اسلام میں اطاعت و اتباع

Click down to read complete article

۔۔۔۔۔شیخ السلام کے محبین کے لئے چند معروضات۔۔۔۔
۔۔ ۔ اسلام میں اطاعت و اتباع۔۔ ۔
اور ادب و تعظیم و محبت کا تصور
یاد رھے کہ اسلام میں اطاعت و اتباع کا حکم اور اسکی بجا آوری بغیر ادب و تعظیم کے ممکن نہیں۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لعاب دھن کو زمین پر نہ گرنے دینا اگر اس عمل کو عقل کے پیمانے پر پرکھا جائے تو دیوانگی محسوس ھو گی
اور اگر ادب و تعظیم و محبت کے پیمانے سے پرکھا جائے تو مومن کی پہچان نظر آئیگی ھے۔۔
کیونکہ یہ عمل نہ تو اطاعت کے زمرے میں آتا ھے
اور نہ ھی اتباع کے۔۔۔
ماسوائے اسکے کہ جب محبت حد سے بڑھ جائے تو تعظیم بھی حدود و قیود میں نہیں رھتی۔محبوب کی تنظیم کا اس قدر خیال رکھنا کہ انسان اپنی شخصیت کو بھی یکسر بھول کر صرف محبوب کو خوش کرنے میں ھی اپنی بلندی جانے۔۔ یہی تو عشق ھے۔
اس پیمانے اور معیار کو جانچنے اور سمجھنے کیلئے ادب و تعظیم اور عشق کی ندی سے گزرنا ھوتا ھے ورنہ عقلی دلائل سے تو یار لوگ شرک شرک کی رٹ لگانے لگتے ھیں۔۔
اور قرآن کی نص سے رسولِ اللہ کی اتباع کا انعام اللہ کا محبوب بن جانا ثابت ھے اور رسول اللہ کا ادب متقی ھونے کی پہچان بھی ھے۔۔اور تقوی و تزکیہ ھی قرب الٰہی کا باعث ھوتا ھے۔۔اور اسی ترتیب و عمل و اخلاص کی بدولت اللہ پاک انبیاء کی اتباع کرنے والوں کو محبوب بنا لیتا ھے تو وہ بندہ ءخاص نہ صرف محبوب الٰہی ھوتا ھے بلکہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کے دل پہ راج کرنے لگتا ھے۔۔انسان تو انسان ھیں جنات و حیوانات بھی اسکی تعظیم کرنے لگتے ھیں۔۔۔
جب تک حضرت بشر حافی رحمۃاللہ علیہ حیات رھے جانور انکی گزر گاہ سے ھٹ کر چلتے کیونکہ بشرحافی اکثر ننگے پاؤں ھوتے تھے جانوروں کو بھی معلوم تھا کہ یہ محبوب الٰہی ھیں ناپاکی کے احتمال کے ڈر سے راستہ احترامآ چھوڑ کر چلا کرتے تھے۔۔اللہ کے محبوب بندوں کی چاھت میں دست بوسی کے علاؤہ عاشق قدم بوسی بھی کردیتے ھیں۔۔
بات بنیادی طور پر دل کی ھوتی ھی اللہ کے محبوب بندوں کی محبت اللہ خود بندوں کے سینوں میں اتار دیتا
اور اگر اس کیفیت و جذبہ کو مجازی پیمانے سے دیکھیں تو عشق مجنوں کو مجبور کر کے لیلی(لیلا) کے گلی کے کتوں کی قدم بوسی پر مجبور کر دیتا ھے۔۔۔
آجکل کچھ یار لوگوں کو فلاسفی جھاڑنے کا دورہ پڑا ھے کہ قائد کی تعظیم شخصیت پرستی ھے۔۔
ارے بابا جنکا سایہ سر پر ھوتا ھے اور جو سائبان بن کر دھوپ کی شدت سے اولاد کو بچائے خیال رکھے اسکو بھی عرف عام میں سرپرست کہنا و ماننا پڑتا ھے۔۔۔
اور یاد رکھیں اطاعت امیر ادب و احترام و محبت کے بغیر ممکن ھی نہیں ورنہ چارجز کے عیوض سروسز دینا تو ھر کمپنی اور ادارے میں دکھائی دیتا ھے۔۔ ھزاروں لوگ بادشاھوں کے سامنے بھی ادب کی ایکسرسائز کیا کرتے تھے۔۔
باادب با ملاحظہ ھوشیار۔۔
ظل سبحانی کی تشریف آوری پر بہت سے فلاسفر
تعظیمآ کھڑے ھو جاتے اور قدرے سر بھی خم کردیتے۔۔۔
اور یہ آداب شاھی بتائے اور سکھائے جاتے تھے اور ان آداب کی بجاآوری لازم تھی ورنہ دربار شاھی میں آنا محال ھوتا تھا۔۔۔؟
مگر روحانی دنیا میں فقیروں کو شاھوں سے بھی زیادہ عزت و توقیر و تعظیم ملتی ھے۔۔۔
عصر حاضر میں بھی روحانی شخصیات کی ادب و تعظیم کی تمازت و روشنی اللہ پاک اپنے وعدے کے مطابق خود ھی دلوں میں ڈال رھا ھے جسے شخصیت پرستی کہنا پرلے درجے کی تنگ نظری ھے۔۔ھاں جسکو اللہ محبوب بنا لے تو اسے محبوبیت کی نفاستیں بھی عطا فرماتا اور یہ تقاضے پورے کرنے کا حکم بھی دیتا۔۔سورء الحجرات کی اک اک آیت ادب محبوب خدا کیلئے شدت سے اس بات کا تقاضا کرتی ھے۔۔اور جو لوگ رسول اللہ کی اتباع میں فنا ھوں اللہ انکی بھی تعظیم کراتا ھے کیونکہ ایسے ھی لوگ اللہ کے محبوب ھوتے ھیں۔جو اللہ کے محبوب ھوں انہیں شانیں بھی اللہ کی طرف سے ملتی ھیں اور اللہ کے محبوب بندوں کی تعظیم ایک مومن کیلئے اللہ کی عطاؤں کا شکرانہ ھوتا ھے اور اللہ کے مقربین کی ادب،تعظیم ان سے محبت کا پیدا ھونا اللہ پاک کی طرف سے ودیعت بھی ھوتا ھے۔۔
اس دور میں دنیا داری کے تقاضوں کے کچھ نمونے پیش خدمت ھیں تاکہ بات آسانی سے سمجھ آ جائے۔۔
اس دور میں بھی اگر بغور جائزہ لےنشاھدات میں یہ بات ضرور عیاں ھوگی کہ
،،بلاول بھٹو زرداری،، ھوں
یا حمزہ شہباز شریف ھوں
یا میڈم مریم صاحبہ ھوں انکے فالورز بزرگی کی عمر میں ھو کر بھی تعظیم کرتے دکھائی دیتے ھیں سر جھکائے پیچھے چلنے میں اپنی عزت سمجھتے ھیں۔۔
فرقہ پرست ملا ھوں یا سیاسی قائدین ھوں یا کالعدم تنظیمات کے راھبر ۔۔۔۔۔۔۔۔اطاعت و تعظیم انکی بھی انکے فالوور کرتے ھیں۔۔
یہ جانتے ھوئے بھی کہ یہ کم عمر ھیں۔۔۔
یہ جانتے ھوئے بھی کہ اسکی کوئی خدمات نہیں ھیں
یہ جانتے ھوئے بھی کہ یہ کرپٹ ھے
یہ جانتے ھوئے بھی کہ یہ قاتل ھے
یہ جانتے ھوئے بھی کہ یہ اخلاقی اعتبار سے کمزور ھے
یہ جانتے ھوئے بھی کہ یہ روش غدار ی پر ھے
کارکن انکے لئے بھی جذباتی ھیں۔۔
ادب کرتے ھیں دل و جان نچھاور کرتےھیں
سانحہ کارساز میں 360 کارکن شھید ھوئے
جانیں نچھاور کرتے ھیں۔۔؟
دوسری طرف اگر سامنے۔۔
اس صدی کی عظیم شخصیت ھو
جسے اللہ نے علم کے نور سے روشن و تاباں کر دیا ھو
جسے اللہ نے کردار و اخلاق کا بہترین معیار دیا ھو
جسے بولنے کا سلیقہ اور دعوت دین کے اسلوب دئیے ھوں
جو امت کی راھنمائی کیلئے اپنی زندگی لگا چکا ھو
امت کی راھنمائی کیلئے 13000 موضوعاعت پر خطابات کر چکا ھو اور کم و بیش 1200 سے زائد کتب تصنیف کر کے امت کی راھنمائی کا بہترین سامان کر چکا ھو۔۔جس نے شرق سے غرب کروڑوں لوگوں کو پھر سے دین کے ساتھ جوڑ دیا ھو۔۔جس نے اس دور فتن میں( جہاں شب روز ،،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر حملے ھو رھے ھوں) وھاں کروڑوں لوگوں کے عقائد کو محفوظ کر کے چوکھٹ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جوڑ دیا ھو۔۔۔کیا ایسے شخص کی تعظیم نہیں ھونی چاھئیے۔۔۔یہ جانتے ھوئے بھی کہ،،شیخ الاسلام،،بھی ایک انسان ھے یہ بھی سچ ھے کہ
دیکھنے والوں کے بھی پیمانے ھوتے ھیں۔۔
دیکھنے والوں کی نگاہ کا اپنا اپنا معیار ھوتا ھے۔۔
کوئی نفرت اور تنگ نظری سے دیکھے تو نقائص نکالے گا
جو محبت سے دیکھے گا تو ھر ادا لاجواب نظر آئیگی۔۔
میں صرف اتنا کہونگا۔۔۔
آج میرا اگر تعارف ھے
یا لاکھوں لوگ مجھ جیسے شخص کو عزت دیتے ھیں
میں اللہ کے دین کی خاطر شیخ الاسلام کی فکر لیکر فیلڈ میں جاؤں تو چاھنے والے مرشد کا مقام دیتے ھیں۔۔۔
وجہ ایک ھی ھے کہ چنگیاں نال تعلق جو ھے اور وہ میرا چنگا ،،شیخ الاسلام،، ھی تو ھے جس کے ساتھ اخلاص سے جڑ کر
ھم بھی قائد بنے پھرتے ھیں۔۔
میں کارکنان تحریک منہاج القرآن سے عرض کرونگا۔۔۔
اپنے تعلق کو اپنے قائد سے کمزور نہ ھونے دو۔۔۔
اگر یہ تعلق کمزور ھوا تو دشمن تمہیں نگل جائیگا۔۔۔
اگر کچھ فلاسفروں کو یہ راستہ اب راس نہیں آرھا تو انکا نصیب۔۔ انکے لئے اتنی وسیع دنیا میں بڑی گنجائش ھے۔۔
مگر یاد رکھیں جو عزت نام مقام
تم نے یہاں سے پایا کہیں نہیں ملے گا۔۔۔۔
شھید بینظیر بھٹو ایک جلسے میں ریلی کی صورت میں جا رھی تھیں۔۔سندھ کے معروف مخدوم خاندان کا چشم و چراغ انکی گاڑی کی ڈرائیونگ کر رھا تھا دوران ڈرائیونگ اسے چھینک آجاتی ھے اور اسے جھڑک کر گاڑی سے اتار دیا جاتا ھے اور وہ مخدوم زادہ اس قدر سبکی برداشت کر کے بھی بس پر سوار ھو کر جلسہ گاہ پہنچا۔۔۔
یہاں تو کارکن کو عزت و توقیر ملتی ھے۔۔
اور آپ جیسے لوگوں کو بھی بام ثریا تک انکی صحبت نے پہنچایا جسکا ادراک آپ کو بھی ھے مگر نفس کی شرارتیں انسان کو بہت نیچے لے آتی ھیں۔۔
اللہ پاک ھم سب کو عمل تشکیک سے بچائے اور خالص ھو کر دین کی خدمت کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین۔۔
خیر اندیش۔۔۔۔شاکر خان مزاری۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *