پھول، کانٹے اور انسان

پھول ، کانٹے اور انسان

میں نے اکثر زندگی میں بہت غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حسد اپنوں سے ہوتا ہے۔ غیروں سے نہیں۔ وہ اپنا کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ ضروری نہیں رشتہ دار ہو۔۔۔ نہیں۔۔۔ ہر وہ شخص جس سے آپ کا کوئی تعلق ہو۔ خواہ وہ تعلق براہ راست ہو یا بالواسطہ یعنی کسی اور تعلق سے تعلق ہو۔
وہ آپ کا دوست، آپ کے دوست کا دوست، رشتہ دار یا رشتہ دار کا تعلق دار۔۔ وغیرہ۔
اگر کوئی کہے کہ یہ پلازہ فلاں شخص کا ہے۔ تو آپ اسے دیکھ کر یقیناً کوئی نہ کوئی کملی بولیں گے۔ جیسے۔۔۔

1- ہمیں اس سے کیا
2- دفعہ کریں
3- پیسہ والا ہے۔
4- یہ امیر لوگ ہیں بھائی وغیرہ وغیرہ۔۔

اور پھر اسی کے ساتھ ہی گزر جائیں گے۔۔ اور تھوڑے ہی لمحے بعد وہ آپ کے ذہن سے نکل جائے گی۔ اور کا ذہن دنیاوی خیالوں اور جھنجھٹوں کی وادی میں گم ہو کر رہ جائے گا۔

مگر اس کے برعکس اگر کوئی یہ کہہ دے یا بتا دے کہ فلاں گھر، گاڑی، کاروبار، فیکٹری وغیرہ فلاں اپنے کسی رشتے دار یا دوست کی ہے تو فوراً دل میں ایک انہونی سی حسد کی چنگاری بھڑک اٹھتی ہے اور پھر ہمارے زبان پر مندرجہ ذیل جملوں میں سے کوئی ایک دو یا اس سے بھی زیادہ صادر ہو جاتے ہیں۔

1- بس جی پیسے والے لوگ ہیں
2- اپنی طرف سے خود ہی فتویٰ جاری کر کے کہہ دیں گے۔۔ ہاں جی یہ سب حرام کی کمائی ہے۔
3- لوگوں کو لوٹ کر کمایا ہے جی
4- کون سی محنت کی کمائی ہے۔ وغیرہ وغیرہ
اور پھر تھوڑی دیر تک مسلسل برائیوں کی بارش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اور جس سے ان چیزوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہو اگر وہ تائید کی بجائے مخالفت کرے تو وہ بارش کا رخ اس کی طرف ہو جاتا ہے۔ اور پھر ایک کی بجائے دو پریشانیاں ذہن پر سوار ہو جاتی ہیں۔

اور اگر وہ شخص پاس ہو جس کی وہ چیز ملکیت ہے تو پھر فقط وہ کلمات اور دعا دی جاتی ہے جو دل سے کم اور زبان پر رسمی طور پر آجاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ شیطان اپنا حملہ کر کے اس کو ایک ایسی غمزدہ وادی میں دھکیل دیتا ہے جہاں وہ شخص مسلسل پریشان ہو کر رہ جاتا ہے۔ اور گھر تک خصوصاََ اور پھر کسی بھی وقت یاد آنے پر عموماً پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔۔

اور اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ انسان بغیر اس شخص کی کسی غلطی یا برائی کے اس کی مخالفت میں لگا رہتا ہے۔

ایسا کیوں ہے۔۔۔۔ ؟

در اصل حسد وہ بیماری ہے جو اس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ یہ نعمت دوسرے کی بجائے میرے پاس ہونی چاہیے تھی۔ یا یہ کہ جیسے ہم ہیں اس کو بھی حیثیت میں ایسے ہی ہونا چاہیے۔ یہ ہم سے مختلف کیوں ہو گیا ہے یا ہو گئی ہے۔

اور اس کا انجام کا کیا ہے؟
اس کا انجام اپنی ہی آگ میں جلتے رہنا۔ جس کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ انسان اپنی تمام تر مثبت توانائیاں اپنے اور دوسروں کے فائدے کی بجائے منفی پہلوؤں پر خرچ کرتا رہتا ہے۔ اور اپنے آپ کو مسلسل ایک ایسی کھائی اور دلدل میں دھکیل دیتا ہے کہ جہاں سے واپسی فقط اسی صورت میں ہوتی ہے کہ وہ حسد کو آگ کو بجھا کر اور حسد کے کانٹے دار پودے کو اخلاص کا پودہ لگا کر بدل دے۔ اور پھر اس پودے کو حسد کی بجائے محبت کے پانی سے سیراب کرے۔ اور نیک تمناؤں کی روشنی دے تاکہ وہ بڑا ہو پھلے پھولے۔ اور اس پر کانٹوں کی بجائے خوشبو دار پھول اپنی مہک سے دل کے آنگن کو معطر کر دے۔ اور یہ وہ خوشبو کا کمال ہے کہ اگر آپ گھر گھر جا کر نہ بھی بانٹیں گے تو ہر وہ شخص سونگے گا جو آپ کے محبت کے آنگن میں قدم رکھے گا۔

اور اہم بات کہ جونہی محبت اور اخلاص کے پانی کو روک دیا جائے تو یہ پودی خشک ہو جائے گا جس کے نتیجے میں پھر سے دل میں میں خار دار حسد کی جھاڑیاں اگنا شروع ہو جائیں گی اور اس کے کانٹے دل میں چبھتے رہیں گے اور پریشانی کو صورت میں دل کو زخمی کرتی رہیں گے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حسد جیسے رزائل اخلاق سے پناہ دے محاسن اخلاق پیدا فرما کر ہمارے دل کو اخلاص کا مرقع بنا دے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین

دعا گو: شاہد حمید گل
(ابو یمنی)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *