Click 👇 to read more
رابعہ بصری اپنے والدین کی چوتھی بیٹی تھیں،
اسی لیے آپ کا نام رابعہ یعنی ”چوتھی“ رکھاگیا۔
وہ ایک انتہائی غریب لیکن معزز گھرانے میں پیدا ہوئیں۔
رابعہ بصری کے والدین کی غربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جس شب رابعہ بصری پیدا ہوئیں،آپ کے والدین کے پاس دیا جلانے کے لیے تیل تھا اور نہ آپ کو لپیٹنے کے لیے کوئی کپڑا۔
آپ کی والدہ نے آپ کے والد سے درخواست کی کہ پڑوسیوں سے تھوڑا تیل ہی لے آئیں تاکہ دیا جلایا جا سکے۔
آپ کے والد نے پوری زندگی اپنے خالقِ حقیقی کے علاوہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا تھا، چنانچہ وہ پڑوسی کے دروازے تک تو گئے لیکن خالی ہاتھ واپس لوٹ آئے۔
رات کو رابعہ بصری کے والد کو خواب میں حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت ہوئی
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رابعہ کے والد کو بشارت دی کہ
”تمہاری نومولود بیٹی، خدا کی برگزیدہ بندی بنے گی اور مسلمانوں کو صحیح راہ پر لے کر آئے گی۔
تم امیرِ بصرہ کے پاس جاؤ اور اسے ہمارا پیغام دو
کہ تم (امیرِ بصرہ) ہر روز رات کو سو (100) مرتبہ اورجمعرات کو چار سو (400) مرتبہ درود کا نذرانہ بھیجتے ہو،
لیکن پچھلی جمعرات کو تم نے درودشریف نہ پڑھا،
لہٰذا اس کے کفارہ کے طورپر چارسو (400) دینار بطور کفارہ یہ پیغام پہنچانے والے کو دے دو۔[4]
رابعہ بصری کے والد اٹھے اور امیرِ بصرہ کے پاس پہنچے۔ اس دوران آپ کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری تھے۔
جب امیرِ بصرہ کو رابعہ بصری کے والد کے ذریعے حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاپیغام ملا
تو یہ جان کر انتہائی خوش ہوا
کہ وہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظروں میں ہے۔
اس نے شکرانے کے طورپر فوراً ایک ہزار (1,000) دینارغرباء میں تقسیم کرائے
اور چارسو (400) دینار رابعہ بصری کے والد کو ادا کیے
اور ان سے درخواست کی کہ جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہو بلاجھجھک تشریف لائیں۔
کچھ عرصے بعد رابعہ بصری کے والد انتقال کر گئے۔
اس اثناء میں بصرہ کو سخت قحط نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
قحط کے دوران آپ (رابعہ بصری) اپنی بہنوں سے بچھڑگئیں۔ ایک بار رابعہ بصری ایک قافلے میں جا رہی تھیں کہ قافلے کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور ڈاکوؤں کے سرغنہ نے رابعہ بصری کو اپنی تحویل میں لے لیا اور آپ کو لوٹ کے مال کی طرح بازارمیں لونڈی بنا کر بیچ دیا۔
آپ کا آقا آپ سے انتہائی سخت محنت و مشقت کا کام لیتاتھا۔ اس کے باوجود آپ دن بھر میں کام کرتیں اور رات بھر عبادت کرتی رہتیں اور دن میں بھی زیادہ تر روزے رکھتیں۔
اتفاقاً ایک دفعہ رابعہ بصری کا آقا آدھی رات کو جاگ گیا اور کسی کی گریہ و زاری کی آوازسن کر دیکھنے چلا کہ رات کے اس پہر کون اس طرح گریہ و زاری کر رہا ہے!
وہ یہ دیکھ کرحیران رہ گیا
کہ رابعہ بصری اللہ کے حضورسربسجود ہیں
اور نہایت عاجزی کے ساتھ کہہ رہی ہیں
”اے اللہ! تو میری مجبوریوں سے خوب واقف ہے۔ گھر کا کام کاج مجھے تیری طرف آنے سے روکتا ہے۔ تو مجھے اپنی عبادت کے لیے پکارتا ہے مگر میں جب تک تیری بارگاہ میں حاضر ہوتی ہوں، نمازوں کا وقت گزر جاتا ہے۔ اس لیے میری معذرت قبول فرما لے اورمیرے گناہوں کو معاف کر دے۔“
اپنی کنیزکا یہ کلام اور عبادت کا یہ منظر دیکھ کر رابعہ بصری کا مالک خوفِ خدا سے لرز گیا۔
اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ایسی اللہ والی کنیزسے اپنی خدمت کرانے کی بجائے بہتر یہ ہوگا کہ خود اس کی خدمت کی جائے۔
صبح ہوتے ہی وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے فیصلے سے آپ کو آگاہ کیا۔
اس نے کہا کہ آج سے آپ میری طرف سے آزاد ہیں۔
اگر آپ اسی گھر میں قیام کریں تو میری خوش نصیبی ہوگی وگرنہ آپ اپنی مرضی کی مالک ہیں،
تاہم اگرآپ یہاں سے کوچ کر جانے کا فیصلہ کرتی ہیں
تو میری بس ایک درخواست ہے.
کہ میری طرف سے کی جانے والی تمام زیادتیوں کو اس ذات کے صدقے معاف کر دیں،
جس کی آپ راتوں کو جاگ جاگ کر عبادت کرتی ہیں۔