا آقا اور وہی اس کے خاندان کا ولی نعت تھا ،امیر موصل کا خون میں لتھڑا ہوا لاشہ۔۔۔۔۔۔ دیکھ کر شیر کوہ سن پڑ گیا تھا، اس کے حواس قابو میں نہ رہے، موت برحق ہے لیکن شیرکوہ کے تصور میں بھی نہ تھا کہ میدان کے اس شیر کو اس بے دردی سے قتل کیا جائے گا اور وہ اس کمپرسی کے عالم میں ہوگا کہ اس کی لاش پر نہ تو کوئی چراغ جلانے والا ہوگا اور نہ آنسو بہانے والا، اس کے کان میں یہ صدا پڑ چکی تھی کہ شہزادہ نور الدین کے خیمے میں نئے امیر کے جانشین کے انتخاب کی محفل جمی ہوئی ہے، پس وہ بھی ایک سحر زدہ انسان کی طرح شہزادہ کے خیمے کی طرف چلا، شیر کوہ بلا کا شجاع تھا لیکن ذہانت کے معاملے میں وہ اپنے بڑے بھائی نجم الدین ایوب سے کم تھا، مگر نجم الدین اس سے دور اور بعلبک کی گورنری کر رہا تھا اس لئے اس سے مشورہ کا وقت نہ تھا، چنانچہ شیر کوہ سر جھکائے شہزادہ نور الدین کے خیمے پر پہنچا۔
شہزادہ کے خیمے میں جعبر سے آنے والے لشکر کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے سردار موجود تھے، کہنے کو یہ مجلس مشورت تھی اور اس میں مرحوم امیر کا جانشین چنا جانا تھا مگر چناؤ اور انتخاب تو اس وقت ہوتا ہے جب کئی امید وار میدان میں ہوں اور ان کے مداحین گرما گرم بحث کرنے پر آمادہ ہوں، شہزادہ نورالدین زنگی شہزادوں کی ترتیب میں درمیانی یعنی منجلا شہزادہ تھا ،اصولی حیثیت سے عماد الدین زنگی کے بعد اس کا سب سے بڑا بیٹا شہزادہ سیف الدین غازی عمارت کا حقدار تھا ،لیکن وہ اس وقت دارالسلطنت موصل میں تھا اس کا کوئی ہمدرد امیر بھی یہاں موجود نہیں تھا جو اس کے حق میں سر اٹھاتا اور کہتا کہ شہزادہ سیف الدین غازی بڑا شہزادہ ولی عہد سلطنت ہے اس لیے کسی انتخاب کی ضرورت نہیں لیکن اس مجمع اغتیار میں ایسی آواز کون اٹھاتا، اور بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا ،موصل کا تقریبا پورا لشکر جعبر کے قلعے پر موجود تھا اور اس لشکر کے سب سردار نور الدین زنگی کے حق میں تھے، یعنی طاقت کا توازن شہزادہ نورالدین کے حق میں تھا ،اسی لیے کسی مخالفت کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا ،تمام سرداروں نے آنکھیں بند کرکے نورالدین زنگی کو موصل کی عمارت کا واحد وارث اور حقدار تسلیم کرلیا تھا، صرف شہزادے کی روایتی انداز میں منظوری باقی تھی ،نورالدین زنگی نے شاید کبھی ایسا سوچا بھی نہ ہوگا، لیکن حالات نے تمام امیروں اور سرداروں کو اس کی جھولی میں ڈال دیا تھا ،پھر بھلا وہ اس اعجاز سے کیوں انکار کرتا ،پورا لشکر اس کے اقرار کا انتظار کر رہا تھا کہ ٹھیک اس وقت اسدالدین شیر کوہ خیمے میں داخل ہوا۔
شیرکوہ کے ہاتھ میں اس وقت بھی وہ خون آلود تلوار تھی جس سے اس نے بھاگتے ہوئے دو قاتلوں کو ختم کیا تھا ،اس کا سر غم غصے سے جھکا ہوا تھا، اسے دیکھے کے مجلس کا ہر شخص جیسے چونک پڑا، شہزادہ نورالدین اسے دیکھ کے ایسا گھبرایا کہ اس کے استقبال کے لیے اٹھ کے کھڑا ہوگیا ،شیرکوہ نہ تو لشکر کا سپہ سالار تھا اور نہ وزیر اعظم مگر پھر بھی امیر کے بیٹوں اور اس کے درباریوں پر اس کا اثر تھا کہ نورالدین کو کھڑے ہو کر اس کا استقبال کرنا پڑا ،نورالدین زنگی کے کھڑے ہونے سے باقی لوگ بھی اٹھ کے کھڑے ہو گئے ،ایک تو شہزادہ نورالدین کا خیال جسے وہ تقریبا موصل کا نیا امیر تسلیم کرچکے تھے، دوسرے شیر کوہ اور اس کے بھائی نجم الدین ایوب کے کارناموں کا رعب ان باتوں کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی لوگ ان بھائیوں کی عزت کرنے پر مجبور تھے۔
ادھر بیٹھو شیر کوہ!،،،،،،، شہزادہ نورالدین زنگی نے شیرکوہ کا ہاتھ پکڑ کے اسے اپنے برابر بٹھا لیا۔
شہزادے !،،،،،شیر کوہ نئے ڈبڈبائی نظروں سے شہزادے کو دیکھا۔
شہزاد نور الدین کی آنکھیں بھر آئیں ،،،،،صبر کرو شیر کوہ صبر!،،،، شہزادے کی آواز بھرا رہی تھی۔
کاش میں چند لمحے بیشتر پہنچا ہوتا ۔۔۔۔شیرکوہ نے بھی گلوگیر لہجے میں کہا۔۔۔ دو قاتلوں کا میں نے فیصلہ کر دیا مگر تیسرا بچ کر نکل گیا۔
سب کی نظریں پہلے حیرت سے پھیلی پھر ندامت سے جھک گئیں۔
اچھا دو قاتل مارے گئے؟،،،، شہزادے نے حیرانی کا اظہار کیا۔
جی ہاں شہزادے!،،،،،، بہادر شیر کوہ نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔۔۔۔ شاید قاتل اس مضموم کام کے بعد وہاں سے بھاگ نہ سکے تھے ،جس وقت میں گشت سے واپس آیا تو وہ وہاں سے بھاگ نکلنے کی کوشش میں تھے دو کو میں نے ختم کردیا لیکن تیسرا اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر نکل گیا۔
آف ظالمو!،،،،،شہزادے نے شدت غم سے سر پکڑ لیا۔۔۔ بزدلوں نے امیر بابا پر حملہ سوتے میں کیا ہوگا۔
شاید!،،،،، شیرکوہ نے بڑے افسوس سے کہا۔۔۔ بڑے تعجب کی بات ہے امیر کے خیمہ کے پاس ان کا ایک محافظ بھی موجود نہیں تھا۔
یقیناً یہ باتحیرت انگیز ہے۔۔۔ شہزادے نے شیر کوہ کی تائید کی۔۔۔۔ اچھا قاتلوں کو گرفتار کرکے فوراً پیش کیا جائے۔
حاضرین نے چونک کر شہزادہ نورالدین کو دیکھا، قاتلوں کے بارے میں تو یہی کہا گیا تھا کہ وہ امیر موصل کو قتل کرکے قلعہ جعبر میں بھاگ گئے ہیں اور اب شیرکوہ کی زبانی یہ معلوم ہوا کہ دو قاتل مارے گئے اور تیسرا بچ کر نکل گیا ،پھر شہزادہ کن قاتلوں کو حاضر کرنے کا حکم دے رہا ہے، سب کو اس بات کا احساس تھا کہ یا تو شہزادے نے غلطی سے یہ بات کہہ دی ہے یا پھر اس وقت اس کا دماغ اس قدر غیر حاضر ہے کہ اسے اپنی زبان تک پر اعتبار نہیں رہا۔
سب سے پہلے لشکری قاضی نے اس غلطی کی طرف اشارہ کیا ۔
شہزادہ معظم!،،،،،، سردار شیرکوہ نے ابھی انکشاف کیا ہے کہ دو قاتل ان کے ہاتھوں مارے گئے اور تیسرا جان بچا کر بھاگ نکلا، میرا خیال ہے کہ جب تک وہ تمام لوگ جن کا امیر مرحوم کی شہادت سے ذرا بھی تعلق ہے ان کے نام کا صحیح طور پر یقین نہیں ہوجاتا اس وقت کسی کی گرفتاری کا مسئلہ ملتوی رکھا جائے۔
شیر کوہ بھی شہزادے کے اس بے تکے حکم سے چونکا تھا، لیکن ذرا غور کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ شہزادہ نے گھبراہٹ میں قاتلوں کی گرفتاری کا حکم دیا ہے دراصل اس کا مقصد محافظوں کی گرفتاری سے تھا، چنانچہ شہزادے کی اس غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے شیر کوہ نے وضاحت کی۔۔۔۔ شہزادہ بہادر کے ذہن پر امیر مرحوم کی شہادت کا اتنا گہرا اثر ہے کہ انہیں اپنی زبان پر بھی قابو نہیں رہ گیا، دراصل شہزادے یہ کہنا چاہتے تھے کہ امیر کے خیمے پر مامور محافظوں کو گرفتار کرکے پیش کیا جائے، لیکن شدت غم کی وجہ سے شہزادہ عالی مقام کے منہ سے محافظوں کے بجائے قاتلوں کا لفظ نکل گیا ۔
شہزادہ کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا اور وہ اس کی تلافی کے لئے مناسب الفاظ ڈھونڈ رہا تھا، شیر کوہ نے اس کی یہ مشکل دور کردی۔
بالکل بالکل میں یہی کہنا چاہ رہا تھا۔۔۔۔شہزادہ فوراً بول پڑا۔
قاضی لشکر نے پھر ایک اعتراض کیا۔۔۔محافظ تو گرفتار کر ہی لئے جائیں گے لیکن اس وقت سب سے اہم مسئلہ نئے امیر کا ہے، انتخاب سے پہلے کسی اور بات پر توجہ دینا مصلحت کے خلاف ہوگا۔
شیر کوہ نے شہزادہ نورالدین کی طرف دیکھا، نورالدین اسی طرف دیکھ رہا تھا ،دونوں کی آنکھیں ملیں تو نورالدین نے نظریں جھکا لیں جس کا صاف مطلب تھا کہ شہزادہ بھی نئے امیر کے انتخاب کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔
قاضی لشکر کی مصلحت بینی قابل ستائش ہے میں ان کی مصلحت اندیشی کی تائید کرتا ہوں۔۔۔ شیرکوہ نے بھی مصلحت ہی سے کام لیا اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ تمام امراء اور سرداران لشکر شہزادے نوردین کو امیر بنانے پر تیار ہو چکے ہیں، اس لیے اس نے مخالفت کے بجائے مصالحت کا راستہ اختیار کیا اور قاضی لشکر کی تائید کرکے اس کی ہمدردی اور تعاوان حاصل کر لیا ،اس کے جواب میں قاضی نے منہ سے جواب دینے کے بجائے شیر کوہ کو ایسی نظروں سے دیکھا جس میں بے پناہ خلوص اور تشکّر جھلک رہا تھا۔
قاضی لشکر نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔ میں شہزادہ نورالدین کا نام موصل کے نئے امیر کے لیے پیش کرتا ہوں۔
میں قاضی لشکر کی تجویز کی تائید کرتا ہوں۔۔۔ ایک امیر نے تائید کردی۔
ایک اور امیر جو نسبتاً زیادہ آزاد خیال اور انصاف پسند معلوم ہوتا تھا اس نے ایک نقطہ اٹھایا۔۔۔ شہزادہ نورالدین کو کون پسند نہیں کرتا، میرے اختیار میں ہوتا تو میں بغیر کسی انتخاب کے شہزادہ کو موصل کے تخت و تاج کا مالک بنا دیتا ،لیکن ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں اس کے کچھ تقاضے اور قاعدے قوانین بھی ہیں اس لئے میری تجویز ہے کہ ہم پہلے کوئی ایسا پیمانہ میزان یا میعار تیار کر لیں جس پر ہر شہزادہ کو تولا جائے اور جو اس پر پورا اترے اسے اتفاق رائے سے اپنا امیر تسلیم کر لیا جائے۔
قاضی لشکر کو یہ تجویز پسند نہ آئی، وہ پہلے ہی شہزادہ نورالدین کو امیر منتخب کر چکا تھا اور اس نے بیشتر سرداروں کی تائید بھی حاصل کر لی تھی ،اور اگر شیر کوہ بیچ میں نہ پہنچ گیا ہوتا تو امارات کا انتخاب ہو چکا ہوتا۔
قاضی لشکر نے ناگوار لہجے میں کہا ۔۔۔کسی ملک کے امیر یا بادشاہ کے انتخاب کا پیمانہ اس کی اہلیت اور شجاعت ہوا کرتاہے، معترض اگر چاہتے ہیں تو وہ اس معیار پر ہمارے شہزادے بہادر کو پرکھ سکتے ہیں۔
شیر کوہ دربار موصل کے امراء اور سرداروں میں نہایت شجاع مگر کم سخن مشہور تھا، لیکن اکثر موقعوں پر وہ ایسی بات کہہ دیتا تھا جسے حرف آخر تسلیم کر لیا جاتا تھا ۔
اس نے دخل دیتے ہوئے کہا۔۔۔ قاضی لشکر نے درست فرمایا، اقتدار کے تخت پر بیٹھنے والے کو اہلیت اور شجاعت کا پیکر ہونا چاہیے، لیکن میں یہ بھی عرض کروں گا کہ اگر ہم نے بغیر جانچے اور پرکھے کسی کو امیر منتخب کرلیا تو موجودہ اور آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی، اس لیے امیر کی پیشکش کی تجویز پر توجہ دینا ضروری ہے۔
شیرکوہ نے اس وقت ایک تیر سے دو شکار کیے، اس نے قاضی کی مخالفت بھی نہیں کی اور میعار کی تجویز پیش کرنے والے کو بھی اپنا ہم خیال بنالیا، قاضی لشکر کی بھو کا تناؤ کچھ کم ہوگیا۔
انہوں نے نرم لہجے میں کہا۔۔۔۔ مجھے سردار شیر کوہ کی رائے سے پورا اتفاق ہے ،اس کے ساتھ ہی میں ان سے درخواست کرتاہوں کہ وہ اہلیت اور شجاعت کے پیمانے پر شہزادوں کو پرکھ کے دربار خاص کو مطلع فرمائیں۔
شیرکوہ نے گھورتے ہوئے قاضی لشکر کو جواب دیا۔۔۔ قاضی لشکر نے مجھے ایک بڑے امتحان میں ڈالا ہے، لیکن میں مشکل راستوں سے گزرنے کا عادی ہوں، پہلا میعار اہلیت کا ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ کسی شمشیر زن یا شہسوار کے جوہر اسی وقت ظاہر ہوتے ہیں جب اس کے ہاتھ میں تلوار اور اس کی ران تلے گھوڑا ہو، بظاہر سب شہزادوں میں اہلیت نظر آتی ہے، مگر ان میں سے صحیح معنوں میں کسی شہزادے نے بھی کبھی امیر مرحوم کی نہ تو نیابت کی ہے اور نہ کبھی انہیں قائم مقام امیر مقرر کیا گیا ہے، اب رہا شجاعت کا معاملہ، اس سلسلے میں مجھے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ،امیر مرحوم جب بھی جہاد پر تشریف لے جاتے تھے ان کے ساتھ ہمیں عام طور پر شہزادہ نورالدین زنگی ہی نظر آتے تھے، ہمیں نہیں معلوم کہ امیر مرحوم دوسرے شہزادوں کو جہاد پر کیوں نہیں لے جاتے تھے، ظاہر ہے کہ شہزادہ نورالدین اپنی شجاعت اور تلوار کا میدان جنگ میں عملی ثبوت دے چکے ہیں، اس لیے ان کی شجاعت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔
بالکل ٹھیک سردارشیر کوہ سچ فرماتے ہیں۔۔۔ قاضی لشکر نے مسرت سے کہا۔۔۔ میرا خیال ہے کہ سردار شیر کوہ نے شہزادہ نورالدین کو بحیثیت امیر موصل منتخب کرنے میں مجھ سے اتفاق کیا، یہ کہہ کے قاضی نے مسکرا کے شیرکوہ کو دیکھا۔
نہیں قاضی لشکر ہرگز نہیں؟!،،،،،شیر کوہ تقریبا چیختے ہوئے بولا۔۔۔ میں شہزادہ نورالدین کو بحیثیت امیر موصل تسلیم کرنے کی مخالفت کرتا ہوں، ایسا کرنے سے آگ اور خون کی ہولی میں ہماری پوری سلطنت بہہ جائے گی۔
قاضی لشکر نے کمال حیرت سے شیرکوہ کو دیکھا ،،،،،سردارشیر کوہ آپ نے ابھی ابھی شہزادہ نورالدین زنگی کو تمام شہزادوں سے زیادہ شجاع اور بہادر تسلیم کیا ہے اور اب آپ انہیں کی مخالفت کر رہے ہیں، آخر کہنا کیا چاہتے ہیں؟
شیرکوہ نے متانت سے جواب دیا ،قاضی محترم!،،،،، آپ نے غور فرمایا کہ اگر ہم نے شہزادہ نورالدین کو امیر عماد الدین زنگی کے واحد جانشین کی حیثیت سے امیر موصول ہونے کا اعلان کیا تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا، موصل میں اس وقت شہزادہ سیف الدین غازی موجود ہے، چھوٹا شہزادہ قطب الدین مودود بھی انکے ساتھ ہے، سلطنت موصل کا نائب السلطنت زین الدین علی کوچک ایک بڑا اور اہم سردار ہے، اس کا تعاون حاصل کیے بغیر امیر موصل کا انتخاب بے معنی سا بن جاتا ہے، سوائے اس لشکر کے جو اس وقت قلعہ جعبر کے محاصرہ کے لیے یہاں موجود ہے، باقی تمام لشکر موصل میں ہے ان تمام حالات میں شہزادہ سیف الدین کا ہاتھ موصل اور اہل موصل پر ہم سے زیادہ ہے۔
شہزادہ نورالدین اور دوسرے سردار شیر کوہ کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے، شہزادہ نے شاید اس معاملات پر اب تک غور ہی نہیں کیا تھا، شیرکوہ کی باتوں نے اس کی آنکھیں کھول دی اور وہ مایوس نظر آنے لگا، قاضی لشکر کو شیر کوہ پر غصہ آ رہا تھا۔
انہوں نے اس جھنجھلاہٹ میں کہا۔۔۔ سردار شیر کوہ کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شہزادہ غازی کی وکالت کر رہے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ہم شہزادہ غازی کے سامنے ہتھیار ڈال کے ہمیشہ کے لئے ان کی غلامی قبول کرلیں، پھر قاضی نے براہ راست شیرکوہ کو مخاطب کیا۔۔۔ سردار شیر کوہ، فرمائے کیا میں نے آپ کے خیالات کی صحیح ترجمانی نہیں کی، افسوس ہے کہ میں آپ کو ایک عقلمند اور شہزادہ نورالدین کا وفادار سمجھتا تھا ،لیکن آپ تو مار آستین ثابت ہوئے، کم ازکم میں شہزادہ سیف الدین قاضی کو اپنا امیر تسلیم کرنے پر تیار نہیں، خواہ میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
مجھے افسوس ہے کہ قاضی محترم نے میری باتوں کو توجہ سے سننے کی زحمت نہیں فرمائی۔۔۔ شیرکوہ نے غصے کو ضبط کیا۔۔۔ میں نے نہ کسی کی وکالت کی ہے اور نہ میں شہزادہ نورالدین زنگی کی وفاداری سے انکار کا تصور کر سکتا ہوں ،ہاں میں اس بات کے قطعی خلاف ہوں کہ شہزادہ نورالدین کو امیر موصل کے نام سے اقتدار میں لایا جائے اور مسلمانوں کا وہ لشکر جیسے امیر مرحوم نے برسوں کی محنت سے عیسائیوں کے خلاف جنگ کے لیے تیار کیا ہے دو دھڑوں میں بٹ کے آپس ہی میں ٹکرا جائے، شہزادہ سیف الدین غازی کسی صورت بھی اقتدار چھوڑنے پر آمادہ نہ ہو گا، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم شہزادہ نورالدین کی امارت کا اعلان کرتے وقت موصل سے کچھ جھگڑا مول نہ لیں۔
قاضی لشکر شیرکوہ کی گول مول (جو دراصل مصلحت آمیز تھیں) باتوں سے الجھ رہا تھا ،اس نے بیچ ہی میں ٹوک دیا ۔
۔۔۔سردار آپ کیسی متضاد باتیں کر رہے ہیں، ایک طرف آپ شہزادہ نورالدین کی امارت کا اعلان بھی کرنا چاہتے ہیں دوسری طرف یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ موصل سے جھگڑا مول نہ لیا جائے، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ایک وقت میں سلطنت موصل کے دو امیر ہوں، ایک شہزادہ سیف الدین غازی اور دوسرا شہزادہ نورالدین زنگی ؟
قاضی لشکر اس طرح بھی ہو سکتا ہے لیکن۔۔۔۔
قاضی لشکر نے شیرکوہ کو آگے نہ بولنے دیا اور بات کاٹ کے بولا۔۔۔ اس طرح سردارشیر کوہ صاف بات یہ ہے کہ آپ شہزادہ سیف الدین غازی سے یا تو خوفزدہ ہیں یا کسی اور بنا پر یہ نہیں چاہتے کہ ان سے بگاڑ لیا جائے، خواہ اس سے ہمارے بہادر شہزادہ نورالدین زنگی کی حق تلفی کیوں نہ ہو جائے۔
قاضی محترم !،،،،،،،شیرکوہ کو جیسے جلال آگیا، آپ شرعی معاملات میں ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں لیکن اس دور کی سیاست کو سمجھنا آپ کے بس کا روگ نہیں ،تخت و تاج کے تقاضے دنیاوی امور ہیں جن میں مصلحت سے کام لینا پڑتا ہے، میں جانتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ امیر مرحوم کے اہل اور واحد جانشین شہزادہ نورالدین زنگی ہیں اور ہم پر صرف اور صرف یہی حکومت کریں گے لیکن میں چاہتا ہوں کہ شہزادہ کی امارت کا اعلان میدان جنگ کے بجائے حلب میں پہنچ کے کیا جائے۔
چلئے ہم نے آپ کی بات مان لی۔۔۔ قاضی لشکر جیسے زچ ہوگئے۔۔۔ لیکن قلعہ جعبر کا کیا کیا جائے، جبکہ شبہ ہے کہ امیر کو شہید کرنے والے قلعہ جعبر سے آئے تھے اور اپنا کام کرنے کے بعد قلعہ کو واپس ہوگئے۔
قلعہ جعبر پر قبضہ کرنا امیر مرحوم کی مصلحت تھی۔۔۔ شیر کوہ نے بے پرواہی سے کہا۔۔۔ جب امیر ہی نہ رہے تو ان کی مصلحت کے پیچھے دوڑنا کونسی عقلمندی ہے، ہمیں ہر قسم کی جنگ سے گریز کر کے اپنی طاقت اکٹھا کرنا چاہیے، اگر کسی صورت قلعہ والوں سے صلح ہوجائے تو یہ اور زیادہ بہتر ہوگا، ہمیں ایک نیا اور طاقتور حلیف مل جائے گا۔
قاضی لشکر پھر کچھ کہنا چاہتے تھے کہ شہزادہ نورالدین زنگی نے انہیں اشارے سے روک دیا ۔
میں شیرکوہ کے مشورے سے پورا اتفاق کرتا ہوں ،لشکر میں اعلان کیا جائے گا کہ ہم حلب جا رہے ہیں، موصل سے ہم دوستانہ گفتگو کریں گے اور اگر ضرورت پڑی تو تلوار اٹھائیں گے۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
امروزیہ کی خوش قسمتی تھی کہ وہ شیرکوہ کے ہاتھ سے بچ گئی ورنہ یار کتش اور جبار کی طرح اس کا مارا جانا بھی لازمی تھا ،جس وقت خواجہ سرا یار کتش اور جبار خیمے کے اندر امیر عمادالدین زنگی پر خنجروں کی بارش کر رہے تھے امروزیہ خیمہ کے باہر ننگی تلوار سوتے پہرا دے رہی تھی، یار کتش اور جبار کو باہر آنے میں تاخیر ہوئی تو امروزیہ کو پسینے چھوٹ گئے ،اس نے گھبرا کر اندر جھانکا سامنے امیر کا جسم خون کے تالاب میں ڈوبا پڑا تھا، اور یار کتش اور جبار گھبرائے ہوئے خیمے کے ایک کونے میں کھڑے تھے، مدھم شمع کی روشنی میں دونوں کے خنجروں میں اس آقا کا خون جما ہوا تھا جس نے یار کتش کی بچپن سے پرورش کی تھی، جبار کو بھی امیر کی خدمت میں آٹھ سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا تھا۔
کیا بات ہے باہر کیوں نہیں آتے؟،،،، امروزیہ نے لرزتی آواز میں پوچھا، حالانکہ اسے یقین ہو چکا تھا کہ اس کی آواز مرحوم امیر کے کانوں تک نہیں پہنچ سکے گی، اس وقت تک تو ان کا جسم بھی ٹھنڈا ہو چکا تھا۔
باہر تمہارے پاس کون تھا؟،،،، یار کتش کی آواز حلق میں اٹک رہی تھی۔
کوئی نہیں، سب تمہارا وہم ہے، آ جاؤ باہر۔۔۔ امروزیہ نے تحکمانہ لہجے میں کہا ۔
باہر ایک بار پھر ٹھیک سے دیکھ لو۔۔۔جبار کی آواز بھی کپکپا رہی تھی۔
امروزیہ کو معلوم تھا کہ باہر کوئی نہیں ہے اور ان دونوں پر خون کی دہشت طاری ہے، مگر اس نے بھی اپنا سر بڑے احتیاط سے باہر کھینچا اور نظریں گھما کر اچھی طرح اطمینان کیا، ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا ،خیمے کے پہرے دار منصوبے کے مطابق پہلے ہی بھاگ گئے تھے، امروزیہ نے انہیں بیش قیمتی جواہرات کا ایک ایک ہار اس نمک حرام کے صلہ میں عطا کئے تھے۔
جلدی سے آ جاؤ باہر کوئی نہیں ہے۔۔۔ امروزیہ نے پھر سر اندر کرکے دونوں کو اطمینان دلایا۔
دیکھو !،،،،خواجہ یار کتش نے چونکتے ہوئے کہا۔۔۔ باہر کسی کے چلنے کی آواز آرہی ہے، ذرا ٹھیک سے دیکھو امروزیہ شیرکوہ آگیا تو ہم کتے کی موت مارے جائیں گے۔
اسی لئے تو کہہ رہی ہوں کہ سب تمہارا وہم ہے، جلدی کرو ورنہ،،،،، امروزیہ یہ کہتے کہتے رک گئی یار کتش اور جبار ڈرتے ڈرتے باہر نکلے، کہتے ہیں کہ مرنے والے کو اپنی موت نظر آجاتی ہے، یار کتش اور جبار جس شیر کوہ کے خوف سے خیمے کے اندر دبکے ہوئے تھے وہ واقعی ان کی موت بن کر آ گیا۔
گھوڑے کی آواز۔۔۔ اور جبار ٹھٹک کر کھڑا ہوگیا ۔
یار کتش اور امروزیہ کے قدم بھی رُک گئے، انہوں نے بھی آواز کی طرف کان لگائے۔
ہاں گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز ہے، کوئی تیزی سے ادھر آ رہا ہے ۔
امروزیہ کی زبان سے اتنانکلا تھا کہ جبار یار کتش سے لپٹ گیا۔
بھائی مجھے بچا لو۔۔۔۔شیر کوہ مجھے نہیں چھوڑے گا۔
یار کتش نے جھٹکا دے کر جبار کو اپنے سے الگ کیا۔۔۔ ہوش میں آ۔
بزدل!،،،،، امروزیہ نے غصے سے زمین پر تھوک دیا ۔۔۔میں تجھے شیر سمجھتی تھی لیکن تو بکری نکلا۔
جبار نہ بزدل تھا اور نہ نمک حرام ،اسے تو یار کتش کی دوستی اور کچھ امروزیہ کی محبت نے راستے سے بھٹکا دیا تھا ،اس نے بھی میدان جنگ میں بہادری کے جوہر دکھائے تھے، لیکن جب اس نے اپنے آقائے نعمت پر خنجر تانا تو اسے یوں محسوس جیسے امیر مرحوم کہہ رہے ہوں۔۔۔۔نمک حرام کیا کر رہا ہے، جس درخت کے سائے میں بچپن سے جوانی تک پہنچا اسے جڑ سے اکھاڑ پھینک رہا ہے ،تیرا باپ نہیں تھا میں نے تجھے باپ کی شفقت دی، تیری ماں نے منہ موڑا تو میں نے ممتا کے زخم کو اپنی سخاوت اور کرم کے دھاروں سے بھر دیا، پھر بھی تو مجھ پر ہاتھ اٹھا رہا ہے ،اپنے باپ پر اپنی ماں پر اور اپنے محسن پر۔
جبار کا اٹھا ہوا ہاتھ ہوا میں معلق ہو کر رہ گیا، قریب کھڑے ہوئے یار کتش نے اسے ٹہوکا مارا ،جبار پھر بھی ہوشیار نہ ہوا تو یار کتش نے امیر موصل پر پہلا وار کرکے جبار کے لئے راستہ کھول دیا ،اس کے اندر کا شیطان پھر جاگ اٹھا اور اس نے امیر کے خون اگلتے ہوئے سینے پر پیہم کئی وار کردیے، امیر پہلے ہی وار میں نیم جان ہو چکا تھا ،اس نے آنکھیں کھولی موت اس کے آنکھوں سے بنائی پہلے ہی چھین چکی تھی، امیر کی آنکھیں جس طرح کھلی تھی اسی طرح آہستہ آہستہ بند ہوگئی ۔
کہتے ہیں کہ خدائے لا شریک بعض گناہوں کی سزا انسان کو اس دنیا ہی میں دے دیتا ہے۔ خواجہ سرا یار کتش اور جبار نے امیر مرحوم کا خون صرف اپنی غرض کے لیے کیا تھا ،یار کتش امیر سے اپنی توہین کا بدلہ لینا چاہتا تھا، اور جبار نے اپنی محبوبہ کے حصول کے لئے یہ گھناؤنا قدم اٹھایا تھا، اس لئے قدرت کے ابرو پر بل آ گیا اور عدل کو حکم ہوا کہ یار کتش اور جبار کو ان کے کیے کی سزا فوراً دی جائے ،چنانچہ سردار شیر کوہ ان احسان فراموشوں، غداروں اور نمک حراموں کی موت بن کے اس منظر میں نمودار ہوا ،اور بھاگتے ہوئے یار کتش اور جبار کو ان کے کیے کی فوری سزا مل گئ ،صرف امروزیہ جان بچا کے قلعہ جعبر میں پہنچ سکی۔
امروزیہ اپنی کامیابی پر بہت خوش تھی ،امیرعماد الدین زنگی کے قتل سے ایک طرف تو امروزیہ کے سینے میں انتقام کی سلگتی ہوئی آگ سرد ہوئی تھی دوسری طرف اسے یار کتش اور جبار جیسے خطرناک انسانوں سے بھی چھٹکارا مل گیا تھا ،جس وقت شیرکوہ یار کتش پر تلوار کا وار کیا اس وقت امروزیہ اس کے بالکل بائیں جانب ہی تھی، اس نے شیر کوہ کی تلوار بلند ہوتے اور یار کتش پر گرتے دیکھی تھی، اسے یقین تھا کہ یار کتش اف تک نہ کر سکے گا اور بالکل ایسا ہی ہوا ،جبار اسے بچانے کی کوشش میں شیرکوہ کے سامنے پہنچ گیا تھا امروزیہ جبار کی آواز پر بڑی تیزی سے ایک خیمہ کی آڑ میں ہوگئی تھی، لیکن اس وقت شیرکوہ کی تلوار جبار پر اٹھ چکی تھی اور جس انداز سے تلوار بلند ہوئی تھی اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہ تھا کہ اس وار کو روکنے کے لیے اگر لوہے کی سلاخ بھی آگے کر دی جائے تو وہ دو تکڑے ہو جائے گی۔
امروزیہ نے جبار کی موت کا منظر اپنے تصور میں دیکھا پھر جب اسے محسوس ہوا کہ شیر کوہ اپنے شکار سے فارغ ہوکر واپس جارہا ہے تو وہ بھی خیموں کی آڑ لیتی ہوئے قلعہ تک پہنچی، اور اور نابدان کے راستے اندر چلی گئی، یار کتش امروزیہ کو اپنے منصوبے میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن امروزیہ اپنی چاہنے والے سے ضد کرکے اس منصوبے میں شریک ہو گئی تھی، یار کتش کو خیال تھا کہ ایسے سنگین معاملہ میں عورت کو شریک کرنے سے راز کھلنے اور منصوبہ ناکام ہونے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے مگر معاملہ بالکل الٹ ہو گیا، امروزیہ تو صاف بچ گئی اور احتیاط کرنے والا یار کتش اور جبار مارے گئے۔
امروزیہ قلعے میں پہنچی تو صبح کا اجالا پھیلنے لگا تھا ،اس نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ موت اس کے بالکل قریب سے گزری تھی، باوجود بڑی سخت دل اور نڈر ہونے کے اسے کپکپی سوار تھی، وہ جلدی سے بستر میں گھس گئی اور اپنے خیالات مجتمع کرنے لگی، ایک دل کہتا تھا کہ چل کے مروان لنگ حاکم ولعہ کو تمام حالات سے آگاہ کر دے امیر موصل عمادالدین زنگی کے قتل کی خبر سے مروان رنگ ضرور خوش ہوگا اور امروزیہ کوانعام بھی دے گا، مگر دوسرا دل کہتا کہ بڑے لوگوں کا کوئی اعتبار نہیں۔
بادشاہوں کی تلون مزاجی یوں ہی مشہور ہے، کیا خبر مروان لنگ اسے گرفتار کرکے امیر کے لشکر کے حوالے کر دے، اس خیال سے وہ پریشان ہو جاتی اور اس خبر کو خود عام کرنے کا خیال اس کے ذہن سے نکل جاتا۔
امروزیہ دوپہر تک بستر میں گھسی رہی پھر وہ محض دل بہلانے اور باہر کے گن سن لینے ازقوف اور سوسی کے گھر پہنچ گئی، ان دونوں نے شادی کے بعد اپنا الگ گھر بنا لیا تھا۔
ازقوف اسے دیکھ کر چونک پڑا ،امروزیہ اس کے گھر پہلی مرتبہ آئی تھی حالانکہ ازقوف اور سوسی اس کے گھر کئی بار ہو آئے تھے، اور اسے بلا بھی بہت آئے تھے، لیکن امروزیہ کو اپنے جھگڑے ہی سے فرصت نہ ملتی تھی پھر وہ ان کے یہاں کیوں جاتی ۔
ازقوف اور سوسی اسکے مطلب کے بھی نہ تھے، سوسی بے وقوفی کی حد تک سیدھی تھی اور ازقوف کو سوائے ھنسانے اور کچھ نہیں آتا تھا۔
ارے یہ چاند کدھر نکل آیا۔۔۔؟سوسی نے آگے بڑھ کے امروزیہ کو خوش آمدید کہا۔
چاند نہیں سورج کہو سوسی، دیکھتی نہیں کہ پورے گھر میں دھوپ پھیل گئی ہے۔۔۔ از قوف حسب عادت ہنستا ہوا امروزیہ کی طرف بڑھا۔
بس باتیں کرنے کا جی چاہا اور تمہاری طرف آگئی۔۔۔ امروزیہ نے رسماً کہا ۔۔۔تم لوگوں کا تقاضا بھی تھا ،میں نے کہا چلو آج تم سے بھی مل لیتے ہیں۔
پھر آرام سے بیٹھو اور کرو جتنی باتیں دل چاہے، مگر اس بات کا خیال رکھنا کہ جتنی باتیں تم کرو گی اتنی ہی باتیں تمہیں ہماری سننا پڑے گی۔۔۔ ازقوف نے مشروط پیشکش کی۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ امروزیہ نے حامی بھر لی۔۔۔ مگر حساب کتاب تم رکھنا ،میں تمہاری باتیں ضرور سنو گی بلکہ جب تک تم باتیں کرتے رہوگے میں سنتی رہوں گی ۔
چاہے رات ہو جائے انہوں نے ان کو گھیرنے کی کوشش کی۔
رات ہی نہیں خواہ دوسرا دن آجائے، مگر میں تمہاری بات سنے بغیر نہیں جاؤں گی۔
چلو بس ہو گیا ۔۔۔پھر اس نے سوسی سے درخواست کیا۔۔۔ میری پیاری بیوی آپ دوپہر کا کھانا، رات کا کھانا، اور کل صبح کا ناشتہ بھی ابھی سے تیار کر لیجئے ،آج میرے اور ان کے درمیان باتوں کا مقابلہ ہوگا، اور یہ مقابلہ کل تک جاری رہ سکتا ہے ۔
امروزیہ مسکرائی ۔۔۔دوپہر کا کھانا میں کھا کے آئی ہوں۔
پھر اجازت ہو تو ہم دونوں بھی کچھ زہر مار کر لیں۔۔۔ ازقوف نے کہا۔۔۔ میرے پیٹ میں تو چوہے دوڑ رہے ہیں۔
ازقوف اور سوسی کھانے بیٹھ گئے، امروزیہ کو بھی انہوں نے زبردستی شامل کرلیا، مشہور ہے کہ ذہن پر بوجھ ہو تو انسان دیواروں سے بھی باتیں کر لیتا ہے، اس سے طبیعت ہلکی اور ذہن صاف ہوجاتا ہے، امروزیہ نے جو کچھ دیکھا تھا اور اس پر جو کچھ گزرا تھا وہ ایک بہت بڑا بوجھ تھا ،امروزیہ اسی لئے آئی تھی کہ ازقوف اور سوسی سے باتیں کر کے اس بوجھ کو ہلکا کرے گی، اسے اس سلسلے میں ان سے مشورہ بھی لینا تھا، امروزیہ برائے نام ہی کھانا کھا رہی تھی۔ دراصل اس کا دماغ اس بات میں الجھا تھا کہ کہاں سے شروع کرے اور کہاں پر ختم ہو۔
کھانا ختم ہوتے ہی امروزیہ نے اپنی داستان شروع کردی، امروزیہ کو سوسی پر بڑا اعتماد تھا اور سوسی کے توسط سے وہ ازقوف پر بھی اعتماد کرنے لگی تھی، یوں ازقوف کو امروزیہ ایک جوکر یا بیوقوف سے زیادہ اہمیت نہ دیتی تھی، لیکن ازقوف اپنی تمام تر حماقتوں کے دل کا صاف انسان تھا ،اور اچھے برے کی تمیز کرتا تھا ،امروزیہ نے ایک ایک بات تفصیل سے بتانا شروع کی، کوئی اور موقع ہوتا تو ازقوف ہر بات میں کیڑے نکالتا اور اعتراضات کے دفتر کھول دیتا، لیکن از قوف اس قدر خاموشی اور توجہ سے امروزیہ کی باتیں سن رہا تھا کہ امروزیہ بھی بار بار اسے حیرانی سے دیکھتی تھی۔
ازقوف!،،،،، تم تو میری بات یوں سن رہے ہو جیسے تم وکیل ہو اور میں اپنا مقدمہ تمہارے سامنے پیش کر رہی ہوں۔۔۔ امروزیہ نے رک کر ازقوف سے سوال کیا۔
ازقوف نے بڑے مدبرانہ انداز میں امروزیہ کو دیکھا ،،،،،،،تم نے سچ کہا، یہ ایک اہم سیاسی مقدمہ ہے، مجھے یقین ہے کہ تم اپنا بیان ختم کرنے کے بعد مجھ سے مشورہ بھی طلب کروں گی؟
نہیں،،، ہاں،،،شاید،،،امروزیہ گھبرا گئی ،پہلے اس نے انکار کیا، مگر اسے واقعی مشورہ بھی لینا تھا ،اس لیے اس نے فوراً ہی اقرار کیا ،اقرار کے دوران اسے اپنی ذلت محسوس ہوئی، اس لئے اس نے اپنی ذلت کو لفظ شاید سے چھپا دیا، اور پھر بغیر رکے اپنی کہانی شروع کردی۔
امروزیہ نے ایک ایک بات کی تفصیل بیان کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے اس بیان میں دو گھنٹے سے زیادہ لگ گئے، اس تمام عرصہ میں ازقوف اپنی طرف سے ایک لفظ بھی نہ بولا، سوسی اس لئے خاموش رہی کہ اسے ازقوف کی خاموشی پر تعجب ہو رہا تھا ،ازقوف خود اتنا باتونی تھا کہ دوسروں کو بولنے کا بہت کم موقع دیتا اور جب دوسرا بولنے لگتا تو اس کی ہر بات پر اعتراض کرتا۔
امروزیہ کے خاموش ہونے کے بعد بھی خاموشی ہی طاری رہی، ازقوف اس قدر خوش طبع ہونے کے باوجود بالکل چپ تھا ،ایک دو بار اس نے ٹھنڈی سانسیں لیں جنہیں صرف سوسی محسوس کر سکتی تھی، امروزیہ اپنے بیان میں اس قدر منہمک تھی کہ اسے دنیا و مافیہا کی کوئی خبر ہی نہ تھی ،وہ کبھی جذبات میں آ کر زور زور سے ہاتھ چلانے لگتی، منہ سے تھوک اڑنے لگتا اور ہاتھ پیروں میں ارتعاش سا پیدا ہو جاتا ،جیسے اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہوگئی ہو، اپنی داستان کارگزاری بیان کرنے کے بعد وہ بھی کچھ دیر خاموش رہی، شاید وہ اپنے ہاتھ پیروں پر قابو پانا چاہتی تھی یا پھر انہیں ڈھیلا چھوڑ کر سکون دینا چاہتی تھی۔
پھر امروزیہ ایک دم ازقوف کی طرف پلٹی۔۔۔ ارے تمہیں کیا سانپ سونگھ گیا ہے، آخر تم اس قدر خاموش کیوں ہو؟
ازقوف نے کچھ ایسی نظروں سے امروزیہ کو دیکھا کہ وہ سہم گئی۔
مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو، میں نے تو امیر زنگی کو قتل نہیں کیا۔۔۔؟ امروزیہ نے ایک نامعلوم خوف کے تحت دبے لفظوں میں کہا۔
تم نے قتل نہیں کیا لیکن تم اس قتل میں خواجہ سرا یار کتش اور جبار کے ساتھ برابر کی شریک ہو ۔۔۔۔۔ازقوف نے اس قدر سنجیدگی سے کہا کہ امروزیہ کو پسینہ آگیا۔
وہ کچھ دیر از وقوف کو گھورتی رہی پھر چمک کے بولی۔۔۔ اچھا جاؤ میں نے ہی قتل کیا ہے تم کیا کر لوگے میرا، امیر زنگی غاصب تھا اس نے کتنی آبادیوں کو ویرانوں میں تبدیل کردیا، وہ ظالم اور مکار تھا۔
سوسی نے بڑھ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ ہوش میں آؤ امروزیہ ،ارے ان کی بات کا برا مان گئی، یہ تو بس یوں ہی ہیں، نہ آگے دیکھتے ہیں اور نہ پیچھے بس جو جی میں آتا ہے بک دیتے ہیں۔
ازقوف کو پتہ نہیں کہاں سے عقل آگئی، فوراً مسخروں جیسا منہ بنا لیا۔۔۔ ارے واہ رے میری امروزیہ، غصہ کی پوڑیا، ذرا چھیڑا اور اور تنک کے کھڑی ہو گئی،،،،اس کے ساتھ ہی ہاتھ جوڑے،،،، بس اب غصہ تھوک دو۔
امروزیہ اور سوسی مسکرانے لگیں،،،، دیکھا تم نے سوسی چہک کے بولی۔۔۔ دل کے ایسے صاف ہیں کہ غصہ تو ان میں رہتا ہی نہیں، ادھر آیا اُدھر گیا۔
اب تم انسان معلوم ہوتے ہو ازقوف!،،،، امروزیہ کا غصہ ٹھنڈا پڑ گیا۔۔۔ اب بتاؤ مجھے کیا کرنا چاہیے؟
مجھ سے کچھ نہ پوچھو، ایسی باتوں میں میرا دل بالکل نہیں لگتا۔۔۔ ازقوف نے بظاہر اپنا دامن بچایا۔
نہیں ازقوف!،،،،،، ان معاملات میں عورتوں سے زیادہ مردوں کی عقل کام کرتی ہے، اسی لیے تو میں سب سے پہلے تمہارے پاس آئی ہوں۔۔۔ امروزیہ نے بڑا مصالحانہ انداز اختیار کیا۔
ازقوف سوچ میں پڑ گیا، وہ بظاہر جیسا تھا مگر دل کا برا نہ تھا ،امیر زنگی کے معاملہ میں وہ پہلے ہی خلاف تھا، امیر زنگی جب جہاد پر جاتا ازقوف اس کی ٹوہ میں لگ جاتا، پھر جب امیر کی کامیابی کے چرچے عام ہو کر لوگوں کے کانوں پہنچتے تو ازقوف خوشی سے ناچنے لگتا ،اپنے ساتھیوں میں شیرنی تقسیم کرتا اور ہفتہ بھر تک مسجد میں چراغ جلانے جاتا، اس نے کسی مولوی کے آواز میں سنا تھا کہ مسجد میں چراغ جلانے سے اللہ تعالی خوش ہوتاہے، ازقوف کے دل میں یہ عقیدہ پختہ ہوتا گیا، اور اب تو اس کا یہ عالم تھا کہ جب بھی اسے کوئی خوشی نصیب ہوتی تو فوراً چراغ جلانے دوڑتا، امیر زنگی کے ہر جہاد کے بعد تو وہ بلا ناغہ چراغ جلاتا رہتا تھا۔
میرا خیال ہے کہ میں حاکم قلعہ مروان لنگ کو یہ باتیں بتا دو۔۔۔۔۔ امروزیہ نے دل کی بات کہہ دی۔۔۔ اسی مشورہ کے لئے وہ خصوصی ازقوف کے پاس آئی تھی۔
تم امیر زنگی کے قتل کا الزام اپنے سر لو گی؟،،،، سوسی نے انگلیاں چٹخاتے ہوئے تعجب کا اظہار کیا۔
یہ میں کیوں کہوں گی۔۔۔ امروزیہ نے انکار کیا۔۔۔ امیر زنگی کے قاتل جبار اور یار کتش ہیں، اور وہ دونوں اپنے انجام کو پہنچ گئے۔
ازقوف اندر ہی اندر کھول رہا تھا، اس نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔۔۔۔ امروزیہ تم مروان لنگ سے یہ باتیں بیان کر کے کیا فائدہ اٹھانا چاہتی ہو؟
امروزیہ دل کے پھپھولے پھوڑنے بیٹھ گئی۔۔۔ امیر زنگی کے قتل سے میری زندگی کی جدوجہد پوری ہوگئی، اور میرا دل ٹھنڈا پڑگیا، امیر زنگی نے سبھی کو تکلیف دی ہے، یار کتش اور جبار اس کے عتاب کے شکار ہوئے، الرہا اور سروج تباہ ہوئے، قلعہ جعبر پر حملہ کر کے اس نے کیا بزدلانہ طریقہ اختیار کیا، اگر مروان لنگ ہوشیار نہ ہوتا تو قلعہ جعبر کا حشر بھی سروج جیسا ہوتا ،کیا یہ باتیں اسے ظالم اور مکار ثابت کرنے کے واسطے کافی نہیں؟
اس ظالم کی داستان میں ایک بات کی کمی رہ گئی ہے۔۔۔ ازقوف نے آہستہ سے لقمہ دیا۔
کونسی بات؟،،،،، امروزیہ کا منہ حیرت سے کھل گیا۔
یہ بات سب سے زیادہ قابل مذمت ہے کہ امیر عماد الدین زنگی نے الروہا پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کرلیا ،اور بیچاری امروزیہ کے چار جوانسال بھائی اس ہنگامہ میں مارے گئے۔
ازقوف نے امروزیہ پر طنز کیا تھا، لیکن اس کے بھائیوں کے ذکر سے اس پر رقت طاری ہوگئی اور اس کے آنسو جاری ہوگئے۔
تم ٹھیک کہتے ہو ازقوف!،،،،،امیر زنگی کا مجھ پر سب سے بڑا یہی ظلم تھا، لیکن میں نے بھی اسے نہیں بخشا اور انتقام لے کر ہی رہی۔
ٹھیک ہے بہن ہو تو ایسی ہو ،مگر مروان لنگ ان باتوں پر کیوں توجہ دے گا ۔۔۔ازقوف نے اسے پھر چھیڑا۔
مروان لنگ کو بھی امیر زنگی سے اتنی ہی نفرت تھی جتنی مجھے ہے، امیر زنگی کے قتل کا حال سن کے وہ ضرور خوش ہوگا۔۔۔۔ امروزیہ نے بڑے یقین سے کہا۔
اس وقت سوسی نے بھی ایک سوال اٹھادیا۔۔۔ امروزیہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ مروان لنگ تمہیں گرفتار کرکے امیر زنگی کے بیٹوں کے پاس بھیج دے، اور اس کے صلہ میں قلعہ جعبر کے لیے کوئی رعایت طلب کرے۔
غلط بالکل غلط، تمہارا چھوٹا سا دماغ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتا ،،،،،اور امروزیہ اس طرح ہنسی جیسے سوسی کی عقل کا مذاق اڑا رہی ہو۔
امروزیہ اٹھ کے جانے لگی تو ازقوف نے کہا۔۔۔۔ کہاں جا رہی ہو امروزیہ!،،،، یہ رات کا کھانا اور صبح کا ناشتہ کس کے کام آئے گا؟
امروزیہ مسکرائی۔۔۔ میری طرف سے سوسی کو کھلا دینا، بہت دبلی ہو رہی ہے بیچاری ۔
پھر کب آؤ گی؟،،،،، از قوف بڑا بے چین نظر آنے لگا تھا۔
کل آ کے بتاؤں گی کہ مروان لنگ نے کیا جواب دیا۔
امروزیہ چلی گئی اور ازقوف نے اطمینان کا سانس لیا، سوسی پہلے ہی سے بھری بیٹھی تھی فوراً ازقوف پر برس پڑی۔
ٹھنڈی آہیں کیوں بھر رہے ہو؟،،،،، میں تمہاری نظریں دیکھ رہی تھی، جب سے امروزیہ آئی تھی اور جب تک واپس نہیں گئ تمہاری نظریں اسی کا طواف کرتی رہیں۔
توبہ کرو سوسی!،،،،،،،، ازقوف نے اپنے کان پکڑے۔۔۔ خدا کرے یہ کمبخت بھی اسی طرح ماری جائے جس طرح یار کتش اور جبار مارا گیا۔
سوسی نے پہلے شوہر کو دیکھ کے یہ اطمینان کیا کہ کہیں وہ جھوٹ نہیں بول رہا، پھر منہ پھلا کے بولی ۔۔۔۔۔مجھے خوش کرنے کو تو نہیں کہہ رہے ہو۔
تمہاری قسم سوسی !،،،،،،مجھے تو اس سے اس دن سے نفرت ہے جب اس نے تمہیں مجھ سے شادی کرنے سے منع کیا تھا ،یہ مجھے بھی اپنے ساتھ شامل کر کے کتے کی موت مروانا چاہتی ہے۔۔۔ ازقوف نے بھی دل کی ساری بھڑاس نکال دی،،،،، میں کہتا ہوں کہ خواجہ سرا یار کتش اور جبار مارے نہیں گئے بلکہ امروزیہ نے انہیں مروایا ہوگا ۔
سوسی نے کان کھڑے کئے،،،،، یہ تمہیں کس نے بتایا؟
بتایا مجھے کسی نے نہیں، یہ میرا اندازہ ہے، امروزیہ جیسی چالاک عورت سے ہر بات ہو سکتی ہے، وہ جبار کے ساتھ بالکل مخلص نہ تھی۔۔۔۔۔ ازقوف نے اندیشہ ظاہر کیا۔
تمہارے کہنے کا مطلب ہے کہ امروزیہ کا جبار کے ساتھ شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا ؟،،،،،،سوسی نے بڑی حیرت سے سوال کیا۔
بالکل یہی بات تھی، شادی کرنا تو الگ رہا، امروزیہ اسے دیکھنا اور بات کرنا بھی پسند نہ کرتی تھی۔
ازقوف کے لہجے میں نفرت پیدا ہوگئی تھی،،،،،، اس بات کا شبہ جبار کو بھی تھا اس نے مجھ سے کئی بار پوچھا کہ کہیں اسے امروزیہ دھوکا تو نہیں دی جائے گی، لیکن میں مصلحتاً ٹال گیا تھا۔
تمہاری اس میں کیا مصلحت تھی ؟،،،،،سوسی کے دل میں ایک نئے شک نے سر اٹھایا۔
میری اس وقت تم سے شادی نہیں ہوئی تھی، میں نے سوچا کہ اگر میں نے بھی شبہ ظاہرکردیا تو کہیں میری شادی گھپلے میں نہ پڑ جائے، اس لیے میں نے خاموشی اختیار کرلی تھی۔
سوسی کا شبہ دور نہیں ہوا ،اس نے کہا۔۔۔ اب کی امروزیہ کو آنے دو میں باتوں باتوں میں پوچھوں گی ۔
مگر میں کچھ اور سوچ رہا ہوں۔
تم کیا سوچ رہے ہو ذرا میں بھی تو سنوں۔۔۔ سوسی نے نتھنے پھلا کے کہا۔
میں سوچ رہا ہوں کہ امروزیہ سے تمہاری شاید ہی ملاقات ہو سکے۔۔۔ ازقوف نے مسکرا کے اسے دیکھا۔
نہیں ملے گی تو میں مر نہیں جاؤں گی، تمہیں ہوگی اس سے ملنے کی خواہش۔ سوسی پتہ نہیں ازقوف کی بات کا کیا مطلب سمجھ کے بڑبڑانے لگی،،،،،، مرد ذات کا کیا اعتبار ذرا اچھی صورت دیکھی اور پھیل گئے۔
ارے رے رے،،،، تم کدھر چل پڑی عورت کا وہم تو کوئ دور ہی نہیں کرسکتا۔۔۔ از قوف خوشامد پر اتر آیا ،جہنم میں ڈالو اس دغا باز عورت کو، تم تو میری جان ہو ،میرا جگر ہو، میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ اس کی بس قضاء آگئی ہے ،مروان لنگ اسے زندہ نہ چھوڑے گا ۔
کس کی بات کر رہے ہو ،کس کو نہیں چھوڑے گا؟،،،،، سوسی گھبرا کے ازقوف کو دیکھنے لگی۔
وہی تمہاری امروزیہ!،،،،، ازقوف نے نفرت سے کہا۔۔۔ مجھے بے وقوف سمجھتی ہے وہ کہتی ہے کہ میں مروان لنگ کو اس قتل کی حقیقت بتا کے اس سے انعام حاصل کروں گی، انعام کے بجائے اسے سولی کا تحفہ ملے گا۔
کیوں اسے سولی کیوں ملے گی، کیا مروان لنگ امیر زندگی کے قتل کا حال سن کے خوش نہ ہو گا ،،،،،سوسی نے امروزیہ کی حمایت شروع کردی ۔
خوش تو ہو گا لیکن امروزیہ اپنا اعتبار کھو بیٹھے گی ۔
وہ کیسے میری سمجھ میں نہیں آیا؟
ازقوف نے سنجیدگی سے بتایا، مروان لنگ بہت چالاک حکمران ہے، جب اسے معلوم ہوگا کہ امروزیہ نے اپنے بھائیوں کا انتقام لینے کے لیے امیر کے قاتلوں سے سازباز کیا ہے تو کیا امروزیہ کسی دوسرے یعنی مروان لنگ کے خلاف اسی طرح کی شازش نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔۔
سوسی کا منہ حیرت سے کھل گیا، اور وہ ہونق بنی دیر تک از وقوف کو دیکھتی رہی۔
ازقوف کی حیثیت بظاہر ایک درباری جوکر یا پھر مذاق آدمی سے زیادہ نہ تھی، لیکن وہ سوچتا بڑی دور کی تھا، امروزیہ کے بارے میں اس نے جو اندازہ لگایا تھا وہ سو فیصد درست ثابت ہوا ،امروزیہ نے اسی دن مروان لنگ کے محل پر پہنچ گئی، امیر زنگی کے قتل کی پوری داستان بلکہ اس میں کچھ نمک مرچ لگا کر سنا دی، مروان لنگ اس کی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا، قتل کی کہانی سننے کے بعد اس نے ایک لمبی سانس لی۔
*<=========۔=======>*
*جاری ہے بقیہ قسط۔2۔میں پڑھیں*
*<========۔========>*
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹