ڈاکٹر عارف نعیمی صاحب کی نصیحت

نیچے ریڈ مور کو کلک کریں اور مکمل آرٹیکل پڑھیں

میں 2005/2006 میں جامعہ نعیمیہ کا طالب علم تھا، اپریل 2006 ميں ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو توہین رسالت پر مبنی کارٹونز کے خلاف احتجاج کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا تھا، ان کے ساتھ دیگر بہت سے علماء بھی گرفتار تھے، ان کی گرفتاری کے دنوں میں جامعہ نعیمیہ کے طلباء کی دستار بندی کے دن آگئے، جامعہ نعیمیہ کی انتظامیہ نے ڈاکٹر طاہر القادری کو دعوت خطاب دی۔

جامعہ نعیمیہ سے قبل میں دیگر اھل سنت کے مدارس اور جامعات میں زانؤ تلمذ طے کرتا رہا (میں ان جامعات یا مدارس اور علماء کا نام ذکر نہیں کرنا چاہتا)، ان جامعات، مدارس اور علماء کے درس و تدریس، نصیحتیں اور ان کے سامنے حاصل کیے ہوئے علم اور ان علماء کے فتاوی جات کے مطابق میں طاہر القادری صاحب سے بہت متنفر تھا اور بہت شدید اختلاف رکھتا تھا، علماء اور ان جامعات کے درس اور تعلیم کی بدولت میں طاہر القادری صاحب کو مسلمان ماننے کو بھی راضی نہ تھا۔

طاہر القادری کو دائرہ اسلام سے خارج کہتا تھا، کافر، مرتد اور گستاخ کہتا تھا، اور واجب القتل کا بھی قائل تھا۔

(برائے مہربانی یہ پورا پڑھ کر جو دل چاہے وہ مؤقف رکھیں، شکریہ)

اسی اثناء میں جب جامعہ نعیمیہ کا سالانہ جلسہ آیا تو جامعہ کی انتظامیہ نے قادری صاحب کو خصوصی خطاب کے لئیے مدعو کیا۔
اشتہارات، بینرز لگوائے۔ میں بہت تذبذب کا شکار ہوا کہ اھل سنت کے جلیل القدر علماء اس شخص کو سننے سے منع کرتے ہیں، گمراہ اور کافر تک قرار دیتے ہیں، لیکن اھل سنت کے مرکزی دار العلوم جامعہ نعیمیہ والے اسی کافر شخص کو دعوت خطاب دے رہے ہیں۔ (یاد رکھیں کہ جامعہ نعیمیہ اھل سنت کا وہ ادرہ ہے جس کے ساتھ اھل سنت کے کسی عالم، کسی تنظیم کا کوئي اختلاف نہیں ہے اور تنظیم المدارس کا مرکزی دفتر بھی یہیں ہے۔ اور تمام اھل سنت تنظیموں، مدارس اور جامعات کے طلباء کو فراغت حصول تعلیم کی سند یہيں سے جاری ہوتی ہیں)۔

ایک صبح جب حصول علم کی غرض سے کلاس میں گیا تو تین دوست (جناب علی رضا صاحب، جناب شہزاد نقشبندی صاحب اور جناب محمد نقاش علی صاحب) سے گفتگو چل پڑی۔ یہ تینوں قادری صاحب کے بہت دیوانے تھے۔ اور جامعہ نعیمیہ کے دارالافتاء کے صدر مفتی محمد عمران صاحب ہمارے استاذ تھے جو اب بھی جامعہ میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ افتاء کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ احباب نے مفتی صاحب سے عرض کی۔ مفتی صاحب نے اس وقت تو کوئي جواب نہ دیا لیکن بعد میں دارالافتاء میں آنے کا حکم دیا۔ اس سے قبل یہ مسئلہ مفتی ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید رحمۃ اللہ علیہ کے بھائي ڈاکٹر عارف نعیمی صاحب کے پاس بھی پہنچ گیا۔ ڈاکٹر صاحب ہمیں ھدایۃ النحو پڑھایا کرتے تھے، اس دن انہوں نے دس سے پندرہ منٹ پڑھا کر کلاس کو چھٹی دے دی اور مجھے اپنے پاس بیٹھنے کا حکم دیا۔

ڈاکٹر عارف نعیمی صاحب در حقیقت ایک درویش صفت انسان ہیں، ان کی گفتگو کرنے کا انداز بہت اعلی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ بیٹا آپ نے اتنی بڑی بات کیسے کہہ دی؟
میں نے عرض کی کہ استاذ صاحب ہمارے مسلک کے ہی جدید علماء اور ایک بہت بڑی تحریک (اس وقت تحریک کا نام لیا لیکن یہاں حکمت کے تحت نہیں لینا چاہتا) ان کو مسلمان نہیں مانتی، یا کم از کم گمراہ اور حنفیت اور سنیت سے خارج قرار دیتی ہے، تقریبا پندرہ سے زيادہ کتب قادری صاحب کے خلاف لکھی جا چکی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ان کتب میں یا فتاوی جات میں کیا ہے اور کن باتوں کو سبب بنا کر فتوے دیے گئے ہيں؟؟

میں نے عرض کی حضرت قادری صاحب اپنے آپ کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہم پلہ مانتے ہیں اور فقہ حنفی سے اختلاف کرتے ہیں۔
(اس وقت میں نے تمام مسائل جو میرے ذہن میں تھے عرض کئے لیکن یہاں ایک ایک کر کے قلم بند کر رہا ہوں)
ڈاکٹر صاحب نے اس بات کا جواب دیا اور فرمایا کہ بیٹا کیا فقہ حنفی کو ماننا فرض ہے یا ارکان اسلام میں سے ہے؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر قادری صاحب اگر تمام فقہ حنفی کا انکار بھی کردیں تو آپ ان کو غلط نہیں کہہ سکتے، اور دوسری بات یہ کہ بہت سے علماء نے فتوے تو دیئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قادری صاحب کی زندگی کا ایک جملہ بھی نہیں ملتا جہاں انہوں نے اپنے آپ کو امام اعظم کا ہم پلہ کہا ہو، بلکہ ان کی سینکڑوں تقاریر ميں یہ جملہ ضرور ملتا ہے کہ یااللہ مجھے حنفیت پر موت دینا۔

دوسرا سوال میرا یہ تھا کہ قادری صاحب نے گستاخانہ طریقے سے خواب بیان کئے ہیں۔
نعیمی صاحب نے فرمایا کہ بیٹا خواب بیان ضرور کئے ہيں لیکن گستاخانہ طریقے سے نہيں کئے، اور ہم ان کے خواب کو جھٹلا نہیں سکتے، ممکن ہے انہوں نے جو خواب دیکھا ہو وہ ہی بیان کیا ہو۔ کیوں کہ ایک عالم تو دور کوئی عام شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایسی نسبت نہیں کرسکتا، اور کچھ انہوں نے علماء کے خواب بیان فرمائے اور پھر کہا کہ اگر صرف خواب بیان کرنے پر فتوی لگانا لازمی ہے تو ان علماء کے بارے میں کیا خیال ہے، انہوں نے امام اعظم اور امام بخاری علیھما الرحمۃ کے خواب بیان کئے۔

(میں نے نعیمی صاحب کے اس جواب میں کچھ اور دیگر مسالک کے علماء کے خواب لکھ کر قادری صاحب کے خوابوں پر اعتراض کرنے والوں کو جواب دیا ہے، ملاحظہ کریں، اس لنک پر موجود ہے۔
https://www.academia.edu/7759480/Reply_of_False_Propaganda_on_Dr_Tahir-ul-Qadri
تیسرا مسئلہ میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اعلی حضرت علیہ الرحمۃ سے بہت اختلاف رکھتے ہیں داڑھی کے بارے میں بھی وہ علماء سے اختلاف رکھتے ہیں؟؟

نعیمی صاحب نے بہت اعلی جواب دیا اور مجھ سے سوال کیا کہ کیا اعلی حضرت حرف آخر ہیں ؟؟ اگر نہیں تو کوئي بھی علم کی بنیاد پر اعلی حضرت سے اختلاف کر سکتا ہے، جس کی دو مثالیں بھی بیان فرمائيں، (لیکن عوام الناس کو انتشار اور اختلاف سے دور رکھنے کے لئیے وہ عرض نہیں کرنا چاہتا)

اور پھر فرمایا کہ بیٹا قادری صاحب کا داڑھی کے بارے میں اختلاف ہے لیکن وہ اصولی ہے یعنی کے اصولوں پر مبنی ہے، اور اگر کوئي عالم اصول کو مدنظر رکھ کر اپنا مؤقف بیان کرتا ہے تو کر سکتا ہے، اور داڑھی ایک عمل ہے، عقیدہ یا ارکان اسلام نہیں۔

میں نے عرض کی کہ حضرت پھر اتنے علماء ان کے خلاف فتوے کیوں دیتے ہیں؟؟

نعیمی صاحب کا جواب تھا کہ بیٹا پہلے تو میں یہ کہوں گا کہ بہت سے فتوے بغیر تحقیق کے ہیں، کسی نے ان کا ایک جملہ سنا، کسی نے ایک جملہ پڑھا، کسی نے اخبار کی بنیاد پر فتوی دیا تو کسی نے دوسرے فتوے کو مدنظر رکھ کر فتوی دیا، حقیقت یہ ہے کہ کسی نے ان سے نہ پوچھا کہ ان کا مقصد کیا ہے اور فتوی اگر شخصیت پر ہو تو اس شخصیت کو سنے بغیر فتوی دینا کہاں کا اصول ہے۔

دوسری بات یہ کہ فتوی ایک عالم کی رائے ہوتی ہے، جن علماء نے فتوے دیئے وہ ان کی رائے ہے، اور کسی عالم کا فتوی اور رائے کسی دوسرے پر قطعا لازم یا فرض نہيں، اور یہ ہی اہم فرق فتوے اور قضاء (یعنی قاضی کے فیصلے میں ہے)، کہ فتوی کسی پر لازم نہیں ہوتا جبکہ قاضی کا فیصلہ لازم ہوتا ہے، حتی کہ مفتی پر بھی قاضی کا فیصلہ لازم ہے۔

اور اگر قادری صاحب پر فتوے دینے والے علماء ہیں تو ان کے حق میں فتوے دینے والے بھی بہت علماء ہیں، ان علماء پر آپ کیا حکم لگآئيں گے؟؟ مثال کے طور پر جامعہ نعیمیہ کے سوائے ایک استاذ صاحب کے تمام اساتذہ قادری صاحب کے حق میں ہیں، جن میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ، اور ان کے والد مفتی حسین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ، مفتی عمران صاحب، مفتی محبوب شرقپوری صاحب، علامہ نصیر نمشبندی صاحب وغیرھم۔ اور ان کے علاوہ سینکڑوں علماء قادری صاحب کے حق میں ہیں، مثلا مناظر اسلام، مناظر اھل سنت علامہ عبد التواب صدیقی صاحب، پیر کرم شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ان کے بیٹے پیر امین الحسنات شاہ صاحب، پیر نصیر الدین شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ، جگر گوشہ حضور غزالئ زماں، شیخ الحدیث جامعہ انوار العلوم ملتان، علامہ ارشد سعید کاظمی دامت برکاتہم، پیر سید افضل حسین شاہ صاحب جماعتی رحمۃ اللہ علیہ (سجادہ نشین علی پور سیداں شریف)۔ اور بہت علماء کے نام لئیے۔ اور پوچھا کہ اگر قادری صاحب کو ماننا، ان کی تقاریر سننا، ان کی کتب پڑھنا، ان کو شیخ الاسلام اور عالم دین اور اھل سنت کا ایک عظیم ستون ماننا گمراہی ہے تو ان علماء اور مشائخ پر کیا فتوی لگے گا۔

اس بات کا جواب میرے پاس کوئی نہ تھا، کیونکہ فتوی دینے والے بھی علماء تھے اور قادری صاحب کو شیخ الاسلام کہنے والے بھی جلیل القدر علماء اور مشائخ۔

پھر ڈاکٹر عارف نعیمی صاحب دامت برکاتہم نے کچھ نصیحتیں فرمائيں:
1: بیٹا عالم دین بن رہے تو یاد رکھو کہ فتوی ایک عالم کی رائے ہے اور وہ دوسرے پر لازم نہیں، اگر ایک عالم کسی پر کفر کا فتوی دے تو وہ اس کی رائے ہے اس فتوے کی وجہ سے وہ شخص کافر نہیں ہوگا۔

2: اگر فتوی لازم ہوتا تو ہم کبھی بخاری نہ پڑھتے کیونکہ امام بخاری پر علماء نے ہی فتوے دئیے تھے، وہ سب عالم تھے، ہم ان کے علم سے انکار بھی نہیں کرتے، حتی کہ اس وقت کے علماء نے اتنے فتوے دئیے کہ امام بخاری ساری زندگی ہجرت ہی فرماتے رہے آخر کار امام بخاری نے دعا فرمائي کہ یااللہ اب سکت نہیں رہی، اب اس شہر سے نہ نکالنا، تو امام بخاری کی اسی شہر میں وفات ہوگئي اور آج ان کا مزار مرجع خلائق ہے۔
فتوے امام احمد بن حنبل، امام شافعی، امام مسلم، امام نسائي رحمۃ اللہ علیھم پر بھی لگے، ہم فتوی دینے والے علماء کو بھی مانتے ہیں لیکن ان کے ان فتووں سے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔

جہاں تک اختلاف کا تعلق ہے تو اختلاف دور صحابہ میں بھی موجود تھا، اور اختلاف کی بنیاد پر ہی چار بڑے مذاھب فقہ بنے، لہذا اختلاف کو اختلاف ہی رکھنا چاہئیے اس کو خلاف بنانے سے گریز کرنا چاہئیے۔ اعمال میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن عقیدے میں نہیں، اور جو عقائد قرآن و حدیث کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہیں قادری صاحب ان میں سے کسی پر اختلاف نہیں کرتے۔

پھر فرمایا، بیٹا اگر عالم بننا چاہتے ہو اور قادری صاحب سے اختلاف بھی کرنا چاہتے ہو تو میں کہوں گا کہ قادری صاحب کو پڑھو سنو، پھر ان کی باتوں کو اصول پر پرکھو، اسلام اور اسلاف امت کے اعمال، اقوال پر پرکھو اور علم اور اصول کی بنیاد پر چاہے کفر کا فتوی دو یا شیخ الاسلام کا لقب۔
نعیمی صاحب دامت برکاتہم کی یہ بات میں نے ذہن نشین کر لی، اور آئيندہ کسی بھی شخص کے بارے میں مؤقف قائم کرنے سے پہلے اس کو پرکھنے کا اصول بنا لیا۔

قادری صاحب کا جامعہ نعیمیہ میں خطاب ہوا، میں نے وہ خطاب سامنے بیٹھ کر سنا، اور حالت یہ تھی کہ میرے ذہن میں قادری صاحب کے مخالفین کے فتوے اور معتقدین کے اقوال تھے، میں قادری صاحب کو ماننے کے لیئے راضی نہ تھا، قادری صاحب کا خطاب کا موضوع تھا “حضور سراپا رسالت ہیں”، یہ خطاب سن کر صرف اتنا فیصلہ کر سکا کہ قادری صاحب کے پاس علم تو ہے، خطاب بھی عقائد اھل سنت کے مطابق بلکہ بیان ہی عقیدہ اھل سنت کیا ہے۔ لیکن پھر ذہن میں خیال تھا کہ شائد یہاں تمام سنی حنفی بیٹھے ہیں اس لئیے یہ دھوکہ دیا ہوگا اور یہ عقیدہ بیان کیا۔
سوچا کہ منہاج القرآن کا دورہ کرنا چاہئیے، ایک دوست کو ساتھ لے کر منہاج القرآن جا پہنچا، کسی کو کیا معلوم تھا کہ میں وہاں تنقید کی نظر سے گیا ہوں، اور صرف نقص تلاش کرنے گیا ہوں کہ کوئي ایک جملہ، کتاب، تقریر مل جائے جو عقائد اھل سنت کے خلاف ہو تو میں بھی قادری صاحب پر فتوی لگا سکوں۔

لیکن ادھر حالت برعکس تھی، بالآخر صرف آزمانے کی غرض سے مرکز منہاج القرآن میں ایک شخص کو اتنا بھی کہہ دیا کہ جناب ہم قادری صاحب کو نہيں مانتے بلکہ مسلمان ہی نہیں مانتے اور یہاں بھی اسی غرض سے آئے ہیں کہ کوئی نقطہ مل جائے تو قادری صاحب کو سنیت اور اسلام سے خارج کر دیں، ان صاحب نے مسکرا کر جواب دیا آپ کا جب تک دل چاہے آپ رہیں اور تحقیق کر لیں، ہم دونوں دوست مرکز میں گھومتے رہے، بالآخر منہاج القرآن مرکز میں موجود قادری صاحب کی کتب، سی ڈیز، لیکچرز کی دوکان پر پہنچ گئے۔

وہاں کی حالت بھی بہت عجیب تھی، فتووں میں تو پڑھا تھا کہ قادری صاحب گستاخ رسول ہیں لیکن یہاں تاریخ کی سب سے بڑی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کتاب موجود تھی، جس کی کل چودہ جلدیں تھیں، اور دو جلدوں پر صرف مقدمہ تھا، ہم نے ایک جلد اٹھائی جو کہ مقدمے کی دوسری جلد تھی، کھولا فہرست پر نظر ڈال کر رکھ دی کیونکہ وہ کتاب بھی ہماری سوچ کے برعکس تھی اور اس میں شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر آرہی تھی جبکہ ہم تو قادری صاحب گستاخ سمجھ بیٹھے تھے، ایک قدم اور آگے گئے تو چھوٹی بڑی حدیث اور سیرت کے موضوع پر مبنی پچاس کے قریب کتب موجود تھیں، ہم نے رخ بدلا اور رینک کے دوسری جانب چلے گئے، کتب دیکھنے لگے تو سامنے منہاج السوی موجود تھی، ہم نے اٹھا لی، کھولی تو بہت عجیب باب نکلا، جس میں قادری صاحب نے گستاخوں کے بارے میں احادیث جمع کیں تھیں، اور یہ تمام احاديث اھل سنت کے حق میں تھیں، بہت کشمکش کا شکار ہوئے کہ علماء ان پر اھل سنت سے خارج کا فتوی دیتے ہیں اور یہ اھل سنت کے عقیدے کے حق میں کتب تصنیف کرتے ہیں، چند کتب کے نام پڑھ کر تو ہم دنگ رہ گئے کہ یہ عقیدہ رکھنے والا سنیت سے کیسے خارج ہوگیا، آپ بھی سنیں کہ وہ نام کیا تھے:

حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

عقیدہ توسل

میلاد النبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم (اور اس موضوع پر کوئی چار
پانچ کتب)

شمائل مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

خصائص مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کنز الایمان کی فنی حیثیت (اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمۃ القرآن پر ایک بہت ہی اعلی کتاب)

اعلی حضرت امام احمد رضا خان کا علمی نظم (اعلی حضرت کے علمی نظم پر ایک کمال کی خوبصوت اور علمی تحقیق)

عقیدہ ختم نبوت

ایصال ثواب

تصور استعانت

زیارت قبور

یہ کتب دیکھ کر بہت حیرت ہوئي کہ یہ عقیدہ رکھنے والے کو علماء کس بنیاد پر سنیت سے خارج کرتے ہيں، ہم نے دو تین کتب خریدنے کی غرض سے اٹھا لیں اور سی ڈیز کی جانب رخ کیا۔

وہاں بھی یہ ہی عالم تھا، سینکڑوں لیکچرز میں سے جس بھی سی ڈی، خطاب پر نظر کرتے وہ شان رسول، محبت رسول پر مبنی تھا، اسی اثناء میں ایک خطاب پر نظر پڑی جس کا عنوان تھا “امام اعظم امام الآئمہ فی الحدیث” ہم بہت حیران ہوئے کہ قادری صاحب کیا ثابت کر رہے ہیں اور علماء ان کو حنفیت سے بھی نکال دیتے ہیں، ہم نے یہ سی ڈی بھی اٹھا لی، یہ کوئي تین گھنٹے کا خطاب ہے۔

علماء اھل سنت کو سڑکوں پر احتجاج اور جلسے کرواتے تو سنا تھا کہ امام اعظم پر یہ اعتراض کہ انہیں صرف سترہ حدیثيں یاد تھیں غلط ہے، لیکن اس اعتراض کا علمی جواب اس وقت تک ہم نے نہ دیکھا تھا، جب واپس آکر خطاب سنا تو دل سے آواز آئي اگر یہ شخص بھی حنفی نہیں ہے تو واللہ دنیا میں حنفی کوئي نہیں ہے۔

دیگر کتب کو پڑھا اور خطابات کو سنا، ہم مسلمان ہوگئے یعنی قادری صاحب کو مسلمان بلکہ شیخ الاسلام ماننے لگ گئے۔

اب تک قادری صاحب کی تقریبا تین سو کتب کا مطالعہ کر چکا ہوں، اور کم و بیش ڈھائي سو خطابات سن چکا ہوں، اتنا پڑھنے اور سننے کے بعد بھی قادری صاحب کا کوئي ایک جملہ ایسا نہیں ملا جس پر فتوی کفر یا گمراہی کا فتوی لگ سکے۔

قادری صاحب کی کتب اور تقاریر قرآن اور حدیث پر مبنی ہیں، ان کی تقریر میں حدیث کا حوالہ سکرین پر چل رہا ہوتا ہے جو ہر صاحب خرد شخص کتاب میں سے نکال سکتا ہے، اور کتب میں بھی حوالہ جات درج ہوتے ہیں۔

آج ڈاکٹر عارف نعیمی صاحب اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میرے دل میں قادری صاحب کی محبت پیدا کی۔ ورنہ شائد اب بھی میں فتووں کی زد میں ہوتا اور علم و عمل کے اس سمندر سے کوسوں دور کسی فتوے پر اکتفاء کر رہا ہوتا۔

آپ سے بھی عرض ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں جو دل چاہے مؤقف رکھیں لیکن تحقیق ضرور کر لیں۔

ڈاکٹر صاحب کے بارے میں علماء اور مشائخ کے تبصرے۔ ملاحظہ فرمائيں:
http://www.minhaj.org/urdu/control/Comments/%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%B7%D8%A7%DB%81%D8%B1%D8%A7%D9%84%D9%82%D8%A7%D8%AF%D8%B1%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DB%92-%D9%85%D8%B4%D8%A7%DB%81%DB%8C%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%A8%D8%B5%D8%B1%DB%92.html

ڈاکٹر صاحب کی لکھی ہوئي وہ کتب جو انٹرنیٹ پر مہیا ہیں:
http://www.minhajbooks.com/urdu/Urdu/Urdu-Books.html

ڈاکٹر صاحب کے وہ خطابات جو انٹرنیٹ پر مہیا ہیں:
http://www.deenislam.com/multimedia.html

ڈاکٹر صاحب پر چند اعتراضات کا جواب
https://www.academia.edu/7759480/Reply_of_False_Propaganda_on_Dr_Tahir-ul-Qadri

یہ صفحہ لائک کریں، شکریہ
https://www.facebook.com/Adv.M.A.Raza.Official

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *